میرا بھائی مجھ سے چار سال بڑا ہے بچپن میں وہ مجھے بالکل
بھی اچھا نہیں لگتا تھا ، میں یہ بات اس کے منہ پر بربلا جھجک کہہ دیا کرتی
تھی کہ بھائی تم مجھے بالکل پسند نہیں ہو، یہ کلمات سن کر وہ زور سے ہنستا
اور چلا جاتا ۔اس ناپسندیدگی کی بہت ساری وجوہات تھیں ۔ بھائی مجھے کبھی
سکون سے بیٹھنے نہ دیتا ، ہر وقت تنگ کرنا اس کا شیوا تھا ، کبھی میری پونی
ٹیل پکڑ کر کھینچ دینا ، میرے گال نوچ کر چلے جانا ، میری گڑیا کے ہاتھ
پاؤں توڑ دینا ، میں تین پیہوں کی سائیکل آرام آرام سے چلاتی تو وہ اچانک
پیچھے سے آتا اور زور سے دھکا دیتا میری سائیکل تیز چلنے لگتی اور بے قابو
ہوکرکبھی دیوار سے ٹکڑا جاتی یا کبھی میں گر جاتی، جب میں چھت پر جاتی تو
نیچے سے سیڑھی ہٹا دیتا اور بھاگ جاتا میں اوپر بیٹھی روتی رہتی ۔
ایک دن تنگ آکر میں نے ابو سے بھائی کی شکایتل گائی ۔ اس دن بھائی کو ابو
سے بہت مار پڑی، ابو بھائی کو مارتے جاتے اور میں پیچھے بیٹھے یہ منظر دیکھ
کر آنسو بہاتی جاتی،جب ابو بھائی کو چھوڑ کو چلے گئے تو میں سوجی آنکھوں کے
ساتھ بھائی کے پاس آئی اور کہا بھائی سوری ،آئندہ میں تمھاری شکایت نہیں
لگاوں گی ۔ بھائی ہنستے ہوئے بولا ،تم بے شک میری شکایت لگاؤیا نا لگاؤ،
لیکن میں تم کو تنگ کرنے سے باز نہیں آوں نگا ۔ میں بھائی کی ڈہیٹنس پر
حیران رہ گئی ۔ دن یونہی گزرتے گئے ۔ ایک دن میں نے امی سے کہا کہ یہ بھائی
مجھے بالکل پسند نہیں ہے،مجھے بہت تنگ کرتا ہے ۔
اس دن امی نے مجھ پر ایک انکشاف کیاجسے میں سن کر حیران رہ گئی ۔امی بولی ،تم
کو وہ بھائی پسندنہیں جو تم کو سب سے زیادہ چاہتا ہے ۔ میں حیرت سے بولی،
امی بھائی کو تو میں بالکل پسندنہیں، اسی لیے تو مجھے تنگ کرتا ہے ، امی
مسکرائیں اور بولی نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے ۔ بھائیوں کے محبت کرنے کا انداز
ایسا ہی ہوتا ہے وہ بہنوں کو تنگ کرکے اپنی محبت جتاتے ہیں ۔
اس انکشاف کے بعد میں نے بھائی سے چڑنا چھوڑ دیا اور آہستہ آہستہ میری
بھائی سے دوستی ہوگئی ۔بھائی کالج میں اگیا اور میں ساتویں کلاس میں ۔
ہمارے گھر میں فلمیں دیکھنے پر پابندی تھی ۔ بھائی اپنے دوست کے گھر فلم
دہکھنے جاتا اور مجھے کہتا کہ میرے فلم دیکھنے کا کسی کو نہیں بتانا ، میں
تم کو واپس اکر فلم کی پوری کہانی سناوں گا۔میں کسی کو نا بتاتی اور بھائی
آکر مجھے فلم کی کہانی سناتا ۔ بھائی کی فلم کی کہانی اتنی صاف ستری ہوتی
