اختلاف رائے کا وجود فطری امر ہے۔ اور اختلاف عموما جہاں
نصوص (قرآن و حدیث کی عبارت) کے فہم میں فرق ہونے کی وجہ سے ممکن ہے تو
وہاں اس کا سبب علم میں کمی و بیشی بھی ہوسکتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات چیزوں کو
پرکھنے کا معیار (Criteria) اور اصول و ضوابط میں فرق اختلاف کا باعث ہوتا
ہے۔ ان سب کے علاوہ ایک اور وجہ ،جو عموما ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے،
ضد، تعصب اور ’’انا‘‘ ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ رکھیں۔ دوسرے شخص کے
ضد اور تعصب میں آنے کی وجہ بھی بعض اوقات ہمارا اپنا رویہ ہوتا ہے۔
ادبِ اختلاف مسلمانوں کی علمی روایت کی ایک بہت اہم بحث رہی ہے۔ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ میں مختلف دینی اور دنیاوی امور کے
فہم کے ضمن میں اختلاف رائے واقع ہوا۔ بعض حساس دینی وسیاسی معاملات پر
اختلاف رائے نے آگے چل کر باقاعدہ مذہبی وسیاسی مکاتب فکر کی صورت اختیار
کر لی اور بعض انتہا پسند فکری گروہوں نے اپنے طرز فکر اور طرز عمل سے مسلم
فکر کو اس سوال کی طرف متوجہ کیا کہ اختلاف رائے کے آداب اور اخلاقی حدود
کا تعین کیا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ اظہار اختلاف کے بعض نہایت سنگین
پیرایے سامنے آنے کے باوجود مسلم فکر میں اختلاف پر قدغن لگانے یا آزادئ
رائے کو محدود کرنے کا رجحان پیدا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے اختلاف رائے کی
اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے اظہار کے لیے مناسب علمی واخلاقی
آداب کی تعیین پر توجہ مرکوز کی گئی ۔ مسلمانوں کے علمی وفقہی ذخیرے میں اس
حوالے سے نہایت عمدہ اور بلند پایہ بحثیں موجود ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں آپ سے مختلف رائے رکھتا ہے ، اور متبع سنت ہونے
کے علاوہ دین کے ساتھ مخلص بھی ہے تو اس کا آپ سے مختلف الرائے ہونا ، اس
سے نفرت کا سبب قرار نہیں پا سکتا ہے۔ اگرچہ آپ کو ہزار بار ہی یقین ہو کہ
آپ درست رائے پر ہیں۔ قابل نفرت ہونا تو درکنار، اللہ تعالی تو مخلص مجتہد
کو اجر سے نواز رہے ہیں۔اب یقینا آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اسے بتانا تو آپ
کا فریضہ ہے۔ آپ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں۔ اسے وہ کچھ ضرور بالضرور جسے
آپ درست سمجھ رہے ہیں مگر اس طریقے سے التي هي احسن۔ شريعت اسلامیہ آپ کو
اپنے رائے کے اظہار کے لیے صرف ایک راستہ فراہم کرتی ہے اور وہ صرف احسن
انداز اور طریقہ ہے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھے ترین طریقہ سے اپنی
رائے کا اظہار کرنا ہم پر فرض ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دوسرے سے
اختلاف رکھنے کے باوجود بھی احترام کا دامن نہیں چھوڑا۔
یہ تو تصویر کا ایک رخ آپ نے ملاحظہ فرمایا ۔اب ذرا دوسرے رخ کی طرف بھی
التفات کیجئے۔ جس طرح آپ اپنے آپ کو درست سمجھ رہے ہیں، بعینہ مخاطب و فریق
ثانی بھی اسی نفسیات میں جی رہا ہے۔ اور جس طرح آپ درست بات کو (جو آپ کے
نزدیک درست ہے) پہنچانا اپنا فریضہ خیال کرتے ہیں اسی طرح مسلمان ہونے کے
ناطے وہ بھی اس عقیدہ پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جس طرح آپ یہ خیال کرتے ہیں
کہ آپ کی بات دھیان اور توجہ سے سنی جائے، بعینہ دوسرا شخص بھی یہی چاہتا
