اللہ رب العا لمین نے اس دنیا میں زند گی گزار نے کیلئے
جوا سباب ووسائل عطا کئے ہیں ، ان کے تعلق سے یہ ہدایت نہیں دی ہے کہ ان کے
استعمال میں افراط وتفریط سے پر ہیز کیا جائے۔ اسی افراط کو فضو ل خرچی یا
اسراف وتبذیر کہا جا تا ہے اور تفریط کو بخل یا تقتیر کا نام دہا جا تا ہے۔
فر ما نِ الہٰی ہے : جو خرچ کر تے ہیں تو نہ فضول خرچی کر تے ہیں نہ بخل ،بلکہ
ان کا خر چ دونوں انتہاوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ (الفرقان :۶۷)
در حقیقت فضول خر چی ،اللہ کی ناشکری اور نعمت کی ناقدری ہے ،کیوں کہ اپنے
مال واسباب کو اِدھر ادھر بے دردی کے ساتھ اپڑانے والا انسان ، اللہ کی
مرضی کو فراموش کر کے اپنے نفس امارہ کا غلام بنا ہو تا ہے۔اللہ تعالیٰ
فرماتاہے :فضول خرچی نہ کرو، فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور
شیطان اپنے رب کا نا شکرا ہے۔(بنی اسرائیل :۲۷۲۶) فضول خرچی کی مختلف شکلیں
اور مظاہر ہیں۔ایک غیر محتاط انسان مختلف طریقوں اور مختلف موقعوں پر اس
بری عادت اور مذموم عمل کو دہرا تا ر ہتا ہے ، جن میں خاص طورسے کھا نے
پینے ،پہننے اوڑھنے ،خوشی منا نے اور مختلف مذہبی وسماجی تقریبات شامل
ہیں۔اکل وشرب کے تعلق سے قرآنی آیت بڑے واضح اور صریح الفاظ میں اہلِ ایمان
کو مخاطب کر تی ہے :اور کھاﺅ پیو اور حدسے تجاوز نہ کرو ، اللہ حد سے بڑھنے
والوں کو پسند نہیں کرتا۔(اعراف:۳۱) دیکھئے کس قدر مختصر اور دوٹوک انداز
میں اسراف کی مما نعت کو اکل و شرب سے جوڑاگیا ہے۔ حضرت مقدام بن معدی کر
بروایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ما تے ہوئے
سناہے کہ ٓادمی پیٹ سے زیادہ برے کسی برتن کو نہیں بھرتا۔ انسان کے لئے چند
لقمہ ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں۔البتہ آدمی اگر بضد ہے تو
ایک تہا ئی حصے میں کھا نا کھا ئے ،ایک تہائی حصے میں پانی پئے ،اور ایک
تہائی حصہ سانس لینے کے لئے باقی رکھے۔ (احمد ،ترمذی،ابن ماجہ) کھانے پہنے
میں اسراف اور بے احتیاطی کے جودینی اور روحانی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ پر
، ساتھ ہی اس کے متعدد جسمانی اور طبی نقصانات بجی ہیں۔ پھر جو سماجی
بائیاں اس سے جنم لیتی ہیں وہ الگ ہیں۔ اکل وشرب میں اسراف جیک سماجی فیشن
بن چکا ہے ،جو گھن کی طرح معاشرے کو چاٹ رہا ہے۔ پانچ آد می کو کھا نے یا
کھلانے کے لئے 52آدمیوں کا کھانا بنا یایا خرید ا جا تا ہے اور انواع
واقسام اتنے کہ سب میں سے اگر صرف ایک ایک لقمہ بھی لیا جائے تو معدہ اس کی
تاب نہ لا سکے۔ اس کےبعد بچا ہوا کھانا کو ڑے دان کی نذر ہوتا ہے۔
تقریبات:
شادی بیاہ کے مواقع پر بھی اکثر لوگ اسراف و تہذیر کا خوب خوب مظاہرہ کر تے
ہیں۔فضول رسموں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہوتاہے جس میں پانی کی طرح پیسہ بہا
یا جا تا ہے۔ان لا یعنی رسمو ں میں سے کسی ایک کو بھی تر ک کرنا گویا جرم
تصور کیا جاتاہے، حتیٰ کہ مالی اعتبار سے کمزور لوگ بھی اس معاملے میں
پےچھے نہیں رہتے۔ قرض لے کر اور بسااوقات امداد لے کر ہی سہی ایک ایک کر کے
ان لوازمات کو فخر سے پوراکر تے ہیں۔ہماری شریعت میں تو شادی اور نکاح کے
عمل کو بہت آسان اور سادہ بنایا گیا تھا اور بے تکلفی اور سادگی سے شادی
بیاہ کے مراسم انجام دینے کی ترگیب دی گئی تھی۔ آسانی اور سادگی سے انجام
پانے والی شادی کو خیروبرکت والی شادی گردانا گیا تھا، مگر ان تمام ہدایات
کو نظر انداز کر کے ہم نے دنیا بھر کے جھمیلے پال لئے اور اپنی بر بادی کا
