ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم
سوچتے زیادہ اور کام کم کرتے ہیں دنیا ستاروں پر جا پہنچی ہے اور ہم ہیں کہ
ابھی روٹی، کپڑا اور مکان کے گرداب سے نہیں نکل پائے، بیشتر ممالک مستقبل
کی ضروریات کو پورا کرنے کے منصوبوں پرعمل پیرا ہیں جبکہ ہمارے ملک میں سات
کروڑ سے زائد افراد کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، بجلی، گیس کی کمی سے
چولہے ٹھنڈے ہو چکے ہیں، چھ کروڑ کے لگ بھگ ہمارے نوجوان بے روزگار ہیں۔ ہر
آنے والا منٹ ملک میں چھ معصوم بچوں کو ساتھ لاتا ہے لیکن ہم انہیں غربت،
بیماری، افلاس، جہالت اور بیروزگاری کی بھنیٹ چڑھا دیتے ہیں امیر ملکی
وسائل کو باپ کی جاگیر سمجھ کر لوٹ رہے ہیں جبکہ غریب عوام کبھی دو روپے کی
سستی روٹی کے حصول کیلئے دھکے کھا رہی ہے تو کبھی یوٹیلٹی سٹورز پر سستی
چینی اور سستے آٹے کیلئے بھکاریوں کی طرح لائن میں لگی ہے وطن عزیز کے
دگرگوں حالات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ہماری بداعمالیوں
اور منافقانہ طرز عمل کے باعث ہم سے ناراض ہیں۔ اس لئے ہم پر نا صرف اپنی
رحمتوں کا سلسلہ موخر کیا ہوا ہے بلکہ دشمنوں کیلئے بھی ہمیں ترنوالہ بنا
دیا اور رہی سہی کسر آسمانی آفتیں پوری کرلیتی ہیں۔ جسکی تازہ ترین مثال
حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں، ہزاروں جانوں کا ضیاع، فصلات،
دکانوں، مکانوں، مال مویشیوں کی غرقابی، لاکھوں افراد کی بے گھری کسی عذاب
سے کم نہیں۔ انسان کو اللہ نے تمام مخلوق سے بہتر تخلیق قرار دیا ہے اور ان
میں سے بھی مسلمانوں کو اپنی پسندیدگی کا سرٹیفکیٹ بھی عنایت فرما دیا تو
آخر کیا محرکات ہیں کہ ہر سو مسلمان ہی زیر عتاب دکھائی دیتے ہیں شاید
علامہ اقبال نے اسیّ سال قبل ہی آج کے حالات کو محسوس کرلیا تھا اور اللہ
سے شکایت کی تھی
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چار مسلمانوں پر
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن بد قسمتی سے تریسٹھ سال
گزرنے کے باوجود ملک میں اسلام کا نفاذ تو دور ہم اپنے گھروں میں اسلام نہ
لا سکے۔
وطن عزیز آج جن مسائل کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے بظاہر اس سے نکلنے کی نہ
تو کوئی صورت دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی امید من سہلا رہا ہے۔
اسلام کے قلعہ میں اب مسلمان ہونا جرم بن گیا، داڑھی دہشت کی علامت بن گئی
مساجد انتہائی پسندی کے ٹھکانے قرار پائے معصوم جانوں کے ضیاع پر فتح کے
شادیانے بجائے جاتے ہیں اسلام دشمنوں سے ہمارے یارانے اس حد تک بڑھ چکے ہیں
کہ ان کی خاطر ہم مسلمانوں کا قتل عام تو کیا اپنی ماؤں، بیٹیوں کو ان کے
ہاتھ بیچ دینے میں بھی عار نہیں سمجھتے لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم اللہ
کی رحمت اور نعمتوں کے طلب گار بھی ہیں غالب نے اس لیے ہی کہا تھا
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اللہ کا فرمان ہے کہ’’ اگر عوام اپنے اعمال درست نہیں کرتے تو میں ان پر
ظالم بادشاہ کو مسلط کر دونگا‘‘﴿مفہوم﴾ ۔ موجودہ حالات میں اگر ہم تمام
مسلمان ممالک کی طرف دیکھیں تو ہر ملک میں لوگ قسم پرسی جبکہ حکمران اپنے
فرائض سے غافل پر آسائش زندگی گزارتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ
دانستہ و غیر دانستہ وہ کفار کے آلہ کار بن کر اپنی عوام کا استحصال و
معاشی قتل عام کررہے ہیں تاہم ہمارے حکمران اس سے دو ہاتھ آگے نکل
گئے‘امریکی ڈالروں نے ہمارے تمام حاکموں اور لیڈروں کی آنکھوں پر پردہ ڈال
دیا ہے۔ اس لیے افغانستان‘ عراق میں مسلمانوں کے قتل ناحق کروانے کے بعد
وزیرستان‘ وانا‘ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں اپنے بے گناہ اور معصوم
لوگوں کا لہو پانی کی طرح بہا رہے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم دنیا
