تحریر : مبصرالرحمن قاسمی
ہم امت تخلیق وعمل ہیں
مسلمانوں نے ہر زمانے میں مختلف میدانوں میں تخلیقات اور عمل کا انسانوں کے
لیےایک قیمتی تحفہ پیش کیا، کاہلی، سستی اور لاپرواہی کو ہمارے بزرگوں اور
اسلاف نے قریب بھی آنے نہیں دیا، قرآنی آیات ، احادیث شریفہ اور نبوی موقف
سے پتہ چلتا ہے کہ تخلیق وعمل مسلمان کے لیے شرف وعزت ہے۔ اس کے ذریعے اسے
دنیا میں عزت ملتی ہے اور اگر نیت درست ہوتو آخرت میں باعث اجروثواب بھی
ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان عزت وفخر کی منزلوں تک اور تہذیبوں کے درمیان
بلند مقام تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکے جب تک کہ انھوں نے محنت، جہد اور عرق
ریزی کو اپنا شیوہ نہ بنالیا۔
ہمارا دین ہمیں تخلیق وعمل کی ترغیب دیتا ہے :
متعدد قرآنی آیات میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ زمین میں رزق تلاش
کرنے اور حلال مال حاصل کرنے کے لیے محنت کریں، یہ قرآنی آیات مسلمانوں کو
محنت ومشقت کرنے پر آمادہ کرتی ہیں اور ان آیات میں محنت کے بعد بہترین
نتیجے کی خوشخبری بھی سنائی گئی ہیں، ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ : وه ذات
جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے
پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ
کھڑا ہونا ہے۔(الملک ۱۵)
سیرت کی کتابوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے
تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت اور کام کی اہمیت کو
اجاگر کیا، اور ہاتھ پھیلانے والے سے زیادہ ہاتھ کی کمائی کو معزز قرار
دیا، حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا : کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی، جو خود
اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے
کام کرکے روزی کھایا کرتے تھے۔(البخاري (1966)، وابن حبان :6333) ، اسی لیے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ناپسند فرمایا ہےکہ امت کا کوئی فرد
بالکل عیش وآرام اور سستی وکاہلی کا سہارا لے، آپ نے واضح کرتے ہوئے فرمایا
: اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور (صدقہ) شروع کر ان لوگوں
سے جو تیری نگرانی میں ہوں اور بہتر صدقہ وہ ہے جو ان لوگوں پر کیا جائے جن
کا توذمہ دار ہے اور جو شخص سوال سے بچنا چاہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے
بچالیتا ہے اور جو شخص بے پروائی چاہے، تو اللہ اسے بے پرواہ بنا دیتا ہے۔
(بخاری: ۱۳۶۲.)
انسان جس قدر محنت ومشقت کرے، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے،
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی
سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے (پھر انہیں
بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے ) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے
پاس آکر سوال کرے۔ پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔(البخاري
:1402، وابن ماجه :1836، وأحمد :1429)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفہوم کو سمجھانے کے لیے ایک عملی مثال
پیش کی جب ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا وہ کچھ مانگ رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا
: کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے ؟ کہنے لگا کیوں نہیں ، ایک کملی سی ہے ،
اس کا ایک حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس سے
پانی پیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا “ یہ دونوں میرے پاس لے آؤ ۔ ” چنانچہ وہ لے
آیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور
فرمایا “ کون یہ چیزیں خریدتا ہے ؟” ایک شخص نے کہا : میں انہیں ایک درہم
میں لیتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا “ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے ؟ ” آپ نے دو
یا تین بار فرمایا ۔ ایک ( اور ) شخص نے کہا : میں ان کے دو درہم دیتا ہوں
۔ چنانچہ آپ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم لے لیے اور وہ دونوں اس
انصاری کو دے دیے اور اس سے فرمایا “ ایک درہم کاغلہ خریدو اور اپنے گھر
والوں کو دے آؤ اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ ۔” چنانچہ وہ
لے آیا تو آپ نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ٹھونک دیا اور فرمایا “جاؤ
! لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں ۔” چنانچہ وہ
شخص چلا گیا ، لکڑیاں کاٹتا اور فروخت کرتا رہا ۔ پھر آیا اور اسے دس درہم
ملے تھے ۔ کچھ کا اس نے کپڑا خریدا اور کچھ سے کھانے پینے کی چیزیں ، تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “یہ اس سے بہتر ہے کہ مانگنے سے
تیرے چہرے پر قیامت کے دن داغ ہوں ۔ بلاشبہ مانگنا روا نہیں ہے سوائے تین
آدمیوں کے ازحد فقیر محتاج خاک نشین کے ، یا بے چینی میں مبتلا قرض دار کے
، یا دیت میں پڑے خون والے کے ( جس پر خون کی دیت لازم ہو ) ۔ “(أبو داود
(1641)، والترمذي (653)، وابن ماجہ (2198)، وأحمد (12155.)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو رزق کی تلاش میں صبح سویرے
نکلنے کی تاکید فرماتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : صبح سویرے رزق اور ضرورتوں
کو تلاش کرو، کیونکہ صبح کے وقت کے کام میں برکت اور کامیابی ہے۔ (المعجم
الأوسط للطبراني، تحقيق طارق بن عوض الله، حدیث نمبر : 7250.)
