ہم اندھے ہیں ؟ یا نظر ہی نہیں آتا

ہم کون ہیں ؟ کیا ہیں ؟ کہاں جارہے ہیں ؟ اب تو روز یہ خبر دیکھنے کو ملتی ہے ۔ فلاں ہوسٹل سے منشیات پکڑی گئیں ۔ تو سوال اٹھتا ہے ۔ کیا یہ تدریس کا حصہ ہے ؟

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کا ایک طالب علم اپنے ہوسٹل میں مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔ کیا واقعی پاکستان کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی کے ہوسٹل میں یہ ہلاکت منشیات کے استعمال کی وجہ سے ہوئی ہے؟
یاد رہے کہ گزشتہ برس بھی لمز انتظامیہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے 140 گرام ہیروئن پکڑی ہے۔جس کی قیمت لاکھوں میں بتائی جاتی ہے ۔

گزشتہ شب جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’کیمپس کے داخلی اور خارجی راستوں پر ایس او پیز کے ساتھ ساتھ اچھے تربیت یافتہ سکیورٹی اہلکار لمز میں جنرل سکیورٹی کو یقینی بناتے ہیں۔ سی سی ٹی وی پورے کیمپس میں ہیں۔ منشیات کے استعمال کے حوالے سے تمام رپورٹوں، چاہے وہ سکیورٹی عملے، کیمرے یا انفرادی شکایات سے ملی ہوں، کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔‘‘

دریں اثناء پاکستان کے نجی ٹیلی وژن چینل جیو نیوز اور میڈیا کے دیگر اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس اکیس سالہ طالب علم کی ہلاکت منشیات کے زیادہ استعمال سے ہی ہوئی ہے۔ ہلاک ہونے والے طالب علم کے ساتھیوں نے بھی کہا ہے کہ شاہ میر منشیات کا عادی تھا۔

پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد سات ملین ہے اور نشے کی یہ عادت ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ ہلاکتوں کی وجہ بنتی ہے۔ اینٹی نارکوٹکس فورس اس سال اب تک آٹھ سو ملین امریکی ڈالر سے زائد مالیت کی منشیات ضبط کر چکی ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں جو نشہ آور اشیاء عام استعمال کی جاتی ہیں، ان میں شراب، ہیروئن، چرس، افیون، بھنگ، کیمیائی منشیات جیسے صمد بانڈ، شیشہ، نشہ آور ٹیکے اور سکون بخش ادویات سب سے نمایاں ہیں، جن کے استعمال کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔اب نشے کا ہوسٹلز میں پایا جانا لمحہء فکریہ ہے ۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں منشیات کا سرعام استعمال جاری ہے۔ سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی پچاس سال سے چار دیواری کے بغیر تعلیم و تعلم میں مصروف ہے۔ بلاروک ٹوک آنے جانے کیلئے چاروں طرف چور راستے بھی موجود ہیں۔ پانچ میں سے صرف ایک راستے پر پولیس کا ناکہ ہے اور وہ بھی برائے نام۔

یونیورسٹی کو ایک راستہ تھرڈ ایونیو سے جاتا ہے۔ شاہدرہ روڈ، بری امام اور مارگلہ کی پہاڑیوں سے بھی لوگ بغیر چیکنگ یونیورسٹی آتے جاتے ہیں۔ اس اندھیر نگری چوپٹ راج اور منشیات فروشی سے محنتی اور ہونہار طلباء شدید پریشان ہیں۔

یونیورسٹی کے منشیات نگری بننے پر سکیورٹی گارڈز کا کہنا ہے کہ وہ بے بس ہیں، طلباء اور انتظامیہ ان کی نہیں سنتی۔ یونیورسٹی کو جانے والی صرف ایک سڑک پر پولیس کا ناکہ ہے مگر وہ بھی کسی کام کا نہیں۔ اہلکار کسی گاڑی کو چیک نہیں کرتے۔ یونیورسٹی میں منشیات کا سوال کیا تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔

یونیورسٹی ہوسٹلز میں آمد و رفت چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہے۔ ہٹس پر طلباء و طالبات اور باہر سے آنے والے خاص مہمان شام گئے تک بیٹھے رہتے ہیں مگر انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔

ملک کی اعلیٰ ترین درسگاہ میں طلباء کی رگوں میں سرعام منشیات کا زہر اتارا جا رہا ہے۔ ارباب اختیار نے چشم پوشی کی روش برقرار رکھی تو یہ برائی وباء بن کر پھیلتی چلی جائےگی۔ ادھر مرادن عبدالولی خاں یونیورسٹی کے ہوسٹلز میں ایک بڑی تعداد منشیات کا استعمال کر رہی ہے ۔ ہوسٹلز کے قریب موجود ہوٹلز کے اندر سے ڈرگ مافیہ نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ جو یہ ڈرگ طلبا ء کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں ۔

لاہور کے تعلیمی اداروں میں منشیات کمے استعمال کے باعث تین طالب علم دم توڑ چکے ہیں۔ ہلاک ہونےوالوں میں دو کاتعلق ضلع بہاولنگر اور ایک کا تعلق کراچی سے تھا۔ ایک طالب علم منشیات کے استعمال کے باعث کئی روز تک جناح ہسپتال میں زیرعلاج رہا۔ تینوں طالب علموں کا تعلق مختلف پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے تھا۔
Rashid Ahmed Nadeem
About the Author: Rashid Ahmed Nadeem Read More Articles by Rashid Ahmed Nadeem: 12 Articles with 12725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.