اترپردیش پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو ریاست کی ابتری
اور بدحالی کا منظر عالم آشکارا ہوجاتا ہے، غربت و افلاس تعلیمی پسماندگی،
جرائم کی بڑھتی شرح، فسادات کی تعداد میں ہوتا اضافہ، نفرت کی بلند ہوتی
دیواریں، یہ یوپی کا مختصر تعارف ہے ۔ 21کروڑ کی آبادی والی یہ ریاست جرائم
میں اپنی مثال آپ ہے، 4732قتل کے معاملات 2015میں درج ہوئے جو تعداد
2016مزید بڑھی، قتل کی کوششوں کے واقعات صوبہ میں بہت زیادہ ہیں، پورے ملک
میں ان معاملات کے اعداد وشمار پر غور کیا جائے تو اتر پردیش تیسری پوزیشن
حاصل کئے ہوئے ہے ۔قتل اور جرائم کی کیفیت کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کافی
ہے کہ ڈی ایس پی ضیاء الحق کو سر عام قتل کردیا گیا، ان کی بیوی انصاف کے
لئے چلاتی رہ گئیں ۔این آئی اے کے قابل افسر تنزیل احمد اور ان کی بیوی کو
گولیوں سے بھون دیا گیا، یہ واقعات صوبہ میں جرائم کی داستاں بیان کرتے
ہیں، عورتوں پر مظالم کی انتہا ہے، پورے ملک میں اس صوبہ میں سب سے زیادہ
عورتوں پر مظالم ہوتے ہیں، مذہبی تصادم، مذہبی فسادات، مذہبی منافرت کا تو
پوچھنا ہی کیا؟ آئے دن فرقہ وارانہ فسادات ہیں۔ 2012میں118 فرقہ وارانہ
فسادات ہوئے، 39جانیں گئیں، 500سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے، 2013 میں 247فرقہ
وارانہ فسادات ہوئے، 77 لوگ جاں بحق ہوئے، 90افراد نے موت سے پنجہ آزمائی
کی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، عزتیں پامال ہوئیں، جانیں تلف ہوئیں، خوف
وہراس سے ذہن و دماغ شل ہوگئے، زندہ افراد پر بھی عرصہ تک مردنی چھائی رہی،
اس صورت کو دیکھ کر اندازاہ لگایا جاسکتا ہے، ریاست میں تعلیم کا کیا حال
ہوگا ؟جہاں لوگ فسادات کی چکی میں پستے رہتے ہیں، وہاں نہ روزگار ہوتا اور
نہ تعلیم و ترقی، یہی صورت حال ہے، ایودھیہ دیوبند، بنارس جیسی مقدس مذہبی
اور لکھنؤ جیسی ادبی اور میرٹھ جیسی انقلابی سرزمین کے مالک صوبہ اترپردیش
کا اور تاج محل جیسی خوبصورت، شہرت یافتہ عمارت رکھنے والے خطہ کی بد صورتی
کا عالم یہ ہے کہ تعلیم میں پورے ملک میں پچھڑا ہوا، لڑکوں میں ابتدائی
تعلیم 50 فی صد لڑکیوں میں تعلیم 27فی صد ہے، مسلمانوں میں لڑکیاں 10فی صد
ہی ابتدائی تعلیم سے آگے پہنچتی ہیں، دلت لڑکیوں کا معاملہ اس سے بھی زیادہ
تکلیف دہ ہے اور تعلیم جیسی دولت عظمیٰ ان کے نصیب میں کم ہی آتی ہے
۔اترپردیش کے 20 ضلعوں کا عالم یہ ہے کہ یہاں تعلیمی شرح 50فی صد سے کم ہے،
اگر چہ چند برسوں میں صوبہ نے کچھ ترقی کی منازل طے کیں، مگر اب بھی اعداد
وشمار کو دیکھا جائے تو تعلیمی شرح 69فی صد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے، بے
روزگاری کا اندازہ لگانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے، 180نشستوں کے لئے 20ہزار