صخر غامدی رضی اللہ عنہ ایک تاجر صحابی ہیں ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :
اللهم بارك لأمتي في بكورها (ترجمہ :اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں
برکت عطاء فرما۔) صخر کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جماعت
یا لشکر کو روانہ فرماتے تو انھیں دن کے اول وقت میں یعنی صبح سویرے روانہ
فرماتے تھے، صخر کیونکہ تاجر تھے، وہ اپنے تاجروں کو صبح روانہ کرتے تھے،
جس کا اثر ان کی تجارت میں خوب ہوا اور ان کے مال میں زبردست اضافہ بھی
ہوا۔ (أبوبكرالشيباني:الآحاد والمثاني، تحقيق باسم فيصل الجوابرة)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کام کا میدان کسی ایک خطے، علاقے
اور شہر تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس سلسلے میں آپ کی ہدایات قرآن مجید کی
ہدایات کے بالکل مطابق تھیں، قرآن مجید انسانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ
رزق کی تلاش میں زمین میں چلے پھرے ، آپ نے ارشاد فرمایا : تم اپنی روزی کو
زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تلاش کرو۔(مسند أبي يعلى، تحقيق حسين سليم أسد،
7/347، ح4384.)
مذکورہ احادیث اور واقعات سے یہ پیغام ملتا ہے کہ عوام الناس اپنے ہاتھوں
سے کام کرنے کو حقیر نہ جانیں۔ حضرت رسول اکرم ﷺ کی ساری زندگی اور زندگی
کا ایک ایک گوشہ چھان لینے کے بعد ہم پر یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت رسولِ
اکرم ﷺ نے محنت مزدوری کرنے والوں کے لئے بہترن نمونہ چھوڑا۔ زندگی کا وہ
کون سا پہلو ہے جس کے بارے میں ہمیں اسوۂ رسول ﷺ سے رہنمائی نہ ملتی ہو۔
میدان عمل وتخلیق کے شہسوار :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اس امت
کے ائمہ کرام کی زندگی ہمارے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے، ان تمام کے نزدیک
کام، محنت اور تخلیق کی اہمیت ومحبت پر اتفاق ہے اور ان حضرات نے سستی،
کاہلی اور ذمہ داری سے پیچھے ہٹنے کو ناپسند کیا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے
ناپسند ہے کہ میں آدمی کو فارغ دیکھوں نہ دنیا کے کام میں اور نہ آخرت کے
کام میں۔(حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء: ابونعیم)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے چند سست وکاہل لوگوں کو دیکھا جو یہ
سمجھتے تھے کہ صرف بات کرنے اور زبان درازی سے انھیں رزق مل جائے گا، آپ ان
لوگوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟ انھوں نے کہا ہم تو توکل
اوربھروسہ کرنے والے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نےکہا : نہیں تم تو سہارا لینے
والے ہو، کیا میں تمہیں توکل والے لوگ بتاوں ؟ توکل اور بھروسہ والا شخص تو
وہ ہے جو زمین کے پیٹ میں دانہ ڈالے پھر اپنےپروردگار پر بھروسہ کرے۔
(بیہقی، شعب الایمان، تحقیق : عبدالعلی عبدالحمید حامد۲/۴۲۹)
جانفشانی ومحنت اور کام کے میدان کی سب سے بڑی مثال صحابی جلیل عبدالرحمن
بن عوف رضی اللہ عنہ ہیں، یہ وہ عظیم صحابی رسول ہیں جنھیں کام اور محنت
کرنےسے شرم وحیاء نے نہیں روکا، یہ وہ غریب وفقیر صحابی تھے جنھوں نے ہجرت
کی وجہ سے اپنی ساری دولت اور مال مکہ میں چھوڑ دی تھی، وہ کہتے ہیں : جب
ہم مدینہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور سعد بن ربیع کو
بھائی بھائی بنایا، سعد بن ربیع نے مجھ سے کہا میں انصار کا سب سے مالدار
شخص ہوں، لہذا میں تمہیں میرا آدھا مال تقسیم کرتا ہوں، اور میری بیویوں