کہ میں سوچتی کہ فلمیں دیکھنے کو لوگ برا کیوں کہتے ہیں ۔
بھائی ٹیوشن پڑھانے لگا تو بھائی کے پاس پیسے بھی ہوتے تھے تو میں بھائی سے
کبھی آئس کریم کی فرمائش کرتی، تو کبھی چاٹ کی، بھائی میری چھوٹی چھوٹی
فرمائشیں خوشی خوشی پوری کرتا ۔جب بھائی کاایڈمیشن یونیورسٹی میں ہوا، تو
فلموں کی کہانیوں کی جگہ کلاس کی لڑکیوں نے لے لی ۔ روزکسی نہ کسی لڑکی سے
بھائی کی سلام دعا ہوتی، بھائی اس کو ایسے بیان کرتا کہ جیسے ایک گھنٹہ
باتیں کرکے آیا ہے ۔ میں بھائی کی باتیں اسے ذوق و شوق سے سنتی جیسے وہ
سناتا تھا ۔
شادی کی تقاریب میں امی نے مجھے لپ اسٹک لگانے کی اجازت دے رکھی تھی ۔ میں
تیار ہوکر آتی تو بھائی امی سے زور سے کہتا کہ امی اس سے کہیں لپ اسٹک ہلکی
کرے ۔ میں غصہ میں اپنی لپ اسٹک مٹا دیتی اور ویسے ہی زور سے کہتی کہ امی
بھائی مجھ سے جلتا ہے اسی لیے نہیں چاہتا کہ میں اچھی لگوں اور بھائی سے
ناراض ہوکرجانے لگتی تو بھائی میرے گال پر ہلکہ سا مکہ مار کر کہتا کہ اپنا
منہ ٹھیک کرو اتنی ڈراونی لگ رہی ہو وہاں سب ڈر جائیں گے ۔جب میری شادی
ہونے لگی تو بھائی نے مجھے بہت تنگ کیا ، کہتا تھا کہ میرا دل کررہا ہے کہ
تمھارے ہونے والے ان کو کہوں کہ بھائی کیوں اپنے پاوئں پر کلہاڑا مارتے ہو
۔ کبھی کہتا ، تمارے ان کی تو جنت پکی زندگی بھر تم کو جو برداشت کرنا ہے ۔
میری شادی کے دو سال بعد بھائی کی شادی ہوگئی ۔ بھائی کی شادی والے دن میں
نے بھائی کو بہت تنگ کیا اس دن خاموشی سے سب برداشت کرگیا ۔ اور صرف
مسکراتا رہا ۔بھائی شادی کے بعد مڈل ایسٹ چلا گیا اور میں یورپ ۔ بھائی
پاکستان صرف ایک مہینے میں آتا اور ہم بھی اسی مہینے پاکستا ن آجاتے ،ایک
مرتبہ تین سال تک میری بھائی سے ملاقات نا ہوسکی ، فون پر بھی سلام دعا سے
زیادہ بات نا ہوپاتی ، بھابی سے میں کافی باتیں کرتی لیکن بھائی سے بات ہی
نا ہوتی ۔ میں سوچتی تھی کہ شادی کے بعد بھائیوں کو بہنیں یاد نہیں آتی،
شاید اسی لیے خاموش ہوجاتی ۔
تین سال بعد ایک دن بھائی کا فون آیا کہ تم اس سال پاکستان کب آؤ گی میں تم
سے ملنے آؤں گا،بہت عرصہ ہوگیاہے تم کو دیکھے ہوئے ، اس دن میں بہت روئی کہ
میں سوچتی تھی کہ بھائیوں کو شادی کے بعد بہنیں یاد نہیں آتی ۔
میں پاکستان گئی تو بھائی مجھ سے ملنے آیا ، بھائی بہت بدلا بدلا سا لگ رہا
تھا۔ نا اس کی آنکھوں میں شرارتی چمک تھی اور نا چہرے پر ویسی مسکراہٹ، نا