ہے کہ اس کی بات بھی دھیان اور توجہ سے سنی جائے۔ اس وجہ سے اخلاقیات
اورتہذیب آپ دونوں کے لیے یہ دائرہ کھینچتی ہے کہ مخاطب کی بات کوپورے
انہماک سے سنیے، ایسے کہ جیسے آپ اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
نہ کہ آپ کی باڈی لینگویج (Body language) چیخ چیخ کر بتلا رہی ہو کہ آپ تو
محض بات ختم ہونے کے منتظر ہیں اور بات ختم ہوتے ہی اپنی رائے تو تھوپنے کی
کوشش کریں گے۔ انہماک اور لگن دوسرے کی بات سننے کی اہمیت اس وقت مزید واضح
ہوجاتی ہے جب ہم انسان ہونے ناطے ہم اس بات پر یقین رکھیں کہ غلطی کا امکان
مجھ سے بھی ہے۔گزشتہ دنوں بین المسالک ہم آہنگی کے موضوع پر کل مسالک علماء
بورڈ کے زیر اہتمام ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا اور وہاں علماء نے آداب
اختلاف طے کیا اور پھر باقاعدہ ان کی عملی مشق بھی کی ۔ان آداب اختلاف کا
خلاصہ پیش خدمت ہے ۔
1. اختلافی مسائل میں ہرفریق کے پاس دلائل شرعیہ ہیں اگرچہ ان دلائل کی قوت
و ضعف میں فرق ہو جیسا کہ اکثر مسائل اختلافیہ فرعیہ میں ہوتا ہے، پس خواص
کو تو چاہئے کہ جو ان کو تحقیق سے معلوم ہوا ہے اس پر عمل رکھیں۔
2. دوسرے فریق کے ساتھ بغض وکینہ نہ رکھیں، نہ نفرت و تحقیر کی نگاہ سے
دیکھیں، نہ تفریق و تضلیل کریں بلکہ اس اختلاف کو مثل اختلاف حنفی و شافعی
سمجھیں۔
3. باہم ملاقات، مکاتبت، سلام، موافقت و محبت کی رسوم جاری رکھیں یعنی
سماجی تعلقات قائم رکھیں۔
4. تردید و مباحثہ خصوصاًبازاریوںکی طرح گفتگو سے اجتناب کریں کیونکہ یہ
منصب اہل علم کے خلاف ہے۔
5. ایسے مسائل میں نہ کوئی فتویٰ لکھیں اور نہ دستخط کریں کہ فضول ہے۔ جیسا
کہ میلاد النبی ﷺ کے بارے میں فتویٰ
6. ہر ایک عمل میں ایک دوسرے کی رعایت کریں۔ یعنی جب دوسرے مسلک والوں کے
پاس جائیں تو ان کی طرح اعمال کریں۔
7. عوام نے جو غلو اور زیادتیاں کر لی ہیں ان کو نرمی سے منع کریں۔
8. منع کرنا ان لوگوں کا مفید ہو گا جو اس عمل کے جواز کے قائل ہیں۔ اور جو
اس عمل کے عدم جواز کے قائل ہیں ان کا خاموش رہنا بہتر ہے۔ (مسلکی منافرت
کے خاتمہ کے لئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کون سی بات کس نے کرنی ہے اور
کس کی بات زیادہ اثر رکھے گی۔ اور کون یہ بات کرے گا تو معاملات اور خراب
ہوں گے۔(
9. فتنہ سے بچیں اور کسی جگہ کے رسم و رواج اور عادات سے اگر آپ موافقت
نہیں رکھتے تو ان کی مخالفت بھی نہ کریں۔
10. دونوں مکاتب فکر یا فریقین ایک دوسرے کے نقطہ نظر کی تاویل کر لیا کریں
یعنی اچھی توجیہ کریں۔
11. عوام کو چاہئے کہ جس عالم یا دیندار آدمی کو محقق سمجھیں اس کی تحقیق
پر عمل کریں اور دوسرے فریق کے لوگوں سے تعرض نہ کریں۔خصوصا دوسرے مسالک کے
علماءکی شان میں گستاخی کرنا چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق ہے۔
12. غیبت و حسد سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، ان امور سے پرہیز کریں اور تعصب
اور عداوت سے بچیں۔
13. ایسے مضامین کی کتابوں اور رسائل کے مطالعہ سے بچیں جن میں اختلافی
مسائل بیان ہوں،کیونکہ یہ کام علماءکا ہے۔
14. مسلکی منافرت کے خاتمہ کے لئے اختلافی مسائل پر مباحثہ ، قیل و قال نہ
کرنااور ایک د وسرے کو وہابی و بدعتی نہ کہنا، اور عوام کو جھگڑوں اور غلو
سے منع کرنا علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔
|