کو محفوظ بنانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دہشت گردی سے امریکہ کی سلامتی کو خطرہ
ہے جبکہ دہشت گردی کیخلاف لڑائی ہماری اپنی ہے۔ اتنا بڑا جھوٹ‘ نہ صرف دنیا
سے بلکہ خود سے بھی‘ ناجانے ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے‘ محمد بن قاسم‘
ٹیپو سلطان‘ صلاح الدین ایوبی سے کہیں زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود کفار کے
سامنے بھیگی بلی کیوں بنے ہوئے ہیں۔ اللہ سے ڈرنے کی بجائے آج امریکہ‘
اسرائیل اور انڈیا کے خوف سے ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے
انہی حالات کے پیش نظر چودہ سو سال قبل قرآن مجید میں فرما دیا تھا کہ’’ جب
تم میرے احکامات کو فراموش کردو گے اور نہی عن المنکر کرنا چھوڑ دو گے تو
میں تمہارے دشمنوں کو تم پر غالب کردونگا ان کے دل سے تمہارا خوف نکال کر
تم پر انکی دھاک بٹھا دونگا‘‘ ﴿مفہوم﴾۔
محترم قارئین! آج وہی وقت آچکا ہے ظالم وجابر حکمران ہم پر مسلط ہوچکے ہیں
اور دشمن کے دل سے ہماری دھاک اٹھ چکی ہے وہ ہم پر بلا خوف وخطر حملے کررہا
ہے امت پر کڑی امتحان کی گھڑی نازل ہو چکی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس امتحان سے
کون کامیاب ہوکر نکلتا ہے کون خلافتی دور کے امر باالمعروف و نہی عن منکر
کا علم تھام کر امتِ شیراز کو ایک صف میں لاکھڑا کرتا ہے ہماری آئندہ نسلیں
ہمارا گریباں پکڑیں گی کہ ہم نے انہیں ورثے میں نظام مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کیوں نہیں دیا، مغربی تہذیب ہی ان کے گلے میں کیوں ڈال دیا جبکہ
نبی کریم(ص) نے تو فرمایا تھا، بقول اقبال رحمتہ اﷲ علیہ
اپنی امت پرقیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی(ص)
یوں تو مختلف ادوار میں سینکڑوں لوگوں نے مذہب کے نام پر ادارے بنائے،
انہیں عوام میں مقبول بنایا، لیکن بات گھوم پھر کر ان کے ذاتی کردار اور
اعمال پر آکر رک جاتی رہی، ان کے وجود سے کوئی انقلاب نہیں آسکا اور پھر
انقلاب خالی نعرے لگانے سے نہیں آتا بلکہ اس کیلئے تو ضروری ہے کہ جو بات
منہ سے کی جائے اس پر عمل بھی لوگوں کو نظر آئے ہم پاکستانیوں کیلئے نظریہ
پاکستان بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ نظریہ صرف قیام پاکستان کا باعث ہی
نہیں بنا بلکہ یہ نظریہ اسلام کی اساس ہے، نظریہ پاکستان کے فروغ کیلئے بہت
سے ادارے قابل قدر کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ان میں اسلامی سوچ کو فروغ
دینے کی کوشش نہیں کی جاتی، جس کی وجہ سے نظریہ پاکستان کو عام لوگ اسلام
سے قطعی الگ سمجھتے ہیں۔ لیکن جب اللہ مہربان ہوتا ہے تو کسی فرد کو امت کی
بھلائی کا جھنڈا عطا فرما دیتے ہیں ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی چند لوگ
ایسے ہیں جو کہ امت مسلمہ کو محبت اور حب الوطنی کا درس دے رہے ہیں اور
انشا اللہ یہ مٹھی بھر لوگ نعرہ مستانہ بلند کر کے جب نکلیں گے تو خدا کی
فتح ونصرت ضرور ان کے قدم چومے گی دعا ہے کہ اللہ ہمارے حکمرانوں کو بھی
ایسا درد عطا فرما دے کہ وہ امت مسلمہ کے مفاد کی جنگ لڑسکیں اور اسلام کی
سربلندی کی خاطر اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اگست کا مہینہ شروع ہو گیا ہے اور
اس ماہ کی 14 تاریخ ہر پاکستانی کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے اس کیساتھ ساتھ
برکتوں اور رحمتوں والا اسلامی مہینہ رمضان المبارک بھی شروع ہونے کو ہے،
یعنی اس بار یوم آزادی پاکستان رمضان المبارک مہیں ہی آ رہا ہے، اس لیے
ہمیں چاہیے کہ اللہ رب العزت کے اس پیارے اور انتہائی خوبصورت تحفے کی قدر
کرتے ہوئے اسکی بقا و سلامتی اور یہاں اسلامی نظام کے قیام کیلئے ہر ممکن
کوشش کرنے کا عہد کریں۔ اور اپنے فرائض ایمانداری کیساتھ ادا کریں۔ تاکہ ہم
ثابت کر سکیں کہ ہم صرف قوم ہی نہیں بلکہ ایک زندہ قوم ہیں۔ |