ہمارے معاشرے میں مذہب کو اپنی ضرورت کے تحت اپنایا جاتا
ہے۔جس کو جتنی ضرورت ہو وہ اسی حد تک اس کو جانتا ہے۔اگر کوئی اللہ کا بندہ
بتائے ،لوگ اسی کے گلے پڑ جاتے ہیں۔کہ آ یا بڑا مولوی،اپنا تو پتا نہیں
سمجھاتا ہے۔میری بہن کی شادی ہونے والی ہے،اللہ اس کے نصیب اچھے کرے(امین)۔
وہ کچھ جہیز کا سامان لے کر آئی ، تو میں نے اس سے کہا، تمہیں پتا ہے اسلام
میں جہیز کا کوٰئی تصور نہیں ہے۔ جہیز کا تصور تو یہود میں تھا۔اس کے بعد
ہندووٴں میں چلا،اس نے کہا ، تم ٹھیک کہتی ہو، یہ سب ہندووٴں کی رسمیں ہیں،
وہ پاکستان میں اتنے سال رہے، اور ان رسموں کو چھوڑ گئے،میں نے کہا لوگوں
نے جہیز دے دے کر اس کو جائز بنا دیا ہے،اور حق مہر لوگوں کو دیتے ہوئے اور
مانگتے ہوے شرم آتی ہے،بیٹی والے اس لیے نہیں مانگتے،کہ اس سے ہماری بیٹی
کا گھر خراب ہو گا، اور لڑکے والے شکر کرتے ہیں کچھ دینا ہی نہ پڑے،حالانکہ
قرآن کا پورا دوسرا سیپارہ، حق مہر کے بارے میں ہی ہے،اور اگر ھم تاریخ
اسلام پڑھے ، تو تمام صحابہ کرام نے اپنی بیویوں کو حق مہر دیں، ہمارے رسولﷺ
نے جب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرت علی رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ سے کی تو آپﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
’’ علی حق مہر کا انتظام کرو‘‘
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا، میرے پاس تودینے کو کچھ نہیں ہے، تو
آپﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: علی تمہارے زرا ہے اس کو بیچ
دو۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس زرا کوبیچ دیا اور چار سو درہم اللہ
کے رسولﷺ کو لا کردیے، آپﷺ نے دو سو درہم کا گھر کا سامان خریدہ اور دو
سودرہم حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیے کہ وہ حق مہر حضرت فاطمہؓ کو
دیے،چونکہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چار سو درہم دیے تھے تو آپ کے
نکاح نا مہ پر چار سو درہم ہی لکھے گئے۔
اسلام میں تحفے کا تصورضرور ہے والدین اپنی بیٹی کو تحفے کے طور پر کچھ
دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔پر اتنا ہی دو جتنا آسانی سے دے سکتے ہو، کیونکہ
فضول خرچ شیطان کا دوست ہے،حق مہر نہ لکھوانے سے تو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں
پر لکھوا لو تو فائدہ ہی ہوگا کیونکہ اللہ کے کہے گئے ہر کام میں کوئی نہ
کوئی حکمت ہے،حق مہر ضرور لکھواو، بلکہ اس کو لازم کرلو، اور جہیز کو کم سے
کم کرو۔ |