پیارے بچوں! معاشرہ نام ہے مل جل
کر رہنے کا، ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کا۔اس معاشرے کے اندر رہنے والے
لوگوں کی طبیعتیں، مزاج اور عادتیں مختلف ہیں۔ ایک بچے کو ایک چیز پسند ہے
تو دوسرے کو وہ چیز پسند نہیں، ایک کو ٹھنڈی ٹھنڈی آئسکریم پسند ہے تو
دوسرے کو گرم گرم سموسے، کوئی سیب کھا کر لطف اندوز ہوتا ہے, تو کسی کو آم
کھانے میں مزا آتا ہے۔ ایک کو ناشتے میں انڈے کا آملیٹ اچھا لگتا ہے, تو
دوسرے کو انڈا فرائی کر کے کھانا اچھا لگتا ہے۔ ایک کو دوپہر کے کھانے میں
شوربے والا سالن چاہیے، تو دوسرے کو خشک بھنا ہوا گوشت والا۔ ایک کو رات
میں دال چاول کھانے ہیں، تو دوسرے کو دہی چاول کھانے ہیں۔ ایک کو ٹی وی پر
فٹ بال کے میچ اچھے لگتے ہیں، تو دوسرے کو کرکٹ میچ۔ ایک بچے کو کمرے کی
سیٹنگ اور انداز کی چاہیے تو دوسرے کو اور طرح کی۔ کسی کو سردی پسند ہے تو
کسی کو گرمی۔ کوئی کھڑکی کھلی رکھ کر بیٹھنا چاہتا ہے اور کوئی بند کر کے۔
کسی کو روشنی میں نیند آتی ہے کسی کو بتی بجھا کر۔ ایک کو ابو سے پیار ہے
تو دوسرے کو امی سے۔
اگر آپ محلے میں آئیں تو چند بچوں کو ہاکی کھیلنا پسند ہے تو چند بچوں کو
فٹ بال۔ کسی کو گلی میں اکٹھے بیٹھ کر باتیں کرنا پسند ہے، تو کوئی اس کو
بُرا سمجھتا ہے۔ بازار میں کسی کو تیز تیز چلنے کی عادت ہے، تو کسی کو
آہستہ آہستہ۔ کوئی ہر دوکان پر رکھی چیز کو دیکھتا ہے، تو کوئی ایک ہی
دوکان سے جا کر اپنی چیز خریدتا ہے اور واپس آجاتا ہے۔
جب دوسرے شہر میں جاتا ہے تو وہاں ایک کی زبان کچھ اور ہے تو دوسرا کسی اور
زبان میں بولتا ہے۔ کوئی شہر کی زندگی کو پسند کرتا ہے تو کوئی دیہات کی
زندگی کو۔ کسی کو دھوتی کرتا پہننا ہے، تو کوئی دفتر میں بیٹھنے کے لئے
پینٹ شرٹ پہنتا ہے۔ جب ملک سے باہر جاتا ہے تو پھر رنگ کا فرق پڑتا ہے۔
کوئی کالا ہے تو کوئی گورا ہے۔ کوئی سرخ رنگ کا ہے کوئی سانولا۔
پیارے بچوں!یہ سب انسان ہیں ان میں مشترکہ چیز انسانیت ہے۔ اب ایک چیز تو
یہ ہے کہ ہم اپنی پسند نا پسند کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑنے لگیں۔ ایک
دوسرے کو برداشت کرنا چھوڑ دیں۔ پھر ڈنڈے، پستولیں، بندوق لے کر ایک دوسرے
پر چڑھ دوڑیں۔ ہر وقت غصے میں لال پیلے ہو کر پھریں۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ
ہمارے گھروں، محلوں، شہروں میں، ملکوں میں لڑائی کیوں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ
ہمارا ایک دوسرے کو نہ برداشت کرنا ہے۔ ایک دوسرے کی پسند نا پسند کا خیال
نہ رکھنا۔ صرف اپنی طبیعت اور عادت کو مسلط کرنا۔ ذرا طبیعت سے ہٹ کر کوئی
کام ہوا تو غصے میں لال پیلے ہو کر اودھم مچانے لگتے ہیں۔ یہ غصہ کیا
ہے؟اللہ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں قہر(سختی) اور نرمی دونوں چیزیں رکھی
ہیں۔ تو انسان پر قاہرانہ طبیعت کا غالب ہو جانا جس سے وہ انتقام لیتا ہے
اور مقابل کو شکست دینا چاہتا ہے۔
اگر غصہ کی کیفیت پر انسان کا قابو نہیں ہے تو یہ ایک بُری عادت ہے۔ قرآن
حکیم میں اس غصہ کو آگ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔”آگ ہے اللہ کی وہ جھانک لیتی
ہے دل کو(الھمزہ:6)۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے فرمایا کہ غصہ شیطان سے ہے اور
شیطان آگ سے بنا ہے اور آگ کو پانی ٹھنڈا کرتا ہے، تو جس کو غصہ آئے اس کو
چاہیے کہ وضو کر لے۔ پیارے بچوں!اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق غصہ