وہ بات بات پر ہنستا تھا ۔ اس کی شوخی جیسے غائب ہی ہوگئی تھی ۔ وہ بہت
سنجیدہ ، بارعب مرد بن چکا تھا ۔ اور کچھ پریشان سا بھی لگ رہا تھا،میری
بھائی سے زیادہ بات نا ہوسکی ، میں اس سے اس کی پریشانی کی وجہ بھی نا پوچھ
سکی ،میں نے سوچا کہ بچپن میں، میں اس کی بہن کے ساتھ ساتھ اس کی ایک اچھی
دوست بھی تھی، تو وہ مجھ سے اپنے قصے شئیر کرتا تھا لیکن اب اس کو بیوی کی
صورت میں دوست مل گئی ہے، اب وہ مجھ سے اپنی باتیں کیوں شئیر کرے گا ۔
یونہی دن گزرتے گئے ۔ہم بھی مڈل ایسٹ میں سیٹل ہوگئے ۔ ایک دن میرے شوہر
ملک سے باہر جارہے تھے بولے تم گھر میں اکیلی رہنے کے بجائے بھائی کے گھر
چلی جاؤ۔آج میں تقریبا دس سال بعد بھائی کے ساتھ رہنے اور وقت گزارنے جارہی
تھی ۔ میرے ذہن میں تمام واقعات ایک فلم کی طرح آتے جارہے تھے ، میں بھائی
کے گھر گئی کھانا کھانے کے بعد بچوں کو سلا کر میں لاونچ میں آکر بیٹھی ،جہاں
بھائی ، بھابی بیٹھے ہوئے تھے ۔
میں نے بھائی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا بھائی تم نے کوئی فلم
دیکھی ۔ بھائی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی ،بھائی کو بھی وہ تمام واقعات
ایک فلم کی طرح یاد آگئے ہونگے ۔وہ صوفے پر گود بنا کر بیٹھ گیا اور مجھے
ایک فلم کی کہانی سنا نے لگا ۔اس کی آنکھوں میں ویسی ہی چمک لوٹ ائی ۔ میں
نے بھائی کو نہیں بتایا کہ میں یہ فلم دیکھ چکی ہوں اور نا ہی بھائی نے مجھ
سے پوچھا ، میں بھائی کی کہانی سن کر مسکرادی اب بھی بھائی کی کہانی فلم کے
مقابلے میں بہت صاف ستھری تھی ۔ پھر فلم کی کہانی سنانے کے بعد مختلف قصے
سنانے لگا ،یونیوڑسٹی کی لڑکیوں کے قصے، بالکل ویسے ہی ہنس ہنس کر مختلف
باتین کی ، میں بھائی کو دیکھتی رہی اور سنتی رہی۔آخر میں بولی بھائی تم تو
بالکل پہلے جیسے ہی ہو ، میں سمجھی تھی کہ تم بدل گئے ہوگے، بھائی نے کہا
کہ تم نے یہ کیسے سوچا کہ میں بدل گیا ہو۔میں بولی تم نے مجھے تنگ کرنا
چھوڑ دیا ، مجھ سے باتیں کرنا چھوڑ دی، مجھے قصے کہانیاں سنا ناچھوڑ دیا ۔بھائی
بولا ، تم نے بھی تو مجھ سے لڑنا چھوڑدیا ، بات بے بات غصہ کرنا چھوڑ دیا ،
مجھ سے ناراض ہونا چھوڑ دیا اور مجھ سے فرمائشیں کرنا چھوڑ دیا ۔ کیا تم
نہیں بدل گئی ۔یہ سن کر میں خاموش ہوگئی ۔ تو وہ مسکرایا ، میرے پاس آکر
میرے گال پر ہلکی سی چپت لگائی اور بولا،پگلی بہن بھائی نہیں بدلتے ، بس
وقت بدل جاتا ہے۔ |