نفسِ ذکیہ - قسط۔ ١٦

کتنا خوبصورت تھا وہ ہینڈ بیگ۔۔۔برینڈڈ تھا۔۔۔گوچی کا ۔۔۔ جیسا بچپن سے فوزیہ ان رشتہ داروں کے پاس دیکھتی آئی تھی جو بیرون ملک سے آتے تھے۔ ایک اوور کوٹ بھی تھا۔۔۔ ڈارک گرین کلر کا۔۔۔ ظاہر ہے ،یورپ میں تو ذیادہ تر سردی ہی رہتی ہے نا۔۔۔ اس کے علاوہ پالوما پکاسو کا کاسمیٹکس اور باڈی ورکس کا بڑا سا سیٹ بھی تھا ۔۔۔

فوزیہ نے اس سیٹ میں سے ایک پرفیوم نکالا اور اس کا پہلا اسپرے اپنی کلائی پر کیا ۔۔۔ کیسی مسحور کن خوشبو تھی۔۔۔ بالکل ویسٹرن اسٹائیل کی۔۔۔ پاکستان کی تو ہر پرفیوم میں عطر کا ٹچ آ ہی جاتا ہے۔۔۔

’’یہ شوز تو صرف چینز کے نیچے ہی اچھے لگیں گے۔۔۔‘‘۔ فوزیہ بلیک کلر کے ڈزائنر شوز اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر سوچنے لگی۔

بچپن سے ہی ہر سال فوزیہ اور اس کے گھر والے اپنے کزنز کا بیرون ملک سے واپس آنے کا انتظار کرتے تھے۔ ان کا اسی فیصد خاندان امریکہ، انگلینڈ یا آسٹریلیاں میں ہی رہتا تھا۔ صرف چند فیملیز تھیں جو پاکستان میں رہ گئیں تھیں۔ ہر سال فوزیہ کے چچا، تایا ان کے لئے بہت سی چاکلیٹس لاتے۔۔۔ بہت سے گفٹس لاتے۔۔۔اور وہ سب چہک اٹھتے۔۔۔ کیا لہجہ تھا ان کی انگلش کا۔۔۔ کیسے نفیس ہوتے تھے ان کے بچوں کے کپڑے۔۔۔ کتنی اچھی کوالٹی کے پرفیومز لگاتے تھے وہ لوگ۔۔۔

جتنے دن وہ لوگ ان کے گھر میں رہتے ایک ہلا گلا اور رونق سی لگ جاتی۔۔۔ باتھ رومز سے لوٹے اٹھا کر ٹوائلٹ پیپرز رکھ دئیے جاتے اور منرل واٹر کی بوتلیں منگوا لی جاتیں۔۔۔
ماموں جب بھی انگلینڈ سے آتے تھے۔ ہمیشہ فوزیہ کی امی کے ہاتھ میں بہت سے پانڈز رکھ جاتے تھے۔ ان کے گھر میں ایک شیشے کے خوبصورت ڈیکوریشن پیس میں انہوں نے طرح طرح کے کوائنز اور باہر کی کرنسی اکھٹی کر رکھی تھی۔ امریکہ کی پینیز، انگلینڈ کے پینس، ڈالر ، پاؤنڈ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

’’ایک ہزار ڈالر کتنے ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ فوزیہ نے کیلکولیٹ کرنے کی کوشش کی۔ ایک لاکھ روپے جواب نکلا۔
’’اتنے پیسے بھی کوئی سلامی میں دیتا ہے؟؟؟‘‘ فوزیہ حیرت میں ڈوب گئی۔ اس کے ایک ہاتھ میں لفافہ تھا اور دوسرے میں سو سو ڈالر کے دس نوٹ۔۔۔

’’اب ان کی پوجا کرنا چھوڑو اور ہمیں پارٹی کراؤ۔۔۔‘‘۔ دھڑام سے فوزیہ کے بہن بھائیوں نے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا اور اس پر چڑھ دوڑے۔
’’چلو اٹھو۔۔۔ ایسے نہیں چھوڑیں گے ہم۔۔۔‘‘۔’’ان ڈالرز میں ہمارا بھی حصہ ہے۔۔۔‘‘۔’’ہم نے بھی بڑی خدمتیں کی ہیں چچا جان کی۔۔۔یہ اور بات ہے کہ لاٹری تمہاری نکل آئی۔۔۔‘‘ ۔’’ہاہاہا۔۔۔‘‘ سب فوزیہ پہ جملے کس رہے تھے۔