آنا اگرچہ انسان کی عادت میں ہے، مگر انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ بری عادت
کو چھوڑتا ہے۔ اچھی عادت کو اپناتا ہے۔ ایک دفعہ حضور اکرم نے صحابہ ؓ سے
پوچھا کہ”تم پہلوان کس کو کہتے ہو؟صحابہ نے کہا کہ جس کو لوگ پچھاڑ نہ سکیں
(یعنی کشتی میں اس کو گرایا نہ جاسکے)۔آپ نے فرمایا کہ نہیں پہلوان وہ ہے
جو غصہ میں اپنے آپ پر قابو رکھے۔
پیارے بچوں! ہمارے سچے نبی حضور اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق غصہ کو برداشت
کرنا کتنا ضروری ہے۔ جبکہ ہم فوراً ایک دوسرے سے مار کٹائی گالم گلوچ پر
اتر آتے ہیں۔ گھر میں سالن مرضی کا نہیں پکا تو امی جان کو دو چار سنا دیں۔
برتن اٹھا کر مارنے لگتے ہیں۔ ابو سے کچھ مانگا وہ نہ لاسکے تو بھوک ہڑتال
کر کے والدین کو پریشان کرتے ہیں۔ گھر میں بھائی نے ہماری کسی چیز کو ہاتھ
لگا دیا تو اس سے ہاتھا پائی کرنے لگ جاتے ہیں۔ کمرے کی چیزیں توڑنے لگتے
ہیں۔ راستے میں گزرتے ہوئے کسی سے غلطی سے ٹکر ہوجائے تو اس کا گریبان پکڑ
کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سکول میں ایک ہی بینچ پر اکٹھے بیٹھتے ہیں، ایک دوسرے
کو کہنی لگے جائے یا کسی بچہ نے بے احتیاطی سے پین کو جھٹکا تو سیاہی کا
ایک دھبہ ہمارے کپڑوں پر گر جائے تو فوراً غصہ میں آجاتے ہیں۔ استاد کی
پرواہ کئے بغیر اپنے ساتھی کو برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔ بعض مرتبہ تو
نوبت لڑائی تک آپہنچتی ہے۔ سکول کے بعد سڑک پر ایک دوسرے سے لڑنے لگتے ہیں۔
کوئی سادہ دیہاتی شہر میں آجائے، تو ہم اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کسی دوسری
زبان کے الفاظ کو بگاڑ کر بولتے ہیں، اگر وہ دیہاتی یا دوسری زبان والا اس
کا برا مان جائے تو لڑائی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح گورے رنگ کے لوگ کالے رنگ
والے کو برا سمجھتے ہیں، نفرت کرتے ہیں، اس کا وجود برداشت کرنے کو تیار
نہیں ہوتے۔ یعنی دنیا میں بہت سے فسادات کی ایک بڑی وجہ ایک دوسرے کو
برداشت نہ کرنا ہے۔ محض اپنی بات منوانا ہے۔
پیارے بچوں! کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ جس طرح ہماری کوئی پسند ہے، ہماری
کوئی خواہش ہے، ہمارا مزاج یا ہماری کوئی عادت ہے، اس طرح ہمارے دوسرے
بھائی، محلہ والے، شہر والے کی بھی اپنی عادت ہے، خواہش ہے، ہمیں اس کا بھی
احترام کرنا چاہیے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی
کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ یعنی اگر ہمیں اپنی عادت اور
خواہش پسند ہے تو ایسا ہی ہمیں اپنے مسلمان بھائی کیلئے سوچنا ہے۔ اس کا یہ
مطلب بھی نہیں کہ ہم اپنی پسند دوسروں پر ٹھونس دیں، بلکہ اس کی خواہش اور
پسند کا بھی ویسا ہی خیال رکھنا ہے جیسے ہم اپنی پسند کا رکھتے ہیں۔
پیارے بچوں! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئی چیز بیکار تو پیدا
نہیں کی۔ تو انسان جیسی عظیم ہستی میں غصہ جیسی آگ کیوں رکھی؟ دراصل معاشرے
میں کچھ ظالم لوگ ہوتے ہیں۔ غریبوں، کمزوروں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر
ظلم کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ پہلے تو ہم انہیں سدھاریں، اگر وہ نہ سدھریں
تو پھر ہم اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے اپنی اس (قہر کی)طبیعت کو عمل میں
لائیں اور ان ظالم لوگوں سے نبٹیں۔ جیسے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے ابوجہل اور ابولہب کے ظلم کو ختم کیا۔ موسیٰ ؑ نے فرعون کے ظلم کو اور
