روزینہ نوشاد، کراچی
آبادی کے لحاظ سے کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہرہے۔اس کی آبادی لگ بھگ دو
کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ یہ بحر عرب کے سا حل کے کنارے واقع ہے۔ اس کا کل
رقبہ 1800 مربع کلو میٹرہے۔صنعتی و تجارتی اعتبارسے کراچی کو ایک خاص اہمیت
حاصل ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندر گاہ اورہوائی اڈہ بھی کراچی میں موجود
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی معاشی اعتبار سے بہت مضبوط اور ترقی پذ یر شہروں
میں سے ہے۔
کراچی کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد کا دارو مدار یہاں کی اونچی اونچی
عمارتیں، درسگاہیں، کالجوں، جامعات، تفریحی مقامات، کھیل کے میدان، ہوٹل،
کھانے، ٹرانسپورٹ، یادگار، اسپتال اور پارک وغیرہ پر ہیں۔ یہا ں رات دیر
تلک کاروبار زندگی جاری رہتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کراچی کو روشنیوں کا شہر
کہا جاتا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں کراچی کا امن خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔
ٹارگٹ کلنگ، دھماکے اور کئی ایسی وارداتیں ہوئیں جس سے کراچی اندھیر نگری
کا شکار ہوگیا تاہم رینجرز کے جوانوں نے پولیس کی مدد سے ان بگڑتے حالات پر
قابو پایا اور کراچی پھر سے ایک بار جگمگا اٹھا۔
ایک بڑے شہرہونے کے ناطے انتظا میہ نے کراچی کو 5اضلاع میں تقسیم کیا ہے۔
ضلع وسطی، غروبی، مشرقی، جنوبی اور ملیر۔ کراچی کی تاریخ کئی صدی پرانی ہے۔
اس شہر کو کافی سال قبل کولاچی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جو ایک گوٹھ سے
مشہور تھا بعد ازاں اس کا نام کراچی رکھا گیا۔ 5971ء میں کراچی قلات کی
مملکت کا حصہ تھا۔ اسی سال سندھ حکمرانوں اور قلات کے درمیان جنگ چھڑ گئی
جس کے نتیجے میں سندھ کے حکمران اس پر قا بض ہوگئے۔ شہر میں قدرتی بندر گاہ
ہو نے کے باعث کراچی تیزی سے ترقی کے منازل طے کر رہا تھا اور یہی وجہ تھی
کہ کراچی میں انگریزوں کی اجارہ داری بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ آخر کار 1795ء
میں انگریزوں نے کراچی شہر پر حملہ کر دیا۔
برطانوی راج کے بعد کراچی کی آبادی اور بندر گاہ میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بر
طا نوی طرز کے فن کلا سکی سے مزین عمارتیں بنائی گئیں جو کہ بر صغیر کے
اکثر شہروں سے مختلف تھیں۔ ان میں سے آج بھی کچھ عمارتیں مو جودہیں اور
سیاحوں کے لیے دلچسپی کا مرکز ہے۔781ء کو ایک عظیم ہستی کی پیدائش ہوئی۔
جنہوں نے بڑے ہو کر مسلمانوں کے لیے تحریک چلائی اور ان میں آزادی کا جذبہ
بیدار کیا۔ وہ عظیم انسان قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ آزادی کی اس تحریک
میں اس دور کے مایا ناز لوگوں نے بھی حصہ لیا جن میں علامہ اقبال، لیاقت
علی خان، سر سید احمد خان جیسی ہستیاں شامل ہیں۔ ان کی انتھک محنت اور
کوششوں سے پاکستان 14اگست 1947ء کو الگ ریاست کی شکل میں ابھر کر سامنے آیا
اور اسی دوران کراچی کو پاکستان کا دارلخلافہ قرار دے دیا گیا۔ 1947ء سے
1959ء تک کراچی پاکستان کا دارلخلافہ رہا۔
کراچی کی تیزی سے بڑھتی آبادی اور صنعتوں کے پیش نظر اس دور کے جنرل ایوب
خان نے 1960ء میں دارلخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا۔ اس کے با
وجود کراچی کی مقبو لیت میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ دن دگنی رات چوگنی
ترقی کرتا رہا اور آج کراچی کا شمار دنیا کے ترقی پذیر شہروں میں ہوتا ہے۔
|