دروازے ہلکی سی دستک کے ساتھ کھلا ، وہ سمجھی کہ سہیل یا
آنٹی ہوگی، پر جب اسنے پلٹ کر دیکھا تو اسکی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی
رہ گئی۔
سامنے والی رضا کھڑا اسے دیکھ رہا تھا وہ جلدی سے اٹھ کر اپنا دوپٹہ تلاش
کرنے لگی ، جو اسے تھوڑی تگ و دو کے بعد مل گیا تھا ۔ اس نے دوپٹے سے خود
کو اچھے سے کور کر لیا تھا ۔ اور دل ہی دل میں خود کو کوس رہی تھی کہ اسنے
دروازہ لاک کیوں نہیں کیا تھا۔
والی خاموشی سے اسکی ساری کاروائی دیکھ رہا تھا ، اور اس طرح اندر آنے پر
شرمندہ بھی تھا۔
“ میں تم سے آج کے رویئے کی معافی مانگنے آٰیا تھا ۔ ایم سوری حسنہ کوشش
کروں گا اب ایسا نا ہو۔“ وہ اتنا کہہ کر رکا نہیں فورا وہاں سے چلا گیا۔
حسنہ حیران تھی وہ پل پل بدلتے اس آدمی کے روپ دیکھ رہی تھی۔ کیا اسکے اندر
بھی دل ہے ؟ دل ہے تو معافی مانگی نا اسنے ۔ وہ خود سے ہی سوال جواب کرتی
خوش ہو رہی تھی ۔ کیا ہے یہ انسان ایک منٹ میں کبھی آگ بن جاتا ، کبی شبنم
کی ٹھنڈی پھوار بن کر دل میں سکون سا اتار جاتا ہے ۔ وہ کافی دیر تک اسکے
بارے میں سوچتی رہی اور اسے سوچتے جانے کب وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
صبح ناشتے کی ٹیبل پر سب ہی نے حسنہ کی مسکراہٹ کو نوٹ کیا جو اسکے ہونٹوں
پر بار بار آکر رونق بخش رہی تھی ۔ جو اسکی دلکشی میں مزید اضافہ کا باعث
بن رہی تھی۔
شازمہ اور سہیل نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر حسنہ کی طرف دیکھ کر مسکرا
دیئے۔
“ ماما میں اسی مہینے شادی کرنا چاہتا ہوں “ والی نے جوس کا گلاس بھرتے
ہوئے اطمینان سے کہا۔
“ کیا اتنا کم ٹائم “ شازمہ نے چونک کر کہا ،،،جبکہ حسنہ کا ہاتھ چاول منہ
تک لے جاتے ہی رک گیا ،،،سہیل نے ایک نظر والی پھر حسنہ کو دیکھا سب کا
حیران ہونا ٹھیک تھا ۔ کیونکہ کچھ دن پہلے والی اس شادی کے خلاف تھا بعد
میں مانا ضرور تھا ، پر کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی شادی کا
کہے گا ۔
شازمہ یہ بات اچھے سے جانتی تھی کہ والی کو کوئی بھی کسی بھی بات کے لئے
مجبور نہیں کر سکتا ۔ وہ آج تک بس اپنی مرضی کرتا آیا ہے ، اگر وہ شادی کا
کہہ رہا ہے تو اس نے یقینآ سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا ۔
“ آپ حیران کیوں ہو رہی ہیں ؟ جب شادی ہی کرنی ہے ،تو اسی مہینے کیوں نہیں
“ والی کے اطمینان میں زرا بھی کمی نہیں آئی ، وہ ویسے ہی ناشتہ کرنے میں
مصروف تھا۔
“ پر بیٹا اتنی جلدی سب تیاریاں کیسے ہوگی “ شازمہ نے اپنی پریشانی بتائی ۔
“اس سب کی آپ فکر نہ کریں میں سب تیاریاں دیکھ لوں گا “ وہ اتنا کہہ کر
نیپکن سے ہاتھ منہ صاف کرتا بغیر کسی کی طرف دیکھے آفس کے لئے نکل گیا۔
باقی سب ایک دوسرے کو حیرانی سے دیکھتے رہ گئے۔ (جاری ہے ) |