اخبارات ، سوشل میڈیا ٹیلی چینلز ہر روز ان اشتہارات سے
بھرئے ہوتے ہیں کہ جادو کا توڑ۔ ہر تمنا پوری ہوگی۔ کالے جادو کی کاٹ کے
ماہر۔ بنگالی بابا۔ اصلی کالا جادو۔ استخارہ ۔ دین سے چونکہ انسان کو
جذباتی لگاؤ ہوتا ہے اِس لیے دین کے ساتھ منسلک کرکے ہوسی پرستی کا کاروبار
جاری ہے۔اِس کاروبار کو ختم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اِس سارئے
معاملے میں علماء اکرام ، مشائخ عظام بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔عورتوں کی
عزتیں نیلام ہورہی ہیں۔ نشہ عام ۔ دین کے نام پر وہ خرافات کے اﷲ کی
پناہ۔اگر موجودہ گدی نشین مزارات پر ہونے والی خرافات اور غیر اسلامی حرکات
کو بند نہیں کرواسکتے تو پھر یہ گدی نشینی کیا ہے۔ اصل میں کسی بھی بزرگ کی
تعلیمات پر عمل درآمد کروانا اِن کے پیروکاروں کا ہی فرض ہوتا ہے۔ لیکن
ہمارئے معاشرئے میں گدی نشیی ایک کاروبار کی شکل اختیار چکا ہے۔ نوے فی صد
سے زائد مزارات حکومت کے کنٹرول میں ہیں ۔ حکومت کیوں نہیں مزارات پر ہونے
والی خرافات کو روکتی۔ جرائم کا تعلق اولیا اکرام کی تعلیمات سے نہیں۔
جرائم تو معاشرئے مینں ویسے بھی بہت زیادہ ہیں۔ اِس لیے جرائم اگر مزارات
کی آڑ میں ہورہے ہوں تو اُس کا قلع قمع کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ گدی
نشینی تو محض ایک کاروبار بن چکا ہے۔بندئے کا اپنے رب سے تعلق بہار کی طرح
کا ہوتا ہے پھول جب تک بہار کے مزئے لوٹ رہا ہوتا ہے وہ مہکتا رہتا ہے جیسے
ہی خزاں وارد ہوتی ہے پھول کی پتیاں بکھر جاتی ہیں۔ انسان جب تک اپنے رب سے
امید باندھے رکھتا ہے تب تک اُس کے من کی دنیا آباد رہتی ہے جیسے ہی وہ
اپنے رب سے ناامید ہوتا ہے اور یاسیت اُس سے روحانی قوت چھین لیتی ہے جس
لمحے بھی بندئے کے دل میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ اُس کا یہ کام نہیں
ہونا تو گویا وہ اپنے رب کی ربوبیت کوغیر ارادی طور پر ماننے سے انکاری
ہوجاتا ہے یوں پھر امید کی کمزوری اُس کے ایمان کو اعتقاد کو اُسکے یقین کو
کھوکھلا کر دیتی ہے۔ وہ پھر رب کی رحمتوں کے ہالے سے نکل کر وسوسوں کے جال
میں پھنس جاتا ہے بلکل اِسی طرح جیسے مکڑا جال میں پھنسا ہوتا ہے۔ نہ تو
امید بَر آتی ہے اور نہ وسوسے چین لینے دیتے ہیں۔عبادت گاہوں میں خاص
اہتمام ہوتا ہے کیا رب کا صرف وہیں قیام ہوتا ہے گھر میں بازار میں دفتر
میں کیا ایمان کا کام نہیں ہوتا ہے یونہی مذہب کا نام لے لے کے عقیدتوں کا
دم بھر بھر کے عبادت کی رسم ادا ہوتی ہے علم و عمل سے رشتہ محال ہے زر کی
ہوس نے اندھا کیا ہوا۔پاکستان میں مروجہ خانقاہی نظام ملوکیت میں ڈھل چکا
ہے؟ آستانے روپے پیسے کی ریل پیل میں اور مرید بھوک کے مارئے ہوئے غلام ابنِ
غلام ایک رب پر ایمان کی بجائے ناسمجھی میں کم علمی کی وجہ مرید بھی
استحصال شکار ہیں اور اُن کے نذرانے ایسے جگہ جاتے ہیں کہ کاروباری انداز
میں چلائی جانے والی خانقاہیں پرائیوٹ لمیٹیڈ کمپنیوں کا روپ دھار چکی
ہیں۔جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرئے کے ساتھ نام نہاد پیر بھی اُس دائرئے میں
داخل ہوچکے ہیں جہاں پیسہ ہی ایمان، لوٹ مار استحصال کے لیے نام نہاد پیر