ابراہیم ؑ نے نمرود کو ظلم سے روکا۔ اصحاب کہف کے نوجوانوں نے دقیانوس
بادشاہ کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ تم
میں سے ہر طاقتور میرے لئے کمزور ہے جب تک میں اس سے کمزور کا حق نہ دلوا
دوں، ہمیں ایک دوسرے سے بالکل نہیں لڑنا چاہیے۔ اگر کسی سے کوئی اونچ نیچ
ہوجائے تو ہم سے بھی تو ایسا ہو سکتا ہے، آج ہم معاف کردیں کل ہماری غلطی
پر ہمیں معافی مل جائے گی۔ ہمارا اللہ بھی تو ہمارے گناہوں کو معاف کرتا
ہے۔ یاد رکھو! جب ایک گھر میں ایک ہی محلہ میں ایک شہر اور ملک میں رہنے
والے کو ایک دوسرے کو برداشت نہ کریں تو وہ قوم تباہ ہوجاتی ہے اور دشمن ان
پر غالب آجاتا ہے۔
پیارے بچوں!اب آپ کے ذہن میں آرہا ہوگا کہ اگر کوئی ہم سے زیادتی کرتا ہے
تو اس کا کیا کریں؟تو آئیے قرآن حکیم کا حکم جانتے ہیں کہ وہ ہماری کیا
رہنمائی کرتا ہے سورة شورٰی کی آیت 37 ہے ” اور(نیک لوگوں کو) جب غصہ آئے
تو وہ معاف کردیتے ہیں“۔ پھر فرمایا”کسی کی برائی کو معاف کردو“تو بے شک
اللہ معاف کرنے والا قدرت والا ہے (نساء۹۴۱) ۔ ”اور چاہیے کہ وہ معاف کردیں
اور درگزر کریں کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تم کو معاف کرے اور اللہ معاف
کرنے والا ہے “(سورة نور۲۲)البتہ جو شخص صبر کرے اور(دوسرے کی خطا)بخش دے
تو بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔(شورٰی ۳۴ )۔
پیارے بچوں! جب ہم نے ایک چھت کے نیچے رہنا ہے ایک محلہ میں رہنا ہے، ایک
سکول میں پڑھنا ہے، ایک ہی شہر اور ملک میں رہنا ہے، تو ہمیں ایک دوسرے کو
برداشت کرنے کی عادت اپنانا ہوگی۔ ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنا ہوگا۔ معاف
کرنا سیکھنا ہوگا۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے کہ ”بھلائی اور برائی برابر
نہیں (اگر کوئی برائی کرے تو اس کا)جواب اچھائی سے دو۔ پھر تو تیرے اور جس
کے درمیان دشمنی ہے وہ ایسا ہوجائے گا گویا دوست ہے ناتے والا (یعنی تعلق
والا) اور یہ بات ملتی ہے انہی کو جس میں صبر ہے اور یہ بات ملتی ہے اس کو
جس کی بڑی قسمت ہے “(حم سجدہ ۔۴ ۳تا۶۳)۔
پیارے بچوں!پھر اگر کوئی ایسا شخص ہو جسمیں بہت زیادہ غصہ ہو، اسکا غصہ
ناقابل برداشت ہو، ہوسکتا ہے وہ بڑوں کے کہنے پر وقتی طور پر تومعاف کردے،
دل میں انتقام لینے کی خواہش کو دبا لے، موقع کی تاک میں رہے، یہ بھی بری
بات ہے۔ اس کو چاہیے کہ دل میں بات نہ رکھے بلکہ قرآن حکیم میں ہے ”اگر تم
سزا دو تو اس قدر جس قدر تم کو تکلیف دی گئی“۔ یعنی اول تو معاف کرنا بہتر
تھا پھر بھی اگر آپ بدلہ لینا چاہو تو ایک تھپڑ کے بدلے ایک تھپڑ ہی۔ اگر
دو مارو گے تو یہ زیادتی ہوگی۔ آخرت میں اس کا بدلہ ملے گا۔ اگر تھپڑ آہستہ
مارا ہے تو بدلہ میں بھی آہستہ ہی مارو۔
پیارے بچوں! اگر آپ کے دو دوست یا بھائی غصہ سے بے قابو ہو کر ایک دوسرے سے
لڑ پڑیں۔ تو ان کے درمیان صلح کروا دو۔ آپس میں تین دن سے زیادہ ناراضگی
نہیں رکھنی چاہیے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مومن
کے لئے جائز نہیں کہ کسی مومن کو تین دن سے زیادہ چھوڑے، جب تین دن ہو
جائیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے آکر ملے، پھر سلام کرے تو اگر دوسرے
نے جواب دیا تو دونوں کو مزدوری (یعنی اچھا بدلہ ) ملی۔ اگر اس نے جواب
نہیں دیا تو وہ (جواب نہ دینے والا)گناہ لے کر لوٹا“۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ
ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ |