گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی میں ایک قابل صدافسوس بلکہ
قابل مذمت واقعہ پیش آیاپنجاب یونیورسٹی میں پختون کلچرل ڈے کے نام سے ایک
پروگرام ترتیب دیاگیاتھاجس کامقصدپختون ثقافت کو اجاگر کرنا اور
طلباوطالبات کوصحتمندتفریح فراہم کرناتھااس طرح کے پروگرام ہمارے ہاں یعنی
خیبرپختونخوامیں منعقدہوتے رہتے ہیں راقم بذات خوداس قسم کے متعددپروگراموں
میں شرکت کرچکاہے جس میں صحت مندتفریح کے علاوہ مختلف الخیال لوگوں سے
تبادلہ خیال کاموقع بھی میسرآتاہے اورکلچر وثقافت کے حوالے سے مقامی فنکار
اپنے فن کامظاہرہ بھی کرتے ہیں ان پروگراموں میں لچرپن ، فحاشی عریانی
یاکراہت کاکوئی احتمال اس لئے بھی نہیں ہوتاکہ یہ پروگرامزایک تعلیمی ادارے
میں منعقدہوتے ہیں اوراکثروبیشتران پروگراموں کے روحِ رواں اساتذہ اور
طلباء ہوتے ہیں مگرنجانے پنجاب یونیورسٹی میں ایک طلبہ تنظیم کوکیاسوجھی کہ
اسکے اسلحہ و ڈنڈہ بردارکارکنوں نے پختون کلچرل ڈے کے اس پروگرام
پردھاوابول کراس میں موجودپختون کلچرکے حوالے سے سٹال اکھاڑدئے ،توڑپھوڑکی
،عام لوگوں اورطلباء وطالبات کوماراپیٹا، پولیس بلانی پڑی، آنسوگیس کے شیل
چلائے گئے اوراس سے آگ لگ گئی یہ خبرجیسے ہی شام کوٹی وی سکرینوں کی زینت
بنی جماعت اسلامی کے ایک قابل احترام بزرگ راہنمالیاقت بلوچ کی جانب سے یہ
بیان گردش کرنے لگاکہ رقص وسرودکی محافل کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی
لیاقت بلوچ جیسے راہنماسے اس قسم کے ردعمل کی توقع ہرگزنہیں تھی ان کی حالت
اس وقت قابل دیدتھی جب ایک ٹی وی اینکرنے ان سے کہاکہ جناب وہاں فحاشی
وعریانی یارقص وسرودکی کوئی نجی محفل منعقدنہیں ہوئی تھی بلکہ سرعام ایک
کلچرل پروگرام ہورہاتھاجسے باقاعدہ طورپہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اجازت بھی
دے رکھی تھی اوروہاں پختون ثقافت پر مبنی ڈانس’’ اتنڑ ‘‘کاپروگرام تھاجو
قومی ایام یومِ پاکستان اوریومِ آزادی کے قومی تقریبات میں بھی ہوتاہے اس
سوال پرلیاقت بلوچ صاحب اگرچہ رقص وسرودکی محفل والی بات سے ہٹ گئے
مگردوسرے دن جماعت اسلامی کے دوسرے اورتیسرے چوتھے نمبرکی قیادت نے ’’ناچ
گاناحرام ہے، رقص وسرودکی اجازت نہیں دے سکتے‘‘ اوراسطرح کے لاتعدادبیانات
جاری کئے جواخبارات اورسوشل میڈیاپرزیرگردش تھے دن کے ایک حصے میں توجماعت
اسلامی کے دوست یہ الزام دہراتے رہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں جماعت اسلامی
کے پروگرام پرحملہ کیاگیااوروہاں خواتین کی بے حرمتی کی گئی مگروقت گزرنے
کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے الزام کی صداقت کاعلم ہواتووہ اس سے بازآئے
اورپختون کلچرمیں اتنڑ پروگرام کی مذمت کرناشروع ہوگئے اب صورتحال یہ ہے کہ
جماعت اسلامی کے کارکن اتنڑ کوحرام قراردلوانے اوراسے درست سمجھنے والوں کو
میراثی قراردینے سے بھی نہیں چوکھتے بعض اچھے بھلے وضعدارلوگوں نے بھی سوشل
میڈیاپر سٹیٹس اپ ڈیٹ کیاکہ’’ پختون یم ڈم نہ یم ‘‘ یعنی میں پختون ہوں
میراثی نہیں ہوں افسوس کی بات ہے کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت اس قسم کی
حرکات کادفاع کررہی ہے اول تو یہ پروگرام رقص وسروکی کوئی نجی محفل نہیں
تھی دوم اگرتھی بھی تواس کی باقاعدہ اجازت لی گئی تھی مگرملکی قانون
اوراخلاقیات کی دھجیاں اڑانے والوں نے اسے کبھی ایک توکبھی دوسرارنگ
دیاکبھی اپنی خواتین کی بے حرمتی کاالزام لگایاتوکبھی ایک تعلیمی ادارے کی
چاردیواری میں سرعام ہونے والے ثقافتی پروگرام کو’’رقص وسرود‘‘ کانام