بھی روایتی سیاست میں حصہ لے کر اپنے کاروبار چمکاتے ہیں۔ پاکستان میں
خانقاہی نظام کی تباہی کی وجہ ہی یہ ہے کہ خود کو سوادِاعظم کہنے والوں کی
آواز کہیں بھی نہیں۔ اگر کسی پیر یا مذہبی رہنماء نے رویتی سیاست کا ہی حصہ
بننا ہے تو پھر سات دہائیوں سے جو چلا آرہا ہے ایسے ہی چلتا رہے گا۔آستانے
محبت و الفت کے گہوارئے ہوا کرتے تھے لوگ بلاتخصیص اپنے دکھ درد کے حل کے
لیے خانقاہ میں بیٹھے اﷲ کے نیک بندئے سے رہنمائی لیتے تھے۔ اِن خانقاہوں
میں ہر آنے جانے والے کو روٹی ملتی اور روحانیت کی منازل بھی طے ہوتیں۔یہ
ہی وجہ ہے کہ داتا علی ہجویریؒ کو لاہور میں دفن ہوئے ایک ہزارسال ہونے کو
ہے ۔لیکن اﷲ پاک کا فضل ہر ساعت اُن کے دربار پہ جاری و ساری ہے اور اﷲ پاک
کی خاص رحمتیں نازل ہو تی ہیں۔ لیکن وہ خانقاہیں جہاں باقاعدہ پیری مریدی
کا نظام چل رہا ہے وہاں بالکل صورتحال عجیب ہو چکی ہے۔ دین سے محبت رواج و
روایات کی نذر ہوچکی ہے۔ عظیم صوفی بزرگوں کی درگاہوں پہ ا یسی ایسی خرافات
ہو رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اﷲ کا نیک بندہ جہان دفن ہوتا ہے وہاں اﷲ پاک
کی رحمتوں کا نزول بہت زیاد ہوتا ہے لیکن ہندوانہ رسم رواج عجیب و غریب
انداز میں جاری ہے۔دین کی روح کو خانقاہی نظام نے ہی ترویج دی اور برصغیر
میں لاکھوں لوگوں کو مسلمان کیا اور پاکستان کو تو اولیا کا ہی فیضان کہا
جاتا ہے لیکن اِن اولیاء اکرام کی خانقاہوں کو جس انداز میں کاروبار بنا
دیا گیا ہے یہ سلسلہ بہت تکلیف دہ ہے جن درگاہوں سے رسمِ شبیری ادا ہونا
تھی وہاں گدیوں کی لڑائیاں جاری ہیں۔اِن حالات میں کہ اُمت کو جہاں اتحاد و
اتفاق کی ضرورت ہے اور پوری امت مسلمہ ہمہ گیر زوال و انحطاط کا شکار ہے
اِن خانقاہوں سے تو علم وہدائت کے سرچشمے پھوٹنے چاہیےں کیلن عملی طور پر
ایسا نہیں پارہا۔ جس کی وجہ سے پیٹرو اسلام کی حامل جماعتیں عوام الناس میں
فلاحی کاموں کے ذریعے یا دیگر انداز میں نفوس پزیری حاصل کر گئی ہیں۔ گویا
پاکستان میں نام نہاد طالبان کی جانب سے دہشت گردی بھی درحقیقت ہمارئے
خانقاہی نظام کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے ہی ہے۔ رُشد و ہدایت کا منبع و
مرکز جب اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں تو پھر لازمی طور پر خلاء پیدا ہوگا
اور اِس خلاء نے ہی ہمارئے معاشرئے کو نفرتوں کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ فرقہ
واریت، مذہب ، زبان، علاقہ کی بنیاد پر گردنیں کا ٹنے کا سلسلہ چلا نکلا ۔اب
آتے ہیں حالیہ بدترین واقعہ کی طرف۔سرگودھا کے نواحی گاؤں چک نمبر 95 شمالی
پکا ڈیرہ میں دربار کی گدی نشینی کے تنازعہ پر مخالف گروپ کے 20 افراد کو
ڈنڈوں، خنجروں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔ ملزم عبدالوحید اور اس کے
ساتھیوں نے نعشوں کی بے حرمتی بھی کی۔ ہلاک ہونے والوں میں ڈی ایس پی شبیر
گجر کا بیٹا بھی شامل، پولیس کے مطابق دربار کے گدی نشین پیر عبدالوحید نے
24 گھنٹے کے دوران اپنے مریدوں کو دو، دو تین، تین کر کے اپنے 2 ساتھیوں کی
مدد سے قتل کیا۔ سفاک پیر پہلے مرید کو نشہ آور چیز کھلاتا اوراس کے بعد