فوزیہ کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی وہ بھی ان اسی فیصد رشتہ داروں میں شامل ہو جائے گی۔ جن کا سال میں ایک بار دیدار کرنے کو سب بے قرار رہتے ہیں۔۔۔ جن کے لائف اسٹائیل کو دیکھ کر سب رشک کرتے ہیں۔۔۔ یہ تو بس ایک خواب تھا ایک حسرت تھی جو ہمیشہ ان سب رشتہ داروں کو دیکھ کر پیدا ہوتی تھی۔ مگر اب یہ حقیقت بن چکی تھی۔۔۔

فوزیہ کے چچا نے اس کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لئے مانگ لیا تھا۔ چہ مہ گوئیاں تو اس رشتے کے بارے میں چچا کے کراچی آتے ہی شروع ہو گئیں تھیں۔ مگر اب بات پکی ہو گئی تھی۔سارے گھر میں جیسے پھول کھل گئے ہوں ۔ ہر کوئی فوزیہ کی قسمت پر ناز کر رہا تھا ۔ ان کے امی ابو بہن بھائی سب پر جوش تھے۔

فوزیہ نے سارے گفٹس وہیں بیڈ پر چھوڑے ۔۔۔ ایک سو ڈالر نکالے اور تیار ہوکر سب گھر والوں کو پارٹی دینے نکل گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔

دلاور اپنے نئے گھر میں شفٹ ہو چکا تھا۔ چلو اب اسے ادھر ادھر ہوٹل بک کرنے کی ضرورت نہیں پڑنی تھی۔ مکمل پرائیویسی دستیاب تھی۔اندر کچھ بھی ہوتا رہے کسی کو نہ کوئی خبر نہ پتا۔۔۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس کمبائن فیملی سیٹ اپ سے چھٹکارا ملا۔ کیا فائدہ ایسے گھر میں رہنے کا جہاں کے رہائشی ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں۔

دلاور نے اس رات اپنے گھر میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ بہت سے لڑکے لڑکیوں کو دعوت دی گئی تھی۔ دلاور کے ہاں پارٹی ہو تو روک اینڈ رول ، الکحول، شیشہ اور مستیاں سب کچھ دستیاب ہوتا تھا ۔۔۔اس نے مجدی اور مجھے بھی فون کیا تا کہ پارٹی میں انوائٹ کر سکے۔
’’نہیں یار ایسی کسی پارٹی میں شرکت کا موڈ نہیں ہے۔۔۔‘‘ ۔’’ بس آج کل کچھ کام ذیادہ ہے۔۔۔‘‘ میں تو ان دنوں غمِ عشق کا روگ لگائے بیٹھا تھا۔ کسی پارٹی میں کیا شرکت کرتا۔۔۔ میں نے صاف الفاظ میں منع کر دیا۔

’’ہیلو! مجدی صاحب کیسے ہیں آپ۔۔۔؟؟؟‘‘ دلاور نے تیکھے لہجے میں کہا۔ میرے بعد اس نے مجدی کو فون لگایا۔
’’فٹ فاٹ تم سناؤ؟؟؟‘‘ مجدی کی طرف سے جواب آیا۔
’’زبردست۔۔۔ ‘‘۔’’ آج شام پہنچ جاؤ میری طرف۔۔۔پارٹی رکھی ہے میں نے سب دوستوں کی۔۔۔‘‘
’’اچھا!!!‘‘ مجدی ایکسائٹڈ ہو کر بولا۔
’’ہاں۔۔۔ ضرور آنا اور اس مجنو ں کو بھی ساتھ لیتے آنا۔۔۔‘‘ دلاور کو میرے اور فوزیہ کے بارے میں تو پتا تھا مگر ان دنوں میں جس کیفیت کا شکار تھا اس کا اسے کوئی اندازہ نہ تھا۔ اس نے بس یوں ہی میرا نام مجنوں رکھ دیا تھا۔
’’او کے ۔۔۔ میں اسے لیتا آؤں گا۔‘‘ مجدی نے ڈن کیا اور کال کاٹ دی۔