درخواستیں آتی ہیں، امروہہ میں صفائی ملازمین رکھنے کے لئے 114جگہیں خالی
ہوتیں ہیں تو 19ہزار افراد دعویداری پیش کرتے ہیں، اس آئینہ میں اترپردیش
کو دیکھئے اور اندازہ کیجئے کہ ملک کا یہ تاریخی صوبہ جہاں علم و ادب کے
جیالے پیدا ہوئے، جہاں جنگ آزادی کی عبارت لکھی گئی، جن کے دم قدم سے بہت
سے علوم و فنون کی داغ بیل پڑی، جہاں زبانوں کی پیاس بجھائی گئی، ادب کا
محل تعمیر کیا گیا، آج وہ اپنے معیار و وقار کے لئے ترس رہا ہے اور اس کی
صورت حال کتنی نازک ہیں،ہر آنے والی حکومت اپنی منشاء اور مقصد کے مطابق
چند فرامین جاری کرتی ہے اور پھر پانچ سالوں تک عوام کے استحصال کے سوا کچھ
بھی نہیں ہوتا، اس انتخاب کے بعد بھی کچھ ایسی ہی صورت حال نظر آرہی ہے
۔یوگی آدتیہ ناتھ نے کرسی پر بیٹھنے کے بعد گوشت بندی کا اعلان کردیا،
اقلیتی طبقات خوف زدہ ہیں، جن کے پاس اجازت نامہ نہیں ہے، ان کا تو کیا
کہنا، جو اجازت نامہ رکھتے ہیں، وہ بھی سہمے ہوئے ہیں اور ریاست کا ہر
باشندہ تشویش میں مبتلا ہے اور اس فکر میں صبح و شام و بسر کررہا ہے کہ آنے
والا وقت کون سے فرمان کو اپنے دامن میں رکھتا ہے، سیاسی لیڈروں کی زبانیں
دراز ہوگئیں ہیں، سبرامنیم سوامی جیسے سینئر لیڈران دھمکیاں دے رہے ہیں،
بابری مسجد کے مدعے کو ہوا دینے کی کوشش ہورہی ہے، مسلمانوں کو خوف و ہراس
میں مبتلا نہ ہونے کا مشورہ دیا جارہا ہے، وندے ماترم نہ کہنے پر ٹانگیں
توڑنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، قوانین شکنی کا اعلان کیا جارہا ہے اور
حکومت ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے اور دوسری طرف فیس بک، وہاٹس ایپ
پر بھی وزیر اعلیٰ کے تعلق سے زبان دراز کرنے والوں کو جیل میںٹھونسا جارہا
ہے، سمجھ میں نہیں آتا یہ روش کس لئے ؟مودی کہتے ہیں پھل آنے پر درخت جھک
جاتا ہے، یوگی کہتے ہیں، سرکار سب کی ہے، پھر یہ طریقہ کار کیوں ؟کیا اسی
کا نام جھکنا ہے ؟کیا یہ سب کو ساتھ لے کر چلنے والی بات ہے، کیا اس سے
صوبہ کی ترقی ہوگی ؟کیا اس طریقہ کار سے اترپردیش مزید پیچھے نہیں چلا جائے
گا ؟کیا ترقی کا زینہ یہی ہے ؟یہ تمام سوالات بتارہے ہیں کہ ریاست میں اگر
یہی روش باقی رہتی ہے تو حالات میں مزید ابتری آسکتی ہے ۔بی جے پی کو یہ
صورت حال ذہن میں رکھتے ہوئے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبہ
میں تعلیمی انقلاب برپا کیا جاسکے، اسے ترقی سے ہمکنار کیا جاسکے اور تعلیم
میں کرناٹک و کیرل جیسی ریاستوں کے قریب کیا جاسکے، جو جملوں سے نہیں ہوگا،
فرقہ واریت پھیلانے سے نہیں ہوگا، بدزبانی سے نہیں ہوگا، نفرت کی تبلیغ سے
نہیں ہوگا بلکہ مضبوط حکمت عملی، ٹھوس تدبیر اور بے لوث خدمت اس معرکہ کو