گو یا خود اپنے ہاتھوں انتظام کر لیا۔ فضول خرچی کا ایک مظہر منگنی کی تقر
یبات بھی ہیں، جن کا زور روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے حتیٰ کہ بعض لوگ اس کا
اس اسراف کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں کہ اس میں خرچ ہونے والے سر مائے سے ایک
درمیانہ نوعیت کی شادی کا انتظام ہوسکتاہے۔
لباس:
اکل وشرب کے لو ازمات کی طرح اللہ جل شانہ نے انسان کو پہننے ،اوڑھنے کے
سامان بھی مہیا کیے ہیں، البتہ یہاں بھی کفایت شعاری کی تعلیم دی گئی ہے۔
چنانچہ عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی روایت میں بہ سند حسن مروی ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھا ﺅ ،صدقہ کرو اور لباس استعمال
کرو، لیکن اسراف اور غرور وگھمنڈ نہیں ہوناچاہئے۔ (نسائی وابن ماجہ )لباس
ہی تک معاملہ محدود نہیں ہے۔ انسان کو اپنی پوری زندگی میں تفاخر اور عیش
پر ستی سے بھی پر ہیز کرنا چاہئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت
معاذبن جبل کو یمن بھیجا تو انھیں نصیحت فر ما ئی : عیش و عشرت سے بچو ،
اللہ کے بندے عیش و عشرت والے نہیں ہوا کرتے۔ (احمد) اب ہمیں اپنے آپ کو
اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھنا چا ہئے کہ کہیں ہم لباس وپوشاک کے
معاملے میں مسرفانہ جاہ وجلال کے طلب گار تو نہیں ،کہیں ایسا تو نہیں کہ دو
تین واجبی جو ڑوں کے بجائے درجن بھر یا اس سے بھی دوچار ہو تے ہیں ، اتنے
گراں اور بیش قیمت کپڑوں کے ان گنت جو ڑے کہ جن میں سے ایک کی قیمت سے کئی
کئی انسانوں کی ستر پوشی کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے کپڑوں
اور جوڑوں کی لائن تو نہیں لگی ہے؟
رہائش:
اسی طرح گھر اور مکان کی تعمیر اور ان کے لوازمات کی فراہمی میں بھی بعض
لوگ پانی کی طرح پیسہ بہا تے ہیں ،رہائش ضرورت سے کئی گنا بڑامکان بنانا،
بلاضرورت متعددمکان تعمیرکرانا ، ان کی آرائش وزیبائش ، فرنیچر اور دیگر
لوازمات پر بے در یغ خرچ کرنا، نگاہوں کو چکاچوند کرنے والی کائیں اور برقی
قمقمے لگوانا وغیرہ وغیرہ ، کیا یہ اساف ، عیش پرستی اور فخرو غرور میں
داخل نہیں ؟گھر اور مکان تو بنیادی طور پر انسان کو سر چھپانے کیلئے ،سردی
گرمی سے حفاظت کے لئے اور مال واسباب کے تحفظ کے لئے ہوتا ہے۔ جس نوعیت کی
تعمیر سے یہ مقاصد پورے ہو جائیں ، اسی پر اکتفا کرنا چاہئے اور تکلف ،
تصنع یا شہرت اور نام ونمود کا قصد ہر گز نہ ہو نا چاہئے ،کیوں کہ ہم جیسے
انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس سرزمین پر ایسی بھی بستی ہے جس کے پاس چند
گززمین یا معمولی تر ین جھو پڑا بھی اپنا اور اپنے بال بچوں کا سر چھپانے
کے لئے میسر نہیں ہے۔
پانی:
پانی کے مسرفانہ استعمال کو شاید لوگ فضول خرچی نہیں تصور کرتے ہیں کیوں کہ
عموماً پانی مفت میں دستیاب ہوتا ہے، حالانکہ پانی اللہ کی عظیم نعمت ہے۔
اور مخلوقات کی زندگی کا دارومدار اسی پانی پر ہے جیسا کہ خالق دو عالم نے
فرمایا:”اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔“(الانبیائ:۳)
لیکن ہم نے اتنا پانی برباد کیا اور کررہے ہیں کہ آج جگہ جگہ پانی کے مسائل
کھڑے ہورہے ہیں، ہینڈ پمپ، کنوئیں، تالاب اور ندیاں سوکھ رہی ہیں۔ زیر زمین
پانی کی سطح روز بہ روز نیچی ہوتی جارہی ہے۔ زمین سے پانی نکالنے والی
مشینیں اور موٹریں فیل ہوتی دکھائی دے رہی ہیں لیکن پھر بھی ہم محتاط ہوتے
نظر نہیں آتے۔
دولت:
