باہر اسلم بھائی کھڑے ہوئے تھے سلمان نے دروازہ کھولا
----
یار کیا حال بنا رکھا ہے ---
سلمان کا حلیہ دیکھ کر اسلم کی زبان ریڈیو کی طرح چلنے لگی تھی---
کہے عشق تو نہیں ہو گیا----
نہیں دوست اللہ کا شکر ہے میرا مرض موذی نہیں ہے ---- سلمان نے ہنستے ہوئے
ہلکے پلکے لہجے میں کہا ---
اسلم نے تشویش سے سلمان کو دیکھا ---
یار کیا مطلب ہے---
سلمان ہنس دیا---
اسلم بھائی ٹینشن نہ لو زرا سا بخار آ گیا ہے اس سے انسان بچ جاتا ہے ----
اسلم نے کانوں کو ہاتھ لگایا --- یار تیری باتیں مجھے سمجھ نہیں آتی---
سلمان نے ہنستے ہوئے کہا ---- یار سیدھی سی بات ہے عشق سے انسان بچتا نہیٰں
ہے اور اگر بچ بھی جائے تو دھوبی کے کتے کی طرح ہو جاتے ہے-- نہ گھر کا نہ
گھاٹ کا---- اب سمجھے؟
اسلم نے ہاتھ جوڑ دیئے بھائی تیری باتیں تو ہی جانے -- اچھا یہ بتا کچھ
کھایا پیا ، دوا دارو لی یا یوں ہی پڑا ہے --- اس کی طرح ---
سلمان نے حیرت سے اسلم کو دیکھا -- بھائی کس کی طرح؟
یار وہی جو دھوبی کے پاس ہوتا ہے----
یہ کہہ کر اسلم نے زور سے قہقہہ لگایا---
سلمان مسکرا دیا--
اسلم مستری تھا دو بچے تھے حالات اس کی بھی باقی بستی والوں جیسے تھے --
کام مل گیا تو مرغ فرائی ورنہ دال فرائی--- اچھی بات یہ تھی کہ اپنے دونوں
بچوں کو پڑھا رہا تھا --- سلمان بھی اس کے بچوں کو پڑھا دیا کرتا تھا جس کی
وجہ سے وہ دونوں میاں بیوی اس کی بہت عزت کرتے تھے --- اسلم بھی لگا ہوا
تھا کہ کسی طرح سلمان کو جاب مل جائے---- جن ساتھیوں کے اس نے گھر بنائے
تھے سب سے کہہ چکا تھا --- مگر ابھی تک سلمان کی قسمت کی خوشبختی نے اس کے
دروازے پر دستک نہیں دی تھی---
کچھ ہوا بابو کچھ کام شام کا --- اسلم نے ہلکے پلکے انداز میں پوچھا ----
سلمان کی خاموشی نے اس کو جواب دے دیا ---
خیر یار یہ تیرے ایک اکیلے کا مسلہ نہیں ہے ساری دنیا ہی پیسے کے پیچھے
بھاگ رہی ہیں اور پیسہSaithun کی تجوری سے باہر نکال کے ہی نہیں دیتا
یار----
پھر سلمان پر ایک نظر ڈالی کیا حال بنایا ہوا ہے مجھ سے بھی عمر میں بڑا لگ
رہا ہے تو بابو ہی اچھا لگتا ہے---Sad فلموں کا ہیرو نہ بنا کر --- آج کل
Sad Story کوئی پسند نہیں کرتا----
سلمان نے کہا یار ایسا کچھ نہیں بس طبیعت ٹھیک نہیں اور موسم بھی سرد ہے
----
یار اپنی عمر دیکھ اور سردی لگ رہی ہے حد ہے ویسے جوان آدمی ہو یہ سردی تو
ہم دو بچوں کے باپ کو لگتی ہے-
سلمان ہنس دیا ---
یار میری عمر ہے کوئی سویٹر تو نہیں جو اس میں سردی نہ لگے ----
واہ واہ اب آیا نہ مزا --- اسلم نے زور سے سلمان کے کندھے پر ہاتھ مارا ---
سلمان اس کے ہتھوڑے جیسے ہاتھ سے لرز گیا اس کے کھانسنے پر اسلم کو احساس
ہوا کہ وار زور دار ہو گیا تھا---
اف سوری یار میں ابھی تمہاری بھابی کو کہتا ہوں کچھ ایسا بنا دے کہ تو کم
سے کم 25 سال تک فوت نہ ہو ----
وہ اٹھ کے جانے کو تھا سلمان نے ہاتھ پکڑ کر بیٹھا لیا ---
اسلم بھائی بھوک لگی تو خود ہی کہہ دوگا ---
ٹھیک ہے مگر خبر دار اگر ہوٹل جا کے کھانا کھایا تو جب تک بیمار ہو میرے
مہمان ہو ں سمجھے ---
اسلم نے سنجیدہ لہجے میں زور سے کر کہا -------(جاری ہے)
|