سر کرنے میں معاون ہوگا ورنہ تو سیاست کی منڈی میں بہت سے گھاگھ آئے اور
وقت کے بہاؤ نے انہیں تنکا ثابت کردیا، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے،
کانگریس کی تاریخ ذہن میں تازہ کر لی جائے، ہوش خود بخود ٹھکانے لگ جائیں
گے اور سمجھ آجائے گا کہ یہی افراد جو آج داد و تحسین کا نقارہ بجارہے ہیں،
کل دشنام طرازی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیںاور یہی طعن و تشنیع کے
نعرے لگانے پیچھے نہیں رہیں گے، اس صورت حال کو ہم اپنی آنکھوں دیکھ چکے
ہیں اور تاریخ بارہا ان حقائق کو اپنے سینہ پر رقم کرتی چلی آئی ہے ۔بی جے
پی اور یوگی بھی اس بات کو ذہن میں رکھیں، یوپی میں بہت کام ہے، جس کو
ایمانداری سے انجام دیا جائے تو یہ صوبہ بہت زرخیز ہے، بہت سے لوگوں کی
قسمت کاستارہ اس نے روشن کیا ہے اور آگے بھی یہ اس کی صلاحیت رکھتا ہے اور
بہت سے شہنشاہوں کی قسمت اس ریاست نے مقفل بھی کردی ہے، اس چیز کو ذہن میں
رکھتے ہوئے اور صوبہ کے حالات کو ذہن رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو تعمیری
کاموں میں حصہ لینے کی ضرورت ہے، سب سے پہلے انتظامیہ کو درست کیا جائے
جرائم پر قدغن لگایا جائے، محکمہ پولس کو پابند کیا جائے کہ قتل و غارت گری
کم ہو، فسادات کا کھیل بند کیا جائے، بدزبانی کرنے والوں پر نکیل کسی جائے،
مسلمانوں کے جذبات کو کھلونا نہ سمجھا جائے، عورتوں کی عزت و آبرو کی حفاظت
کی جائے، انہیں گھروں اور سڑکوں پر مامون کردیا جائے، روزگار پر توجہ دی
جائے، بی جے پی آنے کے بعد دس دنوں میں ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، ان
کے لئے متبادل روزگار کا انتظام کیا جائے، بڑھتی بے روزگاری پر لگام کسا
جائے، غربت و افلاس کی عمارت کو زمین دوز کر دیا جائے، ان تمام امور پر بہت
جلد توجہ دینے کی ضرورت ہے، اگرایسا نہیں ہوتا، تو پھر اپنے آپ کو 2019میں
برے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رکھا جائے، کاغذ کی ناؤ زیادہ دیر تک نہیں
تیر سکتی، خواب دکھا کر زیادہ دنوں تک دھوکا نہیں دیا جاسکتا، حقائق کو قفس
میں بند نہیں کیا جاسکتا، بی جے پی کے لئے یہ بہت ہی اہم وقت اور نازک موڑ
ہے، اسی مقام پر پہنچ کر کانگریس بھی ناکامی کا شکارہوگئی تھی اور ترقی وہ
کامیابی کی زیادہ خوراک نے اس کا ہاضمہ خراب کردیا تھا، عین اسی دوراہے پر
بی جے پی کھڑی ہوئی ہے ۔اگر وہ اس کامیابی کو ہضم کرلیتی ہے اور تعمیری
کاموں پر توجہ دیتی ہے تو کامیابی کا سنہرا دور اس کے استقبال کے لئے
بانہیں کھولے کھڑا ہے، البتہ اگر یہ کامیابی ہضم نہیں ہوتی، تو یوپی جن
حالات سے دوچار ہوگا اس تصور کو چھوڑئیے بلکہ یہ خیال کیجئے بی جے پی کہاں
جائے گی ؟یوگی جی کو جان لینا چاہے، آسان نہیں ڈگر پنگھٹ کی -
|