میں اپنے آفس میں ہی بیٹھا تھا۔ مجدی جلدی جلدی چلتا ہوا میرے پاس آیا۔
’’رات کو چل رہے ہو نا دلاور کی طرف؟؟؟‘‘ میری اداس سی صورت بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ مجدی ٹکر ٹکر مجھے دیکھنے لگا۔
’’ام م م۔۔۔ نہیں۔‘‘ میں نے مجدی کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
’’کیوں؟؟؟ کبھی کبھی تو سب مل کر بیٹھتے ہیں!!!‘‘ مجدی مجھ سے بحث کرنے لگا۔
’’بس یار ۔۔۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔‘‘ میرے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ مجدی سمجھ گیا کہ کوئی بات ہے۔ وہ میرے سامنے رکھی کرسی پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔

’’کیا ہوا ہے۔۔۔ ‘‘ ۔ ’’ اس دن بھی فوزیہ کا بیحیوئر کچھ عجیب سا تھا؟؟؟‘‘ مجدی خاموشی توڑتے ہوئے بولا۔ میں نے مجدی کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔
’’بتاؤ ذولقر۔۔۔! تمہارا پورا چہرا لال ہو رہا ہے؟؟؟‘‘ مجھ سے اپنا دکھ چھپایا نہیں جا رہا تھا۔ ’’کیا ہوا ہے؟؟؟‘‘ مجدی پھر بولا۔
’’بس یار۔۔۔‘‘ میرے منہ سے بس یہ دو الفاظ نکلے اور میں پھر چپ ہو گیا۔
’’ فوزیہ ۔۔۔ کچھ بدل بدل سی گئی ہے۔‘‘ میں نے کہنا شروع کیا۔ ’’جب سے یہ شادی والا معاملہ ہوا ہے ۔۔۔ اس نے مجھے بالکل اگنور کر دیا ہے۔ پہلے تو سارا دن ہماری بات چیت رہتی تھی۔۔۔‘‘۔’’ جیسا بیتاب میں ہوتا تھا اس سے ملنے کے لئے ، وہ بھی یوں ہی مجھے یاد کیا کرتی تھی۔۔۔ میسج کرتی تھی۔۔۔ ملنے آتی تھی۔۔۔ مگر اب کچھ دور دور سی ہو گئی ہے۔۔۔‘‘
’’ اس کی دوری نے مجھے بے چین کر دیا ہے۔‘‘ میں نے تقریباََ روتے روتے مجدی کو اپنے دل کی بات بتائی۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ مجدی بھی پریشان ہو گیا۔
’’ایسا کیا ہو گیا ہے؟؟؟‘‘ اس نے مجھ سے سوال پوچھا۔ مگر میں تو خود اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہا تھا۔
’’پتا نہیں!‘‘ میں نے مایوس سا ہو کر کہا اور ٹیبل پر اپنا سر رکھ دیا۔ مجدی حیرت میں ڈوبا ہوا میری بد حالی کا مشاہدہ کر رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

’’نہ دل دیندی بے دردی نو۔۔۔
نہ رو رو انکھیاں لاندی۔۔۔
وے کدے نہ پچھتاندی میں۔۔۔‘‘

رات ہو گئی تھی۔ دلاور کی طرف ایک بہت رومانوی اور بے خود کر دینے والا گانا چل رہا تھا۔ ایک ایک کر کے مہمان پارٹی میں شرکت کے لئے پہنچ رہے تھے۔

