منافق اور دوغلے قسم کے لوگ تو عموما ہر دُور اور
خطہِ ارض میں پائے جاتے ہیں لیکن مِن حیث الاقوم اِن کی مثال کم ہی ملتی ہے
اور اُن میں ہماری قوم بھی شامل ہے آپ میں سے زیادہ طرح قارین کو اعتراض ہو
گا کئی کو تو شائد غصہ بھی آ گیا ہو گا پوری قوم کو منافق کہنے پہ کہ عجیب
پاکستانی ہے جو خود ہی اپنی قوم کو گالی دے رہا ہے لیکن کیا کریں حقیقت
چُھپانے سے نہیں چُھپتی اور اعتراض کرنے والے کہیں گے کہ پانچوں انگلیاں
برابر نہیں ہوتیں ۔اوربلکل سارے ایسے نا ہو ں گئے لیکن مَیں ایک عربی "حکم
الااکثر حکم ُالا قُل" یا انگریزی کی کہاوت " میجورٹی اِز اتھارٹی " پہ
یقین رکھتا ہوں اور معترض کو حق حاصل ہے کہ وہ اختلاف کرے اور اپنی رائے سے
آگاہ کرے لیکن ہمارے ہاں تلخ سچ لکھنے و بولنے کی بجائے خوش فہمی زیادہ قبل
قدر ہے اور کڑوا سچ لکھنے اور بولنے والے کو ایجنٹ، غداراور ہر قسم کی
خامیاں نکالنے والی پھپھے کٹنی عورت سے تشبع دیتے ہیں اور ایک تنقید نگار
کے خطاب سے نوازا جاتا ہے لیکن اِس کے برعکس ہم تنقید برائے اصلاح کی جانب
سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے کہ اِس تنقید میں چھپے کئی اصلاحی پہلو بھی
پوشیدہ ہیں چلو خیر اب ذرا اصل مدعا کی جانب آتے ہیں کہ پاکستانی قوم کس
طرح دوغلے پن کا شکار ہے کئی ایسے مواقع ہیں جو ہمارے دوغلے پن کو بے نقاب
کرتے ہیں فار ایگزمپل پاکستان میں نناوے فیصد کے قریب لوگ امریکہ کے مخالف
ہیں اور اُن کو اسلام و پاکستان کا دشمن کہتے تھکتے نہیں لیکن سیلاب اور
زلزلوں میں امدادیں بھی انہیں کی چباتے ہیں ،ایڈز بھی انہیں کی کھاتے ہیں ،گلشن
پاکستان کا کاروبار چلانے کے لیے کشکول بھی انہیں سے بھرواتے ہیں، اُن سے
جنگی ہتھیار اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہیلپ بھی لیتے ہیں اور ساتھ
مداخلت کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں ،اُن کو غلیظ ، گندے اور بے حیا بھی کہتے
ہیں اور ساتھ اُن کے کلچر کو اپنا کے فخر بھی محسوس کرتے ہیں،ساری برائیاں
بھی گنواتے ہیں اور ساتھ اُن کے ممالک میں جا کر اُن کی نوکری کرنے اور
وہاں رہائش پذیر ہونے کے خواب بھی دیکھتے ہیں آخر کیوں۔؟ اگر وہ اتنے ہی
قابل ِ نفرت ہیں تو اُن کے تلوے کیوں چاٹتے ہو کیا کوئی غیرت مند بتانا
گوارا کرے گا۔۔؟ ابھی داستان ِ دوغلا پن ختم نہیں ہوئی یہ تو پہلی قسط تھی
دوسری پیش ِ خدمت ہے ہم پاکستانی قوم ہر کام فوج اور فوجی اداروں سے کروانا
چاہتے ہیں الیکشن کی نگرانی بھی فوج کرے کیونکہ ہمیں پاکستانی پولیس پہ
اعتبار نہیں کیونکہ وہ غنڈوں سے مل کر حرام خوری اور دھاندلی کرتے ہیں ،
چھوٹو موٹو گینگ سے بھی فوج نمٹے کیونکہ یہ پولیس اور سیکورٹی اداروں کے بس
کی بات نہیں،شہریوں کے انصاف کے لیے عدالتیں بھی فوجی ہوں اس لیے کہ ہمیں
پاکستانی عدالتوں سے انصاف کے لیے قارون کی دولت اور حضرت نوح ؑ کی عمر
چاہیے جو ہمارے پاس ہے نہیں ، دہشت گردوں سے بھی فوج لڑے،کرپشن پہ احتساب
بھی فوج کرے کیونکہ نیب صرف نام کی ہے ، اداروں اور منصوبوں پہ سیکورٹی بھی
فوج کی ہو، اندرونی و بیرونی دشمنوں کا قلع قمع بھی فوج کرے ، دوست ممالک
کے باغیوں سے فوج لڑے اور کرکٹ کے میچ بھی فوج کروائے ، پاکستانی قوم کی
منافقت اور دوغلے پن کی انتہا تو دیکھو ملک کا ہر کام فوج کرے تو وہ محب
وطن اور اگر ساتھ حکمرانی بھی کرے تو غدار ۔۔آخر یہ دوغلا پن کیوں ہے اگر
ہر کام فوج نے کرنا ہے تو حکمرانی کیوں نہیں ۔کیا یہ منافقت نہیں۔؟؟داستان
ِ دوغلا پن کی تیسری قسط میں اُن دوغلے لوگوں سے متعارف کروانا چاہوں گا جن
کا افکار ِ اقبالؒ سے تو دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں لیکن وہ اقبال اقبال