دیاگیااوراس فعل میں ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے جن کی اس ملک میں بلاتفریق
عزت کی جاتی ہے ان کی بات کواہمیت دی جاتی ہے اورانہیں پاک صاف سیاستدان
قراردیاجاتاہے مگرایک ٹی وی اینکرکے سامنے اس غیراخلاقی فعل کادفاع کرتے
ہوئے انکی حالت قابل دیدتھی بڑے بڑے سیاسی مباحثوں میں مخالفین کوچت کرنے
والے اورمدلل گفتگوکیلئے شہرت رکھنے والے لیاقت بلوچ صاحب کے پاس ایک
غیرقانونی اورغیراخلاقی فعل کادفاع کرنے کیلئے الفاظ نہیں تھے اوروہ لایعنی
باتوں کاسہارالینے پرمجبورہورہے تھے پنجاب یونیورسٹی میں بدمعاشی اورغنڈہ
گردی کایہ کوئی پہلاواقعہ نہیں تھااس سے پہلے ماضی قریب میں نوازشریف سے
الیکشن میں رعایتیں لینے کی توقع پرعمران خان کی بے عزتی کی گئی اسکے فوری
بعدکرکٹ کھیلتی ہوئی طالبات کوبیٹ اوروکٹیں مارکرزخمی کیاگیاان دوواقعات کے
علاوہ بھی ایسے لاتعدادواقعات رونماہوئے جس میں صوبے کے اس سب سے بڑے علمی
درسگاہ کے تقدس کوپامال کیاگیااورقلم وکتاب کے حامل نام نہادطلباء نے پستول
اورکلاشنکوف چلاکراوردکھاکرطلباء کوہراساں کیا،زخمی کیا،انہیں اپنے لہومیں
نہلاکرہسپتال یاقبرستان پہنچایااوریونیورسٹی میں خوف ہراس پھیلاکرطلباء کے
حصولِ علم میں رکاوٹ پیداکرنے کی کوشش کی گئی حالیہ واقعے کے فوری
بعدوزیرقانون پنجاب کی جوسٹیٹمنٹ سامنے آئی اسکے مطابق ’’ایک طلبہ تنظیم ‘‘
ملوث ہے مگرابھی تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہیں اسکے دوسرے دن ایک اورذمے
داروزیرکی جانب سے یہ بیان سامنے آیاکہ’’ یونیورسٹی ہاسٹل میں غیرمتعلقہ
افرادقیام رکھتے ہیں سابق طلباملوث ہیں انہوں نے واضح الفاظ میں اسلامی
جمعیت طلبہ کانام لیا‘‘ اسلامی جمعیت طلبہ یادوسری سیاسی طلبہ تنظیموں کے
دوستوں سے دردمندانہ گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ خدارااپنی مرضی لوگوں پرمسلط
کرنے کے عمل کوخیربادکہہ دو یہ توایک کلچرل پروگرام تھا ریاست کسی بھی صورت
ہاتھ یااسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی بلکہ یہ جرم ہے علمی درسگاہوں
کوسیاسی اکھاڑامت بنائیے، پنجاب حکومت ذمے داری محسوس کرتے ہوئے یونیورسٹی
کوقبضہ مافیاسے نجات دلوائے، اپنی رٹ منوائے، کسی کوبھی تعلیمی ادارے
یرغمال بنانے کی اجازت نہ دے اوراس قسم کے افعال سرانجام دینے والوں
کوقانون کے کٹہرے میں لاکھڑاکرے حکومتی وزراکے بیانات سے کام چلانے کی کوشش
کب تک کامیاب رہ سکتی ہے شترمرغ کی طرح آنکھیں بندکرکے طوفان گزرنے
کاانتظارکس لئے کیاجارہاہے فوری اقدامات کے تحت یونیورسٹی ہاسٹل اورپوری
یونیورسٹی میں اسلحہ اگرچہ پہلے بھی ممنوع ہوگامگراس’’
ممنوع‘‘پرعملدرآمدکرایاجائے حکومتی حکم یاقانون کی خلاف ورزی کرنے والوں
کوکڑی سزادی جائے ایک تعلیمی ادارے میں ایک قانونی اورجائزپروگرام کورکوانے
والے اوروہاں دہشت وبربریت پیداکرکے اپنی دھاک بٹھانے والے کسی رعایت کے
مستحق نہیں انہیں بلاتفریق رنگ ونسل قانون کے شکنجے میں لایاجائے یہ واقعہ
جماعت اسلامی کے نیک نامی میں بھی اضافے کاباعث نہیں بناپارٹی لیڈرشپ کو
اگر اس حقیرسے کام کیلئے فرصت ہو تواس بارے میں خیبرپختونخواکے عوام کی
رائے جاننے کی کوشش ضرورکی جائے اوراسکے بعدصوبے کے عوام( جنہوں نے پورے
ملک میں جماعت اسلامی کوشناخت دی حکومت دی سینیٹ اورقومی اسمبلی میں
نمائندگی دی) سے معافی مانگ لی جائے پنجاب یونیورسٹی کاواقعہ معتدل ،پرامن
اورآزاد پاکستان کے منہ پرطمانچہ ہے حکومت اورقانون نافذکرنے والے اداروں
کو ایک علمی درسگاہ کولال مسجداوروہاں کے گھس بیٹھئیوں کوطالبان بننے سے
روکناہوگا۔
|