مجدی اپنے گھر میں کھڑا آئنے میں دیر تک اپنے آپ کو گھور گھور کر دیکھتا رہا۔ پھر آرام آرام سے اچھی طرح شیو کی۔۔۔ آفٹر شیو لگا یا اور قدرے جھومتا ہوا اپنی الماری کی طرف بڑھا۔۔۔ وائٹ شرٹ، کریم شرٹ، وائٹ شرٹ، ییلو شرٹ، گرے شرٹ۔۔۔ ایسے ہی سوبر قسم کے رنگ ہوتے تھے اس کے پاس۔۔۔ اسے کچھ پسند نہ آیا۔۔۔ اس نے ایک ہاتھ ساری شرٹس پر پھیرا اور دوسری سائیڈ پر اپنے بھائی کی الماری کھول دی۔

ایک بلیک کلر کی اسمارٹ سی شرٹ وہاں لٹک رہی تھی۔ اس نے بلیک ٹراؤزرز اور بلیک شرٹ پہنی۔۔۔ ایک سلور کلر کی چین نکال کر گلے میں ڈالی۔۔۔ پھر سر تا پیر اپنے اوپر پرفیوم کی بوچھاڑ کر دی۔۔۔

اس کے شوز پر کچھ مٹی لگی تھی۔ عموماََ وہ کسی کپڑے سے شوز جھاڑ کر چلتا بنتا تھا۔ پر اس دن وہ رکا۔۔۔ بیٹھا۔۔۔ شو ز اچھی طرح پالش کر کے پہنے۔۔۔ پھر ایک نظر اپنے آپ کو الماری پر لگے بڑے سے آئنے میں مکمل اور غور سے دیکھا۔۔۔ اور ناز کرتے ہوئے دلاور کے گھر چلا گیا۔

دلاور کی پارٹی میں ایک ہیجان انگیز انگلش گانا چل رہا تھا۔ بڑی سی ایک ایل سی ڈی اسکرین پر اس کی وڈیو بھی چل رہی تھی۔
مجدی نے دروازہ کھولا۔۔۔ اندر کافی لوگ موجود تھے۔ دلاور کی نظر مجدی پر پڑی تو وہ ٹھٹھک کر رہ گیا۔ پہلے تو اسے توقع ہی نہیں تھی کہ میرے بغیر مجدی اس کی پارٹی میں اکیلا چلا جائے گا ۔۔۔ پھر مجدی کا حلیہ، اس کا انداز، اس کی نظر، کچھ بدلی بدلی سی تھی۔۔۔

’’ہائی دلاور!‘‘ مجدی نے دروازہ سے اندر آتے ہی ہاتھ ہلا کر کہا۔
’’ہیلو فرینڈ ہاؤ آر یو۔۔۔‘‘ دلاور نے بھی مجدی کو ویلکم کیا۔
’’آئی ایم گریٹ۔۔۔تھینکس۔۔۔‘‘۔ ’’سچ آ ونڈر فل پارٹی۔۔۔‘‘ ۔ مجدی انگلش ہی بول رہا تھا۔
’’ٹیک آ ڈرنک مین۔۔۔‘‘۔ دلاور نے مجدی کو آفر کی کہ کوئی پیپسی وغیرہ لے لے۔

مجدی اٹھا اور بیچ میں ٹیبل پر رکھی بہت سی ڈرنکس میں سے وسکی کی بوٹل اٹھائی اور ایک گلاس میں انڈیل دی۔۔۔اس کے دائیں طرف ایک لڑکی وائن گلاس لبوں سے لگائے بیٹھی تھی۔۔۔اس کی شرٹ پر لکھا تھا ’’سیکس، ڈرگز، روک اینڈ رول‘‘۔
ایک صوفے پر دلاور کے کسی دوست کے ساتھ کوئی اور لڑکی بالکل چپک کر گفتگو کر رہی تھی۔۔۔ اس نے ایک چھوٹی سی ٹی شرٹ اور شارٹس پہن رکھے تھے۔۔۔
بارہ بجے کے بعد صرف خاص خاص لوگ ہی دلاور کی پارٹیز میں رہ جاتے تھے۔ کیونکہ ہر کسی کے لئے رات گئے تک وہاں رہنا مناسب نہ ہوتا ۔۔۔محفل میں رنگ آتا گیا اورر مجدی پہ نشہ چھاتا گیا۔۔۔
دلاور بھی خوب پی چکا تھا۔۔۔ وہ اٹھا اور ایک لڑکی کو بانہوں میں لے کر سلو ڈانس کرنے لگا۔۔۔ دوسری طرف ایک کپل اندھیرے میں ہو کر فرنچ کِس کر رہا تھا۔۔۔
اتنے میں ایک لڑکی جو نشے میں دھت تھی آئی اور مجدی کی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی۔۔۔
جب شراب ہو تو شباب بھی ہونا ہی تھا۔۔۔