کرتے تھکتے نہیں جیسا کہ وہ ملاّں بھی اقبال کے اشعار پڑھ پڑھ نہیں تھکتے
جن کے بارے میں اقبال ؒ نے بہت کچھ لکھاہے ۔۔۔
نہیں جانے یہ غافل لاالہ و کتابُ اﷲ۔۔۔جہالت کھلتی سینے میں سر پہ دین کا
کُلّہ
پجاری پیٹ کا ،اسلام کا رہبر نہیں ہوتا ۔۔۔یہی اقبال ؔکا ملاّ یہی جاوید ؔ
کا ملاّ
اور پھر اقبال ؒ نے ایک اور جگہ پہ زبان زد عام شعر نام نہاد ملاّ کے لیے
کہا :
قوم کیا چیز ہے ،قوموں کی امامت کیا ہے ۔۔اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو
رکعت کے امام
ہمارے زیادہ تر علما ء کرام نے بھی دوغلا پن کی انتہا کر دی ہے جنہوں نے
رہنمائی کرنی تھی وہ بھی دوغلی پالیسی اختیار کر رہے ہیں سارا دن منبر ِ
رسولﷺ پہ بیٹھ کے مہنگائی ، نا انصافی کا رونا روئیں گئے لیکن اتنے منافق
ٹائپ ہوں گئے نظام ِ مصطفی ﷺ کی بات کرنے سے بھی گریز کریں گے اور جواز پیش
کریں گے کہ ہمارا سیاست سے کیا تعلق ،یہ کیا بکواس ہے سیاست کیا اسلام کے
منافی ہے۔؟ بلکہ یہ تو انبیاء کرام کی سُنت ہے اگر اِس کو پاکستان میں گالی
بنایا گیا ہے تو یہ بھی ہمارا ہی قصور ہے ۔ایک طرف تو دعائیں کریں گئے
اتحاد ِ اُمت کی اور ساتھ ہی فرقہ واریت کو ہوا بھی دیں گیں کیونکہ اِس
فتوے بازی کے علاوہ اُن کی دوکان نہیں چمکے گی واہ واہ نہیں ہو گی جب تک
کافر و مشرک کا فتوا جاری نہ ہو اورپھرہماری عوام بھی اتنی جاہل ہے اُسی کو
ہی اپنا ہیرو بنا لے گی جس کا فتویٰ کا کاروبار تھوک کا ہو افسوس صد افسوس!
جن مسلمان کافروں کو اسلام کی وعوت دے کے مسلمان کرنا تھا وہ علماء کرام
مسلمانوں پہ کفر کے فتوے دے کر کافر کر رہے ہیں۔اور وہ لوگ بھی اقبال ؒ کو
اپنا مرشد مانتے اور گردانتے ہیں جن کے بارے اقبال نے واضع طور پر کہا کہ :
تجھے ابا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی ۔۔۔کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت
وہ سیاّرہ۔۔
داستان ِ دوغلاپن کی چوتھی قسط میں ایک اور دوغلی پالیسی کی نقاب کشائی کی
گئی ہے وہ یہ کہ ہماری قوم کے اذہان میں پتہ نہیں کس نے یہودیوں اور
قادیانیوں کی کمپنیوں کی بنائی ہوئی چیزیں استعمال نہ کرو کیونکہ اِس سے
اُن کو جو نفع ہو گا وغیرہ وغیرہ تو اُن سے بھلا کوئی پوچھے کہ عقل کے
اندھوں سے پوچھے کہ یہ جو باقی کافروں کی بنائی ہوئی چیزیں کھا رہے ہو اُ ن
سے کافروں اور دشمنوں کو فائدہ نہیں ہوتا کیا۔؟خاص طور پر یہ ازلی دشمن
انڈیا کی تو کیا وہ تمھاری دوست ہیں۔؟فلمیں اُن کی جو دیکھ دیکھ تھکے
نہیں،ادویات اور کاسمیٹکس جو مارکیٹ میں نام لے انڈیا کی خریدتے ہو ،زرعی
اجناس ، ڈاکٹرز، انجینئرز ، کلوبھوشن سمیت بہت کچھ تو انڈیا سے آتا ہے تب
اُن واش روم دانشوروں کی دانشوری کہاں ہوتی ہے جب نام لے کے انڈیا اور
دوسرے دشمن ممالک کی چیزیں خریدتے ہیں۔؟ اور ہماری قوم ایسی دوغلی قسم کی
ہے کہ پانچ سال جس حکومت اورحکمرانوں سے تنگ آ کر اُن کو گالیاں بھی دیں
گے، سڑکوں پہ ٹائر بھی جلائیں گے،دھرنے بھی دیں گے اور اگلی بار پھر آٹے کے
توڑے، سولنگ ،نالی اور ایک آدھی پلی کے لیے پھر انہیں کو ووٹ دے کے الیکٹ
کر لیں گے اور پھر اگلے پانچ سال خوب بھونکیں گے کہ یہ ہو گیا وہ ہو گیا
مہنگائی بڑھ گئی ، قرضہ بڑھ گیا فلاں ہو گیا تو ظالموں اَب روتے کیوں ہو
برداشت کرو اَب اپنا ہی بویا کاٹنے پہ حیرت کیسی تو یہ ہے ہماری دوغلا
پالیسی اورہمارا دوغلاپن ،داستان ِ دوغلاپن کی باقی اقساط انشااﷲ اگلے کالم
میں ۔کیا ہماری قوم دوغلے پن کا شکار نہیں۔۔۔؟؟ اور آخر میں ایک شعر پیش ِ
خدمت ہے۔
دورنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا۔۔سَرا سر موم یا پھر، سَنگ ہو جا۔۔دورنگی چھوڑ
دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |