نائلہ بھی تیاریوں میں بھر پور حصہ لے رہی تھی ۔ تینوں مل
کر بازار جاتیں اور خوب شاپنگ کرتیں، اور پرانے دن یاد کرتیں اور خوب
ہنستیں ۔ بچپن کی یادیں ہی ایسی ہوتی ہیں بے فکرے دن ،،،،، نا دن کی خبر نا
رات کی ہوش۔ بس سارا دن شرارتوں میں گزر جاتا اور رات کو بستر پر لیٹتے ہی
نیند آ جاتی۔ پر اب بستر پر لیٹے رہنا اور تکلیف دہ یادوں کے ناگ ہی سونے
نہیں دیتے۔
وہ تینوں جب شاپنگ کر کے تھک گئیں تو ایک ریسٹورنٹ میں کچھ کھانے کے لئے رک
گئیں ، تب وہ کالج کی باتیں کر کے خوب ہنس رہی تھی ۔ حسنہ بھی انکی باتیں
سن کر مسکرائی جا رہی تھی۔
“سلمان نہیں نظر آتا آج کل ، کہاں مصروف رہتا ہے وہ ؟ “ شازمہ نے کچھ یاد
آنے پر نائلہ سے پوچھا ۔
“وہ کینڈا اپنے بابا کے پاس سیٹل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ کہہ رہا تھا اب
پاکستان میں دل نہیں لگتا ، آپ بھی ساتھ چلیں پر میں نے کہا میرا پاکستان
سے باہر دل نہیں لگتا “ نائلہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
جبکہ نائلہ اچھے سے جانتی تھی اپنے بیٹے کی یہاں سے جانے کی وجہ ، وہ وجہ
حسنہ تھی ۔ اس دن جب شازمہ نے اسے فون پر ساری بات بتائی تھی تب اس نے
سلمان کی آنکھوں میں بجھتے دیئے دیکھے تھے ۔ وہ سمجھ گئی تھی۔ ایک ماں کا
دل اسکی اولاد پر گزرنے والی ہر کہانی بیان کر دیتا ہے ۔ بچہ چاہے کتنے بھی
بڑے ہو جائیں کچھ بھی چھپا لیں پر ماں سے کچھ نہیں چھپا سکتے اسی طرح نائلہ
بھی سب سمجھ گئی تھی۔ پر خاموش رہی وہ اپنے بیٹے کو وہ خوشی نہیں دے سکتی
تھی جس پر کسی اور کا حق تھا،،،،،
اسی گہما گہمی میں شادی کا دن بھی آ ہی پہنچا ۔ دونوں کو نکاح کے بعد سٹیج
پر جب بٹھایا ، تب ہر کوئی ستائشی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ لگ بھی تو
چاند سورج کی جوڑی رہے تھے ۔ایسے کپل کبھی کبھی دیکھنے کو ملتے تھے جو
بالکل پرفیکٹ ہوتے تھے۔
سلمان شادی میں نہیں آیا تھا ۔ وہ مصروفیت کا بہانہ بنا رہا تھا نائلہ نے
بھی اسے فورس نہیں کیا تھا کیوں کہ وہ اسکے دل کی حالت اچھے سے جانتی تھی۔
شازمہ نے پوچھا تھا پر نائلہ نے بات ٹال دی کیوں کہ وہ بیٹے کی حالت کسی پر
عیاں ہونے دینا نہیں چاہتی تھی۔
کچھ رسموں کے بعد حسنہ کو اسکے کمرے میں بیٹھا دیا گیا تھا۔ نائلہ اور
شازمہ اسے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر آرام کرنے کا کہہ کر چلی گئیں۔ والی کا
کچھ پتا نہیں تھا وہ دوستوں کو پارٹی دینے کا کہہ کر گیا تھا پر سب مہمانوں
کے جانے کے بعد بھی نہیں آیا۔شازمہ نے بہت بار فون کیا مگر بے سود نمبر آف
تھا۔
حسنہ کا تھکن سے برا حال تھا اور والی کا کچھ پتا نہیں تھا وہ بہت سے خواب
آنکھوں میں لئے اسکا انتظار کر رہی تھی ، اسکی آنکھ کسی کے زور سے بولنے کی
وجہ سے کھلی ،،،،،،وہ جانے کب سے سو رہی تھی جب اس نے ٹائم دیکھا تو صبح کے
تین بج رہے تھے۔ وہ بڑی مشکل سے خود کو اوک کامدار لہنگے کو سنبھالتی
دروازے تک آئی ،،،تب اسے والی اور شازمہ کے بولنے کی آواز آ رہی تھی ۔
دونوں کسی بات پر بحث کر رہے تھے شاید اس نے بہت کوشش کی سننے کی پر اسے بس
آوازیں سنائی دے رہی تھی ،،،سمجھ کچھ نہیں آرہا تھا ۔ وہ مایوس ہو کر واپس
آگئی ۔
کچھ دیر بعد وہ واپس بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی ابھی وہ خود ٹھیک سے بیٹھ بھی
نہیں پائی تھی کہ دھڑام سے دروازہ کھلا ،،،،،۔ |