’’تجھ سے پورا پورا بدلہ لوں گا میں۔۔۔‘‘ مجدی نے جانے کس سے کہا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی شیطان بول رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔


چند دن تک میں روتا رہا۔ انتظار کا درد سہتا رہا۔۔۔ اپنے آپ کو قابو کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر آخر کار ناکام ہی رہا۔۔۔ میری محبت تو سچی تھی۔ اس میں وہی تڑب اور بے قراری سی جو سچے عشق کی پہچان ہوتی ہے۔ ہماری ٹوٹی پھوٹی بات چیت تو فون اور میسجز پر چل ہی رہی تھی۔ اس شام ہم دونوں نے ایک ریسٹورینٹ میں ملنا تھا۔

مجھ سے تو سارا دن کوئی کام ہی نہ ہوا۔ میں نے مجدی کو کہہ دیا کہ آج میں نے فوزیہ سے ملنا ہے اور دوپہر کو ہی آفس سے نکل گیا۔ پانچ بجے ہمیں ملنا تھا۔۔۔ میں چار بجے ہی پہنچ گیا اور فوزیہ چھ بجے آئی۔

’’آئی ایم سوری!‘‘ میں نے فوزیہ سے معذرت کی۔ اسے میرا حیدر آباد آنا اچھا نہیں لگا تھا ۔ اسے میرا اسے بہت سے میسجز اور فون کالز کرنا بھی برا لگا تھا۔
’’اٹس او کے۔۔۔ ‘‘۔
’’مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنے دکھی ہو جاؤ گے میرے جانے سے۔۔۔‘‘۔ فوزیہ کی یہ بات سن کر میں عجیب انداز سے مسکرا دیا۔ شاید اپنے آپ پر ہی ہنسی آ رہی تھی۔
’’میں کہیں چلا گیا تو تمہیں تو شاید کوئی فرق نہیں پڑے گا؟‘‘ میں نے فوزیہ کے آگے ایک سوال ڈالا۔ وہ تذبذب کا شکار ہو گئی۔ دم بخود ہو کر مجھے تکنے لگی۔
’’ہم م م ؟؟‘‘ میں نے ہم م م کہہ کر اپنے سوال کا جواب طلب کیا۔
’’نہیں ۔۔۔ مجھے بھی تمہاری یاد آتی ہے۔۔۔‘‘ اس نے سرسری سا جواب دے دیا۔ اس کے الفاظ محبت کے جزبات سے مکمل عاری تھے۔
’’اچھا! تھینک یو۔۔۔‘‘ میں نے شکریہ ادا کیا کہ اسے میری یاد آتی ہے۔

’’بھجوا دو میرے گھر رشتہ۔۔۔ یقین آ جائے تمہیں کہ مجھے کتنا پیار ہے تم سے۔۔۔‘‘ فوزیہ اچانک بولی۔ میں چونک گیا۔
ابھی تک میں نے فوزیہ کے بارے میں گھر والوں سے تو کوئی بات کی ہی نہیں تھی۔
’’ہاں! رشتے تو آتے رہتے ہیں میرے۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ گھر والے کہیں بات پکی کر دیں۔۔۔ تمہیں پتا ہے کہ میں گھر والوں سے بہت ڈرتی ہوں ۔۔۔‘‘ فوزیہ نے صاف صاف اشارہ دے دیا کہ اگر کہیں بھی اس کے گھر والوں نے رشتہ طے کر دیا تو وہ کسی قسم کی مذاہمت نہیں کرے گی۔
’’تم شادی کے لئے تیار ہو؟؟؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں! ظاہر ہے۔۔۔ تمہارے علاوہ میں کس سے شادی کروں گی؟؟؟‘‘ بہت انہونی سی لگ رہیں تھیں مجھے فوزیہ کی یہ باتیں۔
پچھلے بیس دن سے اتنی بد سلوکی کے بعد اس دن وہ اچانک شادی کی بات کرنے لگی تھی۔

