مرد اور مردانگی

’’ مردانگی برائے فروخت ‘‘لکھنے کے بعد بعض دوستوں نے استفسار کیا کہ ’’مرد کون ہے اور مردانگی کیا ہے؟ ‘‘

اور جب اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس پر تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ رسولِ کریم ﷺ کی ایک ایک ادا میں مردانگی نمایا ہے‘ صحابہ کرامؓ کی سیرت مردانگی سے تعبیر ہے‘ امت کے ہر مایہ ناز شخصیت کی زندگی کا سب سے قیمتی جوہر مردانگی ہی رہا ہے اور علامہ اقبال رح کا مرد مومن بھی بھرپور مردانگی کا مظاہرہ کرنے والا ہے۔

لیکن آج اکثر مسلمان مرد اور مردانگی کے اسلامی تعریف اور اوصاف سے لا علم ہیں۔

اسلام میں اچھے کردار و عمل اورعمدہ اخلاق و عادات کا مالک شخص ہی صحیح اور حقیقی’ مرد ‘ ہے اور مردانگی مردوں سے متعلق تمام اعلٰی اوصاف مثلاً صحیح رائے‘ پاکیزہ کلام‘ مروت‘ شجاعت‘ وقار‘ تعاون اور باہمی ہمدردی و غم خواری وغیرہ کے مجموعے کا نام ہے۔

جبکہ عام مسلمانوں میں آج بھی مردانگی کا جاہلانہ تصور ہی قائم ہے یعنی جو بظاہر خوبصورت‘ لمبا چوڑا اور تمام قویٰ میں کامل اور ظاہری حسن و جمال کا مالک ہو‘ وہ اچھا آدمی یا مرد ہے حالانکہ مردوں کے جسموں کی ضخامت اور حسن و جمال مردانگی کا پیمانہ نہیں۔

مردانگی زنانگی کی ضد ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج مسلمان نوجوان فطرت اور اسلام سے انحراف کرکے رسوا کن نسوانی انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ جبکہ اسلامی آداب مکمل مردانگی سکھلاتے ہیں جس میں نسوانی حرکات و مشابہات کا شائبہ بھی نہ ہو۔

مغرب کی تقلید میں ناچنے گانے والوں کو آئیڈیل سمجھنے والے مسلم نوجوان چہرے مہرے‘ وضع قطع‘ لباس اور زیب و زینت میں نسوانیت سجائے‘ گلے و ہاتھ میں پٹے یا چین اور کان میں بالی ڈالے‘ لمبے لمبے بال رکھے‘ نزاکت بھری چال ڈھال اور رقاصاؤں کی طرح رقص کرنے اور تھرکنے میں عورتوں سے بھی آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی کو مردانگی سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ یہ تمام حرکات فطرتِ انسانی سے بغاوت‘ اخلاقی گراوٹ اور برائی کی جڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے

’’عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ‘‘۔(صحیح بخاری ۔۵۵۴۶)

سیکولر میڈیا کی فحاشی‘ بے حیائی اور فطرتِ انسانی کو مسخ کرنے کی یلغار نےانسانی اذہان سے مردانگی کے خصائص و اوصاف کو اِس طرح محو کر دیا ہے کہ آج مسلمانوں کو ہی معلوم نہیں کہ مرد کیا ہوتا ہے اور مردانگی کسے کہتے ہیں؟

کیا یہ مردانگی ہے کہ اپنی طاقت صرف عورتوں پر آزمائی جائے؟
کیا یہ مردانگی ہے کہ اپنی جوانی کو شہوت پرستی کی نذر کی جائے؟
کیا یہ مردانگی ہے کہ نشے اور رقص و سرور میں غرق رہا جائے؟
کیا یہ مردانگی ہے کہ معاشرے میں فحاشی و بے حیائی پھیلائی جائے؟
کیا یہ مردانگی ہے کہ جھوٹ‘ فریب‘ مکر و چالبازی کی سیاست کی جائےَ؟
کیا یہ مردانگی ہے کہ ہر کمزور پر ظلم کیا جائے اور ہر طاقتور کو خدا سمجھا جائے؟

یہ مردانگی نہیں بلکہ جہالت ہے اور ایسے لوگ مرد نہیں بلکہ مرد کے بھیس میں کچھ اور ہی ہیں۔

کیونکہ بقولِ علامہ اقبال ؒ
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار​
عربی میں مرد کو ’ رجل‘ کہتے ہیں۔ آیاتِ قرآنی میں ’ر۔ج۔ل‘ مادے پر مشتمل کلمات سے ’’ مرد اور مردانگی ‘‘ کے جو معانی و مفاہیم اور خصوصیات بیان ہوئے ہیں ‘ وہ درج ذیل ہیں:

(1) مرد کو قول و قرار کا سچا‘ وعدہ وفا کرنے والا اور ثابت قدم رہنے والا ہوتا ہے:

مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّ۔هَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ﴿ سورة الأحزاب : ٢٣ )
’’ مومنوں میں سے کچھ ’ مرد ‘ ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کر دکھایا ہے‘ ان میں بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی ‘‘​
(2) مرد وہ ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت الله کے ذکر اور نماز و زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی:

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّ۔هِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ (سورة النور: ٣٧ ﴾
’’ مرد وہ ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت الله کے ذکر اور نماز و زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی ‘‘​
(3) رب کائنات نے نبوت و رسالت کی عظیم ترین ذمہ داریوں کا اہل مردوں کو ہی بنایا:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ ...( سورة يوسف ۱۰۹)
’’ اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ’ مرد ‘ ہی تھے جن کی طرف ہم نے وحی بھیجی۔‘‘​
(4) مردانگی توحید کے دفاع اور اللہ کیلئے نصیحت و خیر خواہی کی ذمہ داری اٹھانے پر آمادہ کرتی ہے:

وَجَاءَ رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ ﴿القصص:۲۰﴾
’’ اور شہر کے کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا‘ اس نے کہا: اے موسٰی! سردار آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) نکل جائیں بیشک میں آپ کے خیر خواہوں میں سے ہوں۔‘‘​
(5) مردانگی دشمن کو حکمت و دانائی اورجرأت و بیباکی کے ساتھ حق پہچانے اور مخالفاتِ شرعیہ سے روکنے اور حق پر قائم لوگوں کی مدد و نصرت کرنے کا نام ہے:

وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّ۔هُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّ۔هَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ﴿ المؤمن : ۲۸﴾
’’ اور فرعون کی قووم کا ایک مردِ مومن نے کہا جو دل میں اپنا ایمان چھپائے ہوئےتھا: کیا تم ایