“اتنا سب کچھ کیسے ہوگا ، ایک تو یہ لڑکا اسی طرح ہر وقت
گھوڑے پر سوار رہتا ہے کب کیا کہہ دے ، کیا کردے، اسکا کوئی بھروسہ نہیں۔ “
شازمہ نے فکرمندی سے کہا وہ اچھے سے جانتی تھی والی ایک بار جو فیصلہ کر لے
اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔ “ آنٹی آپ فکر نہ کریں میں اپنے دوستوں کے ساتھ
سارے انتظامات دیکھ لو گا۔“ سہیل نے مسئلے کو اپنی طرف سے حل کرنے کا کہا ،جبکہ
شازمہ اچھے سے جانتی تھی اگر والی نے اگلے مہینے شادی کا کہا ہے تو اسنے
کچھ نا کچھ تو سوچا ہی ہوگا۔
“بیٹا اگلے مہینے تو آپکی فلائٹ ہے ۔ آپ اپنی تیاری کریں میں اور حسنہ سب
سنبھال لیں گے ۔ کیوں حسنہ بیٹا ! “ شازمہ نے حسنہ سے پوچھا جو جانے کہاں
گم تھی۔ اسکی آواز پر چونک کر جلدی سے اثبات میں سر ہلانے لگی۔ اس نے کوئی
بات سنی ہی نہیں تھی وہ تو والی کی بات سن کر ہی کسی سوچ میں ڈوب گئی تھی ۔
بہت سارے دن تیاریوں میں ہی گزر گئے ۔ نائلہ ،حسنہ اور شازمہ آئے دن بازار
کے چکر لگا لگا کر بے حال ہو گئی تھی ۔
وہ جب والی کو کہتی کہ وہ بھی انکے ساتھ شاپنگ پر چلے وہ اور حسنہ مل کر
شاپنگ کرے وہ مصروفیت کا بہانہ بنا کر چلا جاتا ۔
جب سے گھر میں شادی کی تیاریاں چل رہی تھی والی نے گھر سے باہر زیادہ وقت
گزارنا شروع کر دیا ۔ رات دیر سے آتا اور صبح سب کے اٹھنے سے پہلے ہی آفس
کے لئے نکل جاتا ۔جسے کسی نے چاہے نوٹ نہ کیا ہو مگر حسنہ کے دل کو دھڑکہ
لگا رہتا۔
اسکی جگہ کوئی اور لڑکا ہوتا اسنے کام میں آگے بڑھ کر حصہ لینا تھا ۔ کبھی
آتے جاتے اپنی ہونے والی بیوی پر کوئی شوخ جملہ کسنا تھا۔
مگر یہاں کوئی ایسا جذبہ نہیں تھا ۔ بس ایک سرد مہری تھی ۔ جو ان دونوں کے
درمیان حائل تھی ۔ اس دن کے بعد دونوں میں دوبارہ کوئی بات نہیں ہوئی ، وہ
تو اسے نظر بھر کر دیکھتا تک نہیں تھا۔ سو طرح کے وہم تھے جو حسنہ کو تنگ
کرتے تھے ۔ رات پھر سونے نہیں دیتے تھے ، مگر وہ سر جھٹک کر پھر تیاریوں
میں لگ جاتی ۔ خود کو سوچوں سے بچانے کے لئے وہ جتنا چاہے مصروف کر لیتی
مگر دل کو ایک دھڑکا سا لگا رہتا۔
(جاری ہے ) |