میں نے فوراََ فیصلہ کر لیا کہ اسی دن گھر جا کر امی سے رشتے کی بات کروں گا۔

۔۔۔۔۔۔۔

’’جلد امیر ہونے کے آسان طریقے۔‘‘
مجدی نے گوگل پر ٹائپ کیا اور سرچ رزلٹز دیکھنے لگا۔

سب سے پہلا رزلٹ تھا کہ کوئی بزنس سیٹ اپ کیا جائے۔ اسے تو پڑھتے ہی مجدی کو ہنسی آ گئی کیونکہ جو شخص بزنس سیٹ کر سکتا ہے وہ تو پہلے سے ہی امیر ہو گا۔
دوسری لائن پہ لکھا تھا کہ رئیل اسٹیٹ میں انویسمنٹ کر لی جائے۔ یہ بھی تقریباََ وہی بات تھی۔ اگر مجدی کے پاس لاکھوں کے پلاٹ خریدنے کے لئے پیسے ہوتے تو شاید وہ گوگل پہ بیٹھا یہ سرچ نہ کر رہا ہوتا۔
پھر لکھا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگایا جائے۔ گھوم پھر کے بات وہیں کی وہیں آ گئی۔۔۔ اول تو مجدی کو اسٹاک ایکسچینج کی الف بے بھی نہیں معلوم تھی۔ اس کا کبھی ان چیزوں سے پالا ہی نہیں پڑا تھا۔یہ تو امیروں کے شوق ہوتے ہیں۔ دوم، اس کے پاس کہاں اتنی رقم تھی کہ اسٹاک ایکسچینج میں پیسے لگائے اور نقصان کا رسک بھی برداشت کرے۔
کوئی نئی شے ڈیزائن کی جائے۔۔۔ مجدی نے منہ بنا کر اگلی لائن پڑھی۔۔۔
پراپرٹی رینٹ پر دے دی جائے۔۔۔ ’’کون سی پراپرٹی!!‘‘ مجدی نے خود سے کہا۔ ان کے پاس تو ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ جہاں بہت سارے افراد رہتے تھے۔
’’کوئی وائرل وڈیو بنائی جائے۔‘‘ یہ الفاظ پڑھ کر مجدی کی کسی سوچ میں پڑ گیا۔ ’’کیا مطلب اس کا۔۔۔ ؟؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا اور اس لنک پر کلک کر دیا۔

بہت سی عجیب و غریب اور منفرد قسم کی ڈیوز اس کے سامنے آ گئیں۔ کسی گانے کی مضحکہ خیز پیروڈی، سومالیہ کے قحط ذدہ افراد پر بنی ڈاکومینٹری،کسی کی بہت مزاحیہ ایکٹنگ، طاہر شاہ کا آئی ٹو آئی گانا، قندیل بلوچ کا ڈانس اور بہت سی فحش قسم کی وڑیوز وغیرہ۔

مجدی ان ویڈیوز پر کلک کرتا کرتا جانے کہاں سے کہاں نکل گیا۔ ذہن میں بس یہی تھا کہ کسی طرح پیسہ کمانے کا کوئی آسان نسخہ ہاتھ آ جائے۔ چاہے اس کے لئے اسے کچھ بھی کرنا پڑے اور کسی بھی حد تک جانا پڑے ، وہ تیار تھا۔۔۔ اسے کسی بات کا خوف نہ تھا۔

آخرکار اس نے کچھ ویب سائٹس کے کانٹیک پیج پر جا کے انہیں ای میل کی اور کچھ یوں لکھا۔

’’ہیلو سر!
میں جلد از جلد اور آسانی سے پیسہ کمانا چاہتا ہوں اور اس کے لئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔
آپ کے جواب کا منتظر۔
مجدی‘‘

۔۔۔۔۔۔۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78558 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More