پاکستانی میڈیا کا ملکی سطح پر منفی یا مثبت کردار

تحریر: عائشہ تنویر
’’پرنٹ میڈیا زوال کا شکار ہو رہا ہے ، آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے‘‘۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار جملے ہم سنتے اور بولتے رہتے ہیں۔ میڈیا ایک زبان زد عام لفظ ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ میڈیا دراصل کیا ہے ؟
میڈیا کا لفظ "میڈیم" سے نکلا ہے۔ جس کے معنی زریعہ یا رابطہ یا لے جانے والے کے ہیں۔ ابلاغ عامہ کے لئے استعمال کئے جانے والے تمام ذرائع میڈیا ہیں۔ آج کل دنیا قریب آ چکی ہے، رابطے آسان ہیں۔ اس حساب سے میڈیا کی بھی بے شمار اقسام وجود میں آ چکی ہیں۔

وائس میڈیا یا صوتی تعلق کے ذرائع میں ہم ٹیلیفون ، موبائل ، ریڈیو، نیٹ پر شامل کی گئی آواز کی ریکارڈنگ غرض صوتی پیغامات کے تمام تعلق شامل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح پرنٹ میڈیا میں اخبار ، میگزین ، کتب سے لے کر بل بورڈ اور بروشرز تک شامل ہیں۔ پھر الیکٹرانک میڈیا یعنی فلم ، ڈرامے ،وڈیوز وغیرہ اور سوشل میڈیا میں باہم رابطے کی تمام ویب سائٹس آجاتی ہیں۔ میڈیا کے ان تمام ذرائع میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ عوام تک معلومات پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہ دراصل عوام کے لئے ہی بنائے گئے ہیں۔ آپ گاڑی میں سفر کر رہے ہیں لیکن ریڈیو پر آپ کو کسی جگہ ٹریفک جام کا علم ہوا اور آپ نے وہیں اپنا روٹ بدل لیا۔ملازمت کی تلاش سے لیکر گاڑی ، گھر حتیٰ کہ کپڑے ، جوتوں کی خرید و فروخت میں بھی میڈیا آپ کی مدد کرتا ہے۔

1965 کی جنگ میں پاکستانی میڈیا نے اپنی فوجوں کا مورال بڑھایا تو ترکی میں وہاں کی عوام میڈیا میں بروقت خبر پہنچنے سے طیب اردگان کا اقتدار بچانے نکلی۔ میڈیا گھر بیٹھے عوام کا شعور بیدار کرنے اور اسے تعلیم و ہنر سے آراستہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ پاکستان میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اپنے ریڈیو چینل، ویڈیو ریکارڈنگ، ویب سائٹ اور کتب کی مدد سے کام کر رہی ہے۔ کسی خاص مسئلے پر عوامی آراء جاننے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے بھی میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اپنی مصنوعات کی تشہیر اور سیاحت کے فروغ کے لئے بھی میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر کونے کی معلومات انگلی کی دسترس میں ہونے کے باوجود ، میڈیا کو جمہوریت کا ستون قرار دینے کے باوجود ہم میڈیا کے منفی استعمال اور لاتعداد نقصانات سے انکار نہیں کر سکتے۔ ہمارے ملک میں میں میڈیا وہ خرانٹ بیل ہے جو قابو سے نکلتے ہی سب سے پہلے اپنے مالک کو ٹکر مارتا ہے۔ ہمارا میڈیا ناکام تو ۱۷۹۱ میں ہی ہو گیا تھا جب ہم انڈین پروپیگنڈے کا مقابلہ نہ کر سکے اور دنیا بھر میں ہماری افواج کا مورال ڈاؤن کیا گیا۔ ان پر قتل و غارت اور عصمت دری کے غلط الزام لگائے گئے جن کا اعتراف اب خود انڈین مصنفین کرتے ہیں۔ میڈیا کا مقصد عوام میں شعور پیدا کرنا ہے اور انہیں ملکی و عالمی حالات سے باخبر رکھنا ہے لیکن ہمارے ملک کا میڈیا تفریح کے نام پر بدیسی ٹقافت دکھاتا ہے۔ ہمارے بچے دیگر ممالک کے کاٹون دیکھتے ہیں اور انہی کے گن گاتے ہیں۔ ایک طرف بے حیائی و فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے تو دوسری طرف خبروں کے نام پر سنسنی خیزی اور ہیجان پھیلایا جا رہا ہے۔ ریٹنگ کے چکر میں کبھی براہ راست قومی سلامتی کے اداروں پر کیچڑ اچھال کر ان کی ساکھ خراب کی جاتی ہے۔تو کبھی آزاد ی اظہار کے نام پر یہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ہم۔" اسلامی جمہوریہ پاکستان " میں رہتے ہیں۔اسلام یہاں کا سرکاری مذہب ہے۔

ہمارا میڈیا ملک میں ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی برائی کو محدب عدسہ سے دکھاتاہے اور یہ ٹابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کو زور لگا دیتا ہے کہ پاکستان میں اچھائی ناپید ہے۔ تب ہی دنیا میں سب سے زیادہ بم دھماکے پورے سال میں انڈیا میں ہوئے لیکن وہ پر امن کہلایا اور سب سے زیادہ ریپ کیسز رجسٹر ہونے کے بعد بھی امریکی شہری قانون پسند کہلائے۔جب کہ ہمارے بے شعور میڈیا کی بدولت ملک میں مایوسی اور نامیدی پھیلی اور سرمایہ کار وں کے لئے ہمارا ملک غیر محفوظ کہلایا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اپنی کمزوریوں پر پردے ڈال کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینی چاہیے بلکہ ہمیں ماہر نفسیات کے بتائے سینڈوچ تکنیک کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے عوام کو برائی سے آگاہ کرتے ہوئے کچھ مثبت چیزیں، کوئی حل، کوئی امید کی روشن کرن چھوڑنی چاہئے تا کہ ان میں کچھ کرنے کی لگن پیدا ہو۔ وہ ملکی ترقی کی کوشش کریں۔

میڈیا بذات خود وہ تلوار ہے جس کا درست استعمال آپ کو ہاری ہوئی جنگ جتوا بھی سکتا ہے اور اس سے آپ خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتے ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت اس مسئلے پر ایکشن لے اور ملکی مفاد میں باقاعدہ درست پالیسی بنائی جائے۔ میڈیا سے منسلک لوگوں کی تربیت کے لئے سیمینار اور ورکشاپس منعقد کئے جائیں تا کہ انہیں ملکی آزادء اظہار اور ملکی سالمیت پر حملے میں فرق بتایا جاسکے۔ عوام میں شعور اجاگر کیا جائے تا کہ وہ لکیر کے فقیر نہ بنیں بلکہ سوشل میڈیا کی طاقت سے ملکی مفاد کی خاطر دنیا کو پاکستان کا خوبصورت چہرہ دکھائیں۔ یاد رکھنے والی بات ہے کہ ہم اور آپ ہی میڈیا ہیں اور ہم ہی پاکستان ہیں۔ اگر ہم خود احتسابی کے عمل سے نہیں گزریں گے تو کچھ بھی درست نہیں ہو گا۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.