شادی بیاہ میں فضول خرچیاں!

شادی بیاہ اور نکاح یقیناً ہمارے معاشرے کا ایک ایسا پاک بندہن ہے جو کہ سماج میں پاکیزہ اور صرف و شفاف ماحول کی بنیاد رکھتا ہے ۔جبکہ ایک حدیث پاک میں نکاح کو قلع سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی شادی کے بعد آدمی ایک طرح سے بہت سی برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔اس لیے کہا گیا ہے کہ شادی کو بہت آسان بنا نا چاہیے تاکہ معاشرے کو زنا و ناجائز جنسی براییؤں سے پاک رکھا جاسکے ۔جب شادی کم خرچ میں ہو پائے گی تو غریب سے غریب صاحب اولاد اپنے جوان بچوں کی شادی بہ آسانی خوشی خوشی کرنے کے اہل ہوگا ۔ویسے بھی شادی جتنی سادگی سے ہوگی اس میں اتنی ہی زیادہ برکات ہونگی۔ لیکن آج اگر ہم اپنے ارد گرد ہونے والی شادیوں کا جائزہ لیں تو شادی بیاہ کے موقع پر بہت سی فضول ریوجات ہمارے معاشرے میں پولیوشن کی طرح پھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہیں اور ان سے روزانہ زندگی جینے والے عام لوگ اور غریب لوگ بھی بے حد متاثر ہو رہے ہیں یقیناً یہ ایسی فضول رسومات ہیں جن میں وقت اور پیسہ تو فضول ضائع ہو ہی رہا ہے اور ساتھ ہی خونی رشتوں میں دراریں پڑ رہی ہیں اگر سچ کہیں تو خالص رشتوں میں بھی تصنع و بناوٹی پن کا پولیوشن پھیل رہا ہے۔حال میں ہی یعنی سات مارچ کو ملتان میں ملتان کے ہی ایک رہائشی نوجوان عرفان شیخ کی خواہش تھی کہ وہ اپنی بارات شیر پر لے کر جائے۔ تو عرفان والد نے عرفان کا یہ خواب پورا کیا۔ یہی نہیں اپنی شادی پر عرفان نے سونے کا سہرا بھی سجایا جس پر عرفان نے سب کی توجہ حاصل کر لی۔سونے کا یہ سہرا عرفان کو اس کے ماموں کی طرف سے تحفے میں دیا گیا تھا۔دلہے کے والد نے اپنے بیٹے کی شادی پر پیسہ پانی کی طرح بہایا اور کم و بیش 15 ہزار مہمانوں کو بھی مدعو کیا۔ یہی نہیں شادی کی تقریب میں سائیں ظہور کی لائیو پرفارمنس بھی کروائی گئی۔ دلہے کے والد شیخ حشمت کا کہنا تھا کہ ہمارے پہلے بیٹے کی خوشی تھی جسے ہم نے بھر پور انداز میں منایا۔ لڑکے والوں کے شاہی خرچ دیکھ کر لڑکی والے بھی پیچھے نہیں رہے اور اپنی بیٹی کو 5 کروڑ روپے کا جہیز دے ڈالا۔ جہیز پیکج میں دلہے کے لیے نئی گاڑی، دلہے کے بھائیوں کے لیے موٹر سائیکلیں اور تین درجن سے زائد سونے کی انگوٹھیاں بھی شامل تھیں۔

