لاہور ایک قدیم شہر

تحریر: عنبرین اختر، لاہور
تحریک پاکستان کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے۔جتنی خود مسلمانوں کی۔اس لیے کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔دو قومی نظریے کی بنیاد ہندوستان میں اس دن پڑ گئی تھی۔ جس دن ساحل مالا بار کی ریاست گدنگا نور کے حکمران راجہ سامری نے اسلام قبول کیا تھا۔رفتہ رفتہ دین اسلام کی شواعیں پھیلتی گئیں۔ محمد بن قاسم نے 712 میں سندھ فتح کر کے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ اسلامی حکومت کے قیام سے انگریز حکومت تک مختلف مسلمان خاندانوں کی حکمرانی میں برصغیر میں اسلامی حکومت قائم رہی۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد اس کے نا اہل جانشیوں کے باعث بر طانوی حکومت نے اسلامی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ ہندووں نے گٹھ جوڑ کرتے ہوے اسلامی دشمنی کے سبب وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان کرانے کی بھر پور کوشش کی۔

1938 میں سندھ مسلم لیگ کی اکثریت کے ساتھ آزاد ملک کے حق میں باقاعدہ ایک قرارداد منظور کی اور 23 مارچ 1940 کو مسلم لیگ کے 27 ویں سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں ایک اسلامی مملکت کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔

لاہور صوبہ پنجاب پاکستان کا دارلحکومت اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے۔ اسے پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریاے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔ شاہی قلعہ، شالامار باغ، بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیراور مقبرہ نور جہاں مغل دور کی یادگار ہیں۔ لاہور کو پہلے عروس البلد لاہور بھی کہتے تھے اور یہ علاقہ ملتان کی عظیم سلطنت کا حصہ ہوتا تھا۔

لاہور کی مغلیہ دور میں بھی اپنی ایک حیثیت رہی ہے۔ بابر پہلے سے ہی ہندوستان پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ دولت خان لودھی کی دعوت نے اس پر مہمیز کا کام کیا۔ لاہور کے قریب بابر اور ابرہیم لودھی کی افواج کا پہلا ٹکراؤ ہوا۔ جس میں بابر فتح یاب ہوا۔ لیکن جب اسے دولت خان کی سازش کی اطلاع ملی۔ جس پر وہ اپنا ارادہ ختم کر کے لاہور کی جانب بڑھا۔

اس شہر میں کئی بزرگوں اور صوفیاے کرام کے مزارات ہیں جن میں حضرت داتا گنج بخش، حضرت میاں میرمادھولال حسین، حضرت شاہ ابوالمعانی، حضرت موج دریا بخاری، حضرت گھوڑے شاہ، حضرت شاہ جمال حضرت شاہ محمد غوث اور حضرت میاں وڈھا شامل ہیں۔ لاہور کا موجودہ شہر کئی جدید بستیوں اور عمارات سے آراستہ ہے۔ ان میں ماڈل ٹاؤن، گلبرگ، ڈیفنس، سبزہ زار گرین ٹاؤن اور ٹاؤن شپ اہم ہیں۔ شہر کے قابل دید مقامات میں ایئر پورٹ، عجائب گھر، پنجاب یونیورسٹی، باغ جناح، شالامار باغ، مینار پاکستان، مال روڈ، انارکلی گلشن اقبال اور ریس کورس پارک شامل ہیں۔

مینار پاکستان کا ڈیزائن ترک ماہر تعمرات نصر الدین مرات خان نے تیار کیا۔تعمیر کا کام میاں عبد الخالق اینڈ کمیٹی نے 23 مارچ 1960 میں شروع کیا۔21 اکتوبر 1968 میں اس کی تعمیر مکمل ہوی۔اس پر کل لاگت 75 لاکھ روپے آئے۔

بادشاہی مسجد لاہور میں شاہی قلعے کے نزدیک واقع ہے۔اس مسجد کو مغل بادشاہ شا جہاں نے بنوایا تھا۔ اس میں دو لاکھ کے قریب نمازی نماز ادا کرتے ہیں۔اس کے چاروں کونوں میں بہت اونچے مینار ہیں۔مینار پر چڑھنے کے لیے باقاعدہ ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔اس مسجد کے درمیان میں بڑا حوض ہے۔

مسجد میں تین بڑے بڑے سنگ مر مر کے گنبد ہیں۔ ان پر مینا کاری اور گل کاری کی ہوئی ہے۔ جسے دیکھ کر مغلیہ راج کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ مسجد میں داخل ہونے کے لیے پچاس سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ یہاں لوگوں کی بڑی تعداد جمعہ اور عیدین ادا کرتے ہیں جبکہ پانچوں نمازوں میں بھی بہت رش دیکھنے میں آتا ہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.