برہنہ کرکے اس کے کپڑوں کو جلاتا اور ایک مخصوص مقام پر جا کر انہیں ڈنڈے
اور خنجر مار مار کر قتل کر دیتا۔ واقعہ میں 3 زخمیوں میں سے ایک زخمی کی
حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ پولیس نے ملزم اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر
لیا جنہوں نے اعتراف جرم کر لیا۔ قتل ہونے والوں میں سائیں جمیل‘ زاہد
ملنگ‘بابر‘ جاوید‘ خالد جٹ‘ نصرت بی بی‘ فرزانہ بی بی‘ ندیم‘ محمدحسین‘
شازیہ‘ اشفاق‘ شاہد‘ سیف الرحمان‘ آصف‘ گلزار‘ ساجد‘ رخسانہ اور نعیم شامل
ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں میں کشمور بی بی‘ مریم بی بی‘ کاشف اور توقیر
شامل ہیں۔ قتل کئے گئے11افراد کا تعلق سرگودھا، 2 کا اسلام آباد، 2 لیہ،
ایک کا میانوالی، جب کہ ایک شخص کا تعلق پیر محل سے ہے، ایک خاتون کی شناخت
نہیں ہو سکی واقعہ میں جاں بحق ہونے والے6 افراد کا تعلق ایک جبکہ 5 کا
تعلق خاندان سے ہے۔ مقتولین میں پیر علی احمد گجر کا بٹیا اور دربار کا
متولی بھی شامل ہیں۔ سرگودھا کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) لیاقت چٹھہ نے بتایا کہ
واقعہ کی اطلاع ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا میں آنے والی ایک زخمی خاتون نے
دی تھی۔جودرگاہ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھے۔ عبدالوحید گجر
مریدین کو نشہ آور جوس پلا کر بیہوش کرتا اور پھر انہیں برہنہ کرکے ڈنڈے
اور خنجر کے وار سے ان کو تشدد کا نشانہ بناتا تھا یہاں تک کہ وہ ہلاک
ہوجاتے اور بعد ازاں ان کی نعشوں کو ایک کمرے میں جمع کرتا رہا۔ زخمی خاتون
نے بتایا کہ واردات کے دوران بچوں نے خوف زدہ ہو کر چیخنا چلانا شروع کیا
تو لوگوں نے عبدالوحید اور اس کے ساتھیوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ موقع
سے فرار ہوگیا۔ پولیس کے مطابق ملزم جنونی اور نفسیاتی ہوسکتے ہیں۔ قریبی
دیہات کے رہائشیوں نے متولی کی ذہنی حالت خراب ہونے کے حوالے سے خبروں کی
تردید کی ہے۔ تھانہ صدر سرگودھا میں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار احسان نے
بتایا کہ ان افراد کو قتل کرنے کا سلسلہ جمعہ کی رات سے شروع ہوا تاہم
پولیس کو ہفتہ کی شب اطلاع ملی۔ دورانِ تفتیش ملزم نے پولیس کو بتایا کہ
مریدوں کو اس شک میں قتل کیا کہ وہ پیر علی احمد گجر کو زہر دینے کی سازش
کا حصہ تھے۔ عبدالوحید مریدوں پر تشدد کر کے کہتا تھا کہ ان کا جسم پاک
ہونے لگا ہے۔ عبدالوحید مہینے میں ایک دو بار درگاہ پر آتا تھا،ملزم
عبدالوحید اور پیر علی محمد گجر کے خاندان میں گدی نشینی کا تنازع چل رہا
تھا اور اسی سلسلے میں عبدالوحید نے جرگہ بلایا ہوا تھا جس میں اس نے اپنے
پیر علی محمد گجر کے بیٹے کو اسلام آباد سے خصوصی طور پر مدعو کر رکھا تھا۔
ترجمان کے مطابق مقتول آصف کا تعلق فیصل آباد سے تھا اور وہ قاتل عبدالوحید
کے پیر علی محمد گجر کا اکلوتا بیٹا تھا، آصف اسلام آباد پولیس کا ملازم
اور پولیس لائن ہیڈ کواٹر میں تعینات تھا جب کہ طبی بنیاد پر 25 اپریل تک
رخصت پر تھا، آصف وزیراعظم سیکرٹریٹ کے سکواڈ میں بھی تعینات رہ چکا تھا۔
پوسٹ مارٹم کے بعد تصدیق ہوئی ہے کہ قتل ہونے والوں میں اسلام آباد کے