یہ بات کسی پر مخفی نہ ہوگی کہ دنیا کہ اکثر حصوں میں عوام کی اکثریت غربت
اور فاقہ کشی کا شکار ہے۔ غذا، علاج، بنیادی تعلیم او رڈھیر سارے مسائل اس
کے سامنے ہیں۔ جن کے لئے وہ پائی پائی کو ترستی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق
دنیا میں ایک اعشاریہ92 بلین افراد غریب ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے کی000
2کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی تمام دولت کا 40فیصد حصہ صرف ایک فیصد امیر
ترین لوگوں کے قبضہ میں ہے اور دنیا کے10 فیصد امیر افراد 58 فیصد دولت پر
قابض ہیں۔ دنیا کی نصف آبادی دنیا کے 99فیصد دولت کی مالک ہے، جب کہ دنیا
کی بقیہ نصف آبادی صرف ایک فیصد دولت پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔
دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم معاشرے پر کتنا برا اثر چھوڑتی ہوگی، اس کا
اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ایک طرف اربوں اور کھربوں میں کھیلنے والوں کے
شاہانہ ٹھاٹھ باٹ اور اسراف و تبذیر و الی زندگی ہے تو دوسری طرف پائی پائی
کو ترسنے والے نان شبینہ کے محتاج عوام ہیں۔
ہمارے دین نے ہمیشہ مال داروں اور آسودہ حال لوگوں کو کمزوروں اور غریبوں
پر خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اس سے آگے بڑھ کر ایثار و
قربانی کے جذبے کو فروغ دیا ہے۔ مال ودولت کی کمائی اور خرچ دونوں کے تعلق
سے اس کی ذمہ داری طے کی ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن جن چار پانچ سوالوں کا
جواب دئیے بغیر کوئی بندہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکے گا، ان میں ایک سوال مال
کے تعلق سے ہوگاکہ ”یعنی مال کمایا کہاں سے اور خرچ کہا کیا؟ آمد و خرچ
دونوں کا حساب دینا ضروری ہوگا۔“(ترمذی)
ایک حدیث میں مال کو ضائع کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا گیا:”اللہ تعالیٰ یا
وہ کوئی، زیادہ سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو ناپسند فرماتا ہے۔“(مسلم)
ایک سلیم الفطرت مسلمان کو چاہئے کہ اللہ کے عطا کردہ مال و دولت کو احتیاط
اور کفایت شعاری سے خرچ کرے، کھانے پینے ،اوڑھنے، رہنے سہنے اور دیگر تمام
شعبہ ہائے زندگی میں اعتدال و میانہ روی کا مظاہرہ کرے، بے جا رسومات اور
غیر ضروری تکلفات میں پڑ کر خود کو او راپنے سماج کو تباہی کے راستے پر نہ
لے جائے۔ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس میں غریبوں،
مسکینوں او رحاجت مندوں کا حق تسلیم کرے اور ان تک برضا و رغبت اسے
پہونچائے۔ یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے اور انسانی و اخلاقی ذمہ داری بھی۔ اگر
ایسا نہ کیا گیا اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو پا کر فسق و فجور اور اسراف
و تبذیر کے راستے پر چلنے لگے تو سابقہ قوموں اور سرمایہ داروں کا انجام
سامنے رکھنا ہوگا:
”جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو
حکم دیتے ہیں اور وہ اس میںکھلی نافرمانیاں کرنے لگتے ہیںتب عذاب کا فیصلہ
اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور اسے برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔“(بنی
اسرائیل:۱۶)
اللہ رب العالمین ہمیں ہر طرح کے برے انجام سے بچائے، اپنی نعمتوں کی حفاظت
کرنے اور ان کی قدر کرنے کی توفیق بخشے، اسراف و تبذیر جیسے شیطانی عمل سے
بچا کر انفاق و ایثار کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
|