شادی بیاہ منگنی واغیرہ کے موقع پر متوسط طبقہ کے آفرادنہ چاہتے ہوئے بھی بے فضول رسومات کو ادا کرنے کے دوران مالی پریشانی کا شکار ہو تے ہیں اور ساتھ ہی انہیں بہت سی دیگر مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ، یا یوں کہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان بے فضول قسم کی رسومات کو نبھانا لوگ اپنی اناء کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور کئی بار مشاہدہ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لوگ اپنی جھوٹی ناک کو بچانے کیلئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ہر چھوٹی بڑی رسم نبانے کے موقع پر جس طرح سے کچھ لوگ اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے کیلئے بے تحاشہ پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔ اس سے یقیناً ان لوگوں کی عقل کادیوالیہ پن ظاہر ہوتا ہے، اگر ہم ایک متوسط طبقہ کی شادی کو ہی لیں تو پیلس،ویٹر ز، مٹھائی، ٹینٹ، والوں کے لیے ایک چھوٹی سی شادی کی تقریب بھی اتنا وسیع پیمانے کا دھندہ بن چکا ہے کہ اسے تفصیل سے بیان کرنے کے لیے الگ سے ایک اور کالم درکار ہو گا ۔ جس طرح سے بہت ہی مہنگے داموں پر پیلیس بک کر نا ایک طرح سے سٹیٹس بنتا جا رہاہے ۔ اس کو کسی بھی صورت میں صحیح نہیں کہا جا سکتا اور پھر مختلف پروگراموں کو انجام دینے کے لیے جس طرح سے پانی کی طرح بے تحاشا پیسہ بہایا جاتا ہے ،اس سے معاشرے میں بہت ہی غلط پیغام جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ امیروں کے چوچلوں میں متوسط اور غریب طبقہ خوامخوہ قربانی کا بکرا بنتا جا رہاہے۔ امیر وں کا یہ خیال ہے کہ ان کے اس طرح کے بے جا اصراف سے عام لوگ انکی تعریف کریں گے اور عوام الناس پر ان کا رعب اور دبدبہ پڑے گا لیکن یہ لوگ ا حمقوں کی جنت میں رہتے ہے اور ان کی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ بھلے ہی ایسے افراد کے منہ پر کچھ لوگ انکی جھوٹی تعریف کریں، مگر ان کے پیٹھ پیچھے تو لوگ انکا مزاق ہی اڑاتھے ہیں ۔ شادی بیاہ منگنی واغیرہ کا جائزہ لیں تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جن چیزوں کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ان چیزوں کو بھی ہم اپنی شادیوں کی رسومات کا ضروری حصہ بنانے میں اپنی شان و ناموس کا خیال کرتے ہیں مگرمیں سمجھتا ہوں جو پیسہ ایسے لوگ بے فضول دکھاوے و نمائش لیے پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔ اگر وہی پیسہ کسی غریب و لاچار بچی کی شادی کرنے، یا کسی غریب تنگ دست کی مالی امداد پر خرچ کر دیں تو یہ ان کے لیے اور مجموعی معاشرے کیلئے ایک فلاحی کام ہو گا اور یقیناً اس کا ر خیر سے جو ان کو خوشی ملے گی وہ لامحدود ہو گی ۔ جبکہ آخیرت میں نا ختم ہونے والا اجر بھی ملے گا۔ ا سلام کیا کہتا ہے اس فضول خرچی پر ؟ فضول خرچی ایک ایسا گناہ ے جس کے مضر اثرات سے صرف ایک فرد ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ پورا معاشرہ اس کے برے اثرات سے متاثر ہوتا ہے۔ فضول خرچی خود نمائی، باہمی جذبہ تفاخر، کبرو غرور کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں فضول خرچی اتنی بری چیز ہے کہ اس نے فضول خرچی کرنے والے انسان کو شیطان کا بھائی کہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:رشتہ داروں،مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دیتے رہو اور فضول خرچی کرنے سے بچتے رہو بلا شبہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکر اہے۔ (بنی اسرائیل ۶۲،۷۲)حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ فضول خرچی کے معنی یہ ہیں کہ مال کو باطل اور ناجائز جگہوں میں خرچ کیا جائے اگر نیکی کے کام میں خرچ کیا جائے تو وہ فضول خرچی نہیں۔حضرت سعد رضی اﷲ عنہ ایک بار وضو کرتے وقت زیادہ پانی بہا رہے تھے۔ رسول اﷲ ﷺ حضرت سعد کے پاس سے گزرے تو فرمایا: اے سعد تم فضول خرچی کر رہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ کیا وضو میں زیادہ پانی بہانا بھی فضول خرچی ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اگرچہ تم دریا کے بہتے ہوئے پانی میں وضو کرو۔(سنن ابن ماجہ)

اس لئے ہمارا یہ اولین فرض بنتا ہے کہ ہم لوگوں کو سادہ شادی بیاہ و منگنی کرنے کی تلقین و ترغیب دیں تاکہ ہمارے معاشرے میں جن غریب و لاچار والدین کے لڑکیاں جوان ہیں ان کو اپنی بچیوں کی شادیاں کرنے میں آسانیاں پیدا ہو ں ۔ نکاح اور شادی کو اسان بنائیں، اس ضمن میں خیبر پختون خوا حکومت کا جہیز پر پابندی کا فیصلہ قابل تحسین ہے ۔اس ضمن میں وفاقی و اصلاحی اداروں کو بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ سادہ شادی کرنے کی لوگوں میں تبلیغ و تلقین کرتے رہیں۔سرکاری سطح پر جس طرح نشہ آور ادویات کے خلاف اور پولیو کے خلاف لوگوں میں بیدار ی لانے کے لیے مہم چلائی جارہی ہے۔ ایسے ہی اصراف شادی بیاہ میں فضول خرچیاں بے فضول قسم کی رسومات کے خلاف بھی لوگوں میں بیدار ی پیدا کرنے کے لیے مہم چلائی جانی چاہیے یقیناً ایسے اقدامات سے معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں برپا ہو سکتی ہیں ۔اﷲ ہم کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائیں (آمین)

Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 16 Articles with 21122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.