میں سے جو عورت تمہیں اچھی لگے دیکھ لو میں تمہارے لیے اس سے دست بردا ر
ہوجاتا ہوں (روای کہتے ہیں) حضرت عبدالرحمن نے کہا : مجھے اس کی کوئی ضرورت
نہیں ہے، مجھے ایسا بازار بتادیجیے جہاں میں تجارت کروں، انھوں نے سوق
قینقاع کی رہنمائی کی، راوی کہتے ہیں :دوسرے دن صبح عبدالرحمن بازار گئے،
اور پنیر و گھی لے کر آئے پھر برابر صبح کو جانے لگے کچھ دن ہی گزرے، تو
عبدالرحمن اس حال میں آئے کہ ان پر زردی کا اثر تھا، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا
کیا تم نے شادی کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں! آپ نے پوچھا کس سے؟ کہا کہ
ایک انصاری عورت سے، آپ نے پوچھا، مہر کتنا دیا، کہا کہ گٹھلی کے برابر
سونا، نبی ﷺ نے فرمایا کہ ولیمہ کرو، اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔(رواہ
البخاری)
توکل علی اللہ کے نام پر ہر چیز میں بغیر محنت کیے بھروسہ کرنے اور سستی
ولاپرواہی برتنے کو اسلام نے سرے سے مسترد کیا ہے، اسلام کا رکن حج بھی
بغیر محنت کے صرف توکل کی بنیاد پر درست نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے بھی حاجی
کو توشہ تیار کرنے اور اپنی ذمہ داری کو سنبھالنے کی تاکید کی گئی ہے، اہل
یمن جب حج کے لیے آتے تھے تو ساتھ میں توشہ نہیں لاتے تھے اور وہ کہتے تھے،
ہم توکل والے ہیں، اور مکہ آکر لوگوں سے مانگتے تھے، تو اللہ تعالی نے یہ
آیت نازل فرمائی : ترجمہ : اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر
توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے (بقرہ:۱۹۷)
اس سلسلے میں امام ابوبکرابن الخلال رحمہ اللہ (متوفی: 311هـ) کی کتاب
۔تجارت وصنعت کی ترغیب۔ قابل توجہ ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے ان اکابرین ائمہ
کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے جنھوں نے تجارت وصنعت کےپیشوں کو اختیا کیا،
محنت ، کام اور تخلیق کی ترغیب کے لیے یہ کتاب اہمیت کی حامل ہے، اس کتاب
سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے تخلیق وعمل کو کس قدر اہمیت دی۔
یہاں ہم مذکورہ کتاب کی ایک جھلک پیش کررہے ہیں : جصاصی کہتے ہیں : میں نے
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا : چار درہم میں سے آپ کو کونسا پسند
ہے؟ ایک درہم بغیر شبہ کی تجارت کا، ایک درہم قرابت داری کا، ایک درہم
تعلیم کی اجرت کا، اور ایک درہم بغداد کے غلے کا، کہا : مجھے بغیر شبہ کی
تجارت کا درہم پسند ہے، قرابت داری کا درہم مجھے ناپسندہے، تعلیم کی اجرت
کے پیسے وقت ضرورت لے لینا چاہیے ، البتہ بغداد کے غلے کے سلسلے میں آپ
جانتےہیں۔(الحث علی التجارۃ والصناعۃ ۔ ص ۳۵)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کئی سال اینٹ بنانے اور مستری کا کام کیا،
کبھی کبھی آپ بڑھئی کا سامان لےکر بغداد کے محلوں میں نکل جاتے اور اپنے
ہاتھ سے کام کرتے تھے۔(الحث علی التجارۃ والصناعۃ ۔ ص ۳۹)
امت کے تابناک ماضی کی یہ چند روشن مثالیں ہیں، امت کے ان اکابرین نے محنت،
مزدوری اور کام کو سوال کرنے، مانگنے اور سستی ولاپرواہی پر ترجیح دی، ان
کی بلندشان اور علمی مرتبہ ومقام ان کے لیے یومیہ مزدوری کی راہ میں رکاوٹ
نہیں بنے اور انھوں نے حلال کام اور حلال رزق کے حصول کے لیے یومیہ مزدوری
پر کوئی ذلت وحقارت محسوس نہیں کیں بلکہ محنت ، جستجو، کوشش اور تخلیق کے
ذریعے انھوں نے امت کی دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں رہنمائی کیں۔
|