رہائشی 2 بھائی ساجد اور ندیم اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ جرگے میں شرکت
کے لئے گئے لیکن قاتل کا نشانہ بن گئے۔ ساجد اور ندیم آئی نائن اسلام آباد
میں دکاندار تھے اور مقتول آصف کے رشتہ دار تھے۔ صوبائی وزیر ترجمان پنجاب
حکومت زعیم قادری نے کہا ہے کہ دربار محکمہ اوقاف اور حکومت پنجاب کے
زیرانتظام نہیں دو سال قبل بنایاگیا تھا‘ تفتیش جاری ہے کہ یہ دربار کس کی
اجازت سے تعمیر ہوا۔ پنجاب میں کسی جعلی پیر اور تعویز گنڈا کرنے والوں کو
برداشت نہیں کیا جائے گا۔ زعیم قادری نے سول ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔
واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد سیل کر دی۔ قتل سمیت دہشت گردی کی
دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پنجاب حکومت کو
ابتدائی رپورٹ بھجوا دی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ نہ کسی
دشمنی کا نتیجہ ہے اور نہ ہی کوئی قبضہ کا تنازعہ ہے۔ واقعہ صریحاً توہم
پرستی اور جہالت کا نتیجہ ہے۔ دربار کے گدی نشین کا سارا کیا دھرا ہے۔ وقفہ
وقفہ سے جو شخص دربار پر آتا تھا۔ اس کو دربار کے آخری حصہ میں لے جایا
جاتا تھا اور اس پر تشدد کیا جاتاتھا۔ سر پر ڈنڈے مارے جاتے تھے اور جسم کے
مختلف حصوں پر خنجر چلائے جاتے تھے اور اس کے نتیجے میں اس شخص کی موت واقع
ہو جاتی تھی۔ پھر اس کی نعش کو اٹھا کر دوسرے کمرے میں منتقل کر دیا جاتا
تھا۔ رپورٹ کے مطابق دربار نہ محکمہ اوقاف کے پاس باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ ہے
اور نہ ہی کسی اور جگہ اس کی رجسٹریشن ہے۔ ملزم عبدالوحید الیکشن کمشن کا
ریٹائرڈ ملازم ہے۔ ملزم آصف ایڈووکیٹ پھالیہ اور ظفر ڈوگر خانقاہ ڈوگراں کا
رہائشی ہے۔ ملزم عبدالوحید اور ظفر ڈوگر کا ابتدائی بیان بھی ریکارڈ کر لیا
گیا ہے۔ عبدالوحید کا کہنا تھا کہ مقتولین نے میرے پیر کو زہر دے کر قتل
کیا تھا‘ مجھے بھی مارنا چاہتے تھے۔ پولیس کے مطابق مقتولین میں مقامی
زمیندار سیف الرحمان‘ اس کی بیوی‘ 2 بہنیں اور 2 بھائی بھی شامل ہیں۔
مقتولین میں وینا ملک کے شوہر اسد خٹک کا بھانجا بھی شامل ہے۔اِس بدترین
واقعہ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ مزاراعات پر ہونے والی خرافات نے ہمارئے
معاشرئے کو تباہی کی طرف دکھیل دیا ہے۔ مزکوہ مزار گو کہ محکمہ اوقاف کے
زیر انتظام نہیں لیکن نوئے فی صد سے زائد مزارات اوقاف کے زیر تحت ہی ہیں
وہاں پر خرافات جو ہوتی ہیں۔اُس کو کنٹرول کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ ہوس
پرستی ، لالچ کی وجہ سے خواتین اپنی عزتیں اِن نام نہاد جعلی پیروں سے
لٹاتی ہیں۔ نشیوں کی آماجگاہیں بن چکی ہیں۔ مزارات پر جانے والے اکثر اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خانؒ فاضل بریلوی کے ماننے والے ہیں اُن کے افکار کے
مطابق جو جہالت موجودہ دور میں مزارات پر موجود ہے اُس کا اسلام کے ساتھ
روھانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے۔ قارئین یہ نام نہاد قاتل پیر ایک پڑھا
لکھا شخص ہے اور اعلیٰ سرکاری آفیسر رہ چکا ہے۔ |