گلی کی نکڑ میں سیٹھ دلاور کے لڑکے عید کے لیے ہوے جانور
کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے۔ سب بچے اس جانور کے اردگرد ایسے جمع تھے
جیسے یہ جانور ہمیشہ انکے ساتھ رہنے والا تھا۔کوئی اسے پیار کررہا تھا،
کوئی گھاس پکڑ کر اسکے منہ میں ڈال رہا تھا،واقعی میں سارے بچے خوش و خرم
دکھائی دے رہے تھے۔ سیٹھ صاحب کے بچے اپنے دوستوں کو بڑے فخر سے بتا رہے
تھے کہ اباجان نے یہ بکرا 50000 میں خریدا ھے۔ اسی اثناء میں ایک بچہ جو
اسی گروہ کے پاس کھڑا تھا، اس بکرے کو پیار کرنے کے لیے آگے بڑھا کہ سیٹھ
کے چھوٹے بیٹے نے اسے دھکا دے کر پیچھے کر دیا اور کہا موچی کے بچے ہو
،تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے بکرے کو ہاتھ لگانے کی۔ ہاں وہ موچی چچا سعید
کا لڑکا جمیل تھا، لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ لیے، آنکھوں میں کچھ عجب سی
پریشانی لیے وہ 10 برس کی عمر میں 40 سال کا لگ رہا تھا۔ دھکا لگنے سے وہ
دھڑام کر کے نیچے گرا۔اس کے بازو پر کافی چوٹ آئی۔۔ روتا ہوا اٹھا ، اور
اپنے میلے کپڑے جھاڑتا ہوا گھر چلا گیا۔
رقیہ سعید اپنے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر بہت پریشان ہوئی اور اس سے
ساری کتھا سننے بیٹھ گئی۔ ماں کی ممتا تھی کہ اسکے کمزور بازو سے بہتے ہوئے
ننھے خون کے قطرے اپنے تر کیے ہو دوپٹے سے پونچھنے لگی اور اسے جھک کر گلے
سے لگا لیا، کچھ موتی اسکی آنکھوں میں امڈ آے۔
شام کو جب سعید گھر واپس آیا تو رقیہ کو خاموش پا کر اس سے پوچھ بیٹھا۔رقیہ
نے سارا قصہ اسکے سامنے رکھ دیا۔اس وقت تک جمیل سو چکا تھا، لیکن اس رات
سعید سو نا سکا۔کچھ خیالوں میں گم سم بیٹھا تھا، "یہ غریب بھی نا۔اپنی
آنکھوں پر نیںدوں کے قرض لیے ہوئے ہوتے ہیں" کچھ یہی معاملہ سعید کے ساتھ
بھی تھا، خیر جیسے تیسے اس نے رات گزاری اور صبح جمیل کو سکول چھوڑنے کے
لیے اپنا سائیکل نکالا۔لیکن آج منظر عجیب رنگ پیش کر رہا تھا،صبح بھی اس
طرح روشن دکھائی نا دیتی تھی، سعید اسے سکول لے جانے کی بجائے اپنے ساتھ فٹ
پاتھ پر لے گیا جہاں وہ اپنا ٹھیلہ سا لگا کر جوتے مرمت کرتا تھا۔ "جوتا
مرمت کرنے والے کو بھی جوتا ہی سمجھ لیا جاتا ہے"۔ سعید نے بڑے پیار سے
اپنے لال کا گال چومتے ہوئے کہا،" دیکھ جمیل پتر۔ ہم لوگ غریب ہیں ،بکرا
لینے کی حیثیت نہیں ہے ہماری۔تو سیٹھ کے بچوں کے پاس مت جایا کر ، وہ بڑے
لوگ ہیں، تجھے کیا ضرورت تھی ان سے جھگڑنے کی؟ دیکھ جب تو پڑھ کے بڑا صاحب
بن جائے گا نا تو ایک نہیں دو دو بکرے ذبح کرنا۔"
جمیل کا ذہن ان باتوں کو سمجھنے کے لیے کب بڑا تھا۔ اس کے سر پر تو ایک ہی
چیز سوار تھی کہ عید آرہی ھے ، ہمیں بھی بکرا لینا ھے، ابا سے دس دفعہ گلہ
کر چکا تھا کہ ابا آپ ہمیشہ کہتے ہو اِس دفع اللہ کے حکم سے ہم بھی بکرا
لیں گے، یہ اللہ کا حکم کیوں نہیں آتا؟ یہ بات سن کر ہمیشہ سعید آب دیدہ ہو
جاتا۔ خیر اس دفعہ جمیل کی ضد کچھ کم دکھائی دیتی تھی۔
اللہ اللہ کر کے عید کا دن بھی آ پہنچا۔ رقیہ ہمیشہ جمیل کو صاف کپڑے پہنا
کر تیار کرتی تھی، اِس دفعہ بھی معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔لیکن جمیل نے
نمازِعید سے واپس آتے ہی کپڑے بدل کر وہی اپنے پرانے کپڑے پہن لئے۔ اِس
دفعہ وہ کھیلنے کے لیے باہر بھی نہیں تھا جا رہا۔ آخر رقیہ نے پریشان ہو کر
معاملہ سعید سے کہہ ڈالا۔ سعید بڑے پیار سے کمرے میں جا کر جمیل کو گود میں
لیتے ہوئے کہتا ھے۔
"جمیل پتر ، کیا بات ھے؟ اتنا اداس کیوں بیٹھا ھے؟ "
جمیل کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے چھوٹے چھوٹے سرخ لبوں کو جنبش دیتے
ہوئے پوچھتا ھے،" ابا جی ، آج بھی ہمارے گھر دال ہی پکے گی؟ آپ کسی سے گوشت
مانگ لاؤ نا، میرا بہت دل کر رہا ہے گوشت کھانے کو"
جمیل کا یہ سوال سعید کے دل پر تیر کی طرح چبھ گیا۔یک دم وہ اپنے عمر سے 20
سال بڑا دکھائی دینے لگا ، بالوں کی چاندی تھی کہ دن بدن نمایاں ہوتی جاتی
تھی لیکن اس سوال پر تو پورا گھر روشن ہو گیا تھا۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سعید کے کمزور پڑتے ہوئے ہاتھ جمیل کے گال پر آ
پڑے اور اسے سینے سے بھنچتے ہوئے اس کی بوڑھی آنکھوں میں ایک سیلاب تیرنے
لگا۔ہاں وہ آج بھی دال ہی کھائیں گے، وہ آج بھی وہی کپڑے پہنیں گے جو پچھلی
بہت سی عیدوں سے پہنتے آئے تھے، وہ آج بھی اپنی عید کا جشن گھر میں رہ کر
ہی منائیں گے، سعید ہر بار کی طرح آج بھی جوتے مرمت کرنے جائے گا تا کہ شام
کے راشن کا بندوبست ہو سکے۔ آج بھی اللہ کا حکم نہیں آیا۔ یہ غریبوں کے
ساتھ معاملے کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔قربانی تو ہوتی ہے، کچھ جانوروں کی کرتے
ہیں ، کچھ اپنی خواہشوں کی ، اپنی ضرورتوں کی۔ ہمیں ان باتوں کو سمھجنا
چاہیے کہ آخر۔
"قربانی۔۔۔کس کی؟"
ہمیں چاہیے کہ ایسے لوگ جو سفید پوش ہوں، وہ لوگ جو سارا سال کسمپر سی میں
گزارا کرتے ہوں، عید کے دن ان کا خیال رکھیں، اگر انہیں اپنی خوشیوں میں
شریک ن کر سکیں تو انکی خوشی میں شریک ہو جائیں۔
"غریب کے چہرے کی چاندنی ہمیشہ دولت کی چمک دھمک کے سامنے ماند ہی پڑی ھے۔۔
عزت دولت کی ،کی جاتی ھے، شہرت دولت کی ہوتی ھے۔۔ غریب کے سامنے تو بس ایک
ہی سمندر ہوتا ھے، اس کی انا کا سمندر۔۔ جس کے دھارے میں وہ موت تک ڈبکیاں
لگاتا جاتا ھے، اور اسی دھارے میں وہ ایک دن ڈوب جاتا ھے، اور پھر ایک دن
اسی کے چہرے کی چاندنی ،اس سمندر کی گہرائیوں سے موتیوں کی صورت ابھرتی
ھے۔۔۔"
اللہ پاک سب کو آسانیاں دے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے، آمین۔ |