خاتون تنسیخِ نکاح کے سلسلے میں عدالت میں تھی، اس
کا شوہر بھی وہاں پہنچ گیا، اس نے خاتون سے دعویٰ واپس لینے کی درخواست کی،
منظوری نہ ملنے کے بعد وہ خاتون کے قدموں میں بیٹھ گیا، منت سماجت کی، خدا
کے لئے دعویٰ واپس لے لو، بچے رُل جائیں گے۔ شوہر کی تمام تر کوششوں کے
باوجود خاتون کا دل نرم نہ ہوا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ بیس برس قبل دونوں
کی شادی ہوئی تھی، دونوں کے چار بچے تھے، مگر اختلافات یہاں تک آگئے کہ بات
تنسیخ نکاح تک جا پہنچی۔ دونوں کے خاندان والوں نے صلح کروانے میں کیا
کردار ادا کیا؟ مایوس ہونے کے بعد ہی معاملہ عدالت تک پہنچا؟ مگر جب عدالت
میں شوہر معافی کی آخری منزل کو پہنچ گیا تو دونوں کے خاندان والے کہاں تھے؟
ان میں سے کسی بڑے نے مداخلت نہ کی، کسی کو چار بچوں کا خیال نہ آیا؟ یا وہ
لوگ مایوس ہی اس حد تک ہو چکے تھے کہ ان کے دل پتھر ہوگئے تھے؟ یہاں شوہر
کے منت سماجت کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اختلافات ہونے میں زیادہ قصور شوہر
کا ہی ہوگا، مگر اتنی معافی کے بعد اس قدر سنگ دلی کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔
گزشتہ روز ہم اپنے ایک پرانے دوست کی عیادت کے لئے گئے، دروازے پر دستک
دینے پر چھوٹے چھوٹے تین چار بچے برآمد ہوئے، ان کے کچھ دیر بعد ایک لڑکی
دروازے پر آئی کہ غربت اور کرب نے اس کو اپنی اصل عمر سے بڑا کر دیاتھا،
سنجیدگی، بے چینی اور پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ہم نے مدعا بیان کیا
، ہمیں بتایا گیا کہ ’’ابّو بیٹھ نہیں سکتے، آپ کو اندر بلاتی ہوں․․‘‘۔
ہماری تشویش بڑھی، گھر کے پہلو میں شروع سے آخر تک گیلری کے آخر میں ایک
ٹوٹی ہوئی چارپائی میں ہمارا دوست لیٹا ہوا تھا، قمیض اتار رکھی تھی اور اس
کی وہی بیٹی جس نے دروازہ کھولا تھا، ہاتھ والے پنکھے سے تیز تیز ہوا دے
رہی تھی۔ ہم نے پنکھا اس سے پکڑ کر اسے وہاں سے روانہ کیا۔ نحیف جسامت اور
مسلسل کراہتے ہوئے ہمارے دوست نے بتایا کہ اس کا شوگر لیول کم ہوگیا تھا،
جس کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہو گئی تھی، پسینے چھوٹ گئے تھے، پھر دوائی لی
گئی، کچھ چینی پھانکی گئی ، اب پسینہ بھی خشک ہو گیا تھا اور طبیعت بھی
سنبھل رہی تھی۔ پاؤں پر ہونے والے زخم کا احوال سناتے ہوئے انہوں نے خوفناک
بات بتائی کہ مرض کی وجہ سے زخم ٹھیک نہیں ہو رہا تھا، نوبت پاؤں کاٹنے تک
آگئی تھی، مگر اﷲ تعالیٰ کے رحم وکرم کی وجہ سے بچت ہوگئی۔
حال احوال کی کہانی آگے بڑھی تو معلوم ہوا کہ ان کی ایک بیٹی کو طلاق ہو
رہی ہے۔ ’’ہو چکی ہے‘‘ اور ’’ہورہی ہے‘‘ کے فرق کی وضاحت یوں بیان کی گئی
کہ گزشتہ دنوں اس کے شوہر نے اسے اس بے دردی سے مارا ہے، کہ اس کے جسم پر
ڈنڈے کے واضح نشانات موجود ہیں، جب معاملہ اس کے بھائیوں تک پہنچا تو وہ
لڑنے کے لئے اپنی بہن کے گھر پہنچ گئے، مگر شکر ہوا کہ کسی بڑے نے بیچ بچاؤ
کروا دیا، تاہم وہ اپنی بہن کو ساتھ لے آئے ہیں۔ تشدد کی وارداتیں اس قدر
زیادہ ہیں، کہ نہ بہن اب واپس جانا چاہتی ہے اور نہ ہی اس کے بھائی واپس
بھیجنا چاہتے ہیں۔ ہمارے دوست کی اس بیٹی کے دو بچے ہیں ایک بیٹی چار سال
کی اور ایک بیٹا ڈیڑھ برس کا۔ ہمارے دوست کی معمولی سی پنشن ہے، تاہم اب ان
کی بیٹی ایک قریبی نجی سکول میں ٹیچر ہے اور معمولی سی تنخواہ پر اپنا جیب
خرچ کما لیتی ہے۔ وہ اپنے بیٹوں کا احوال سنا رہے تھے، مغرب کی اذانیں شروع
تھیں، ہم نے اجازت چاہی، انہوں نے بھی عصر کی نماز کے قضا ہو جانے پر ’انّا
ﷲ․․‘ پڑھا ، ہم تمام حالات سنتے، بوجھل دل کے ساتھ وہاں سے اٹھ آئے۔ یہ کسی
ایک دو گھر وں کا قصہ نہیں، بات اب بہت بڑھ چکی ہے۔ کونسا دن جاتا ہے، جب
اخبارات میں ایسے دسیوں خبریں نہیں ہوتیں، جن میں طلاق اور علیحدگی کے
واقعات ہوتے ہیں، خاندانی نظام تباہی کے کناروں تک پہنچ چکا ہے، خاندانوں
میں ’’بڑے‘‘ کا تصور مٹتا جارہا ہے، کوئی وقت تھا، بڑے ر شتہ طے کرتے تھے،
اولادیں ساری عمر گزار دیتی تھیں، مگر بڑوں کے فیصلوں کو قائم رکھتی تھیں،
اب ہر کوئی آزاد ہے، نہ حکم چلتا ہے اور نہ ہی احترام کی کوئی کہانی ہے، نہ
ہی دوسرے کو برداشت کیا جاتا ہے اور نہ ہی معافی کی کوئی جگہ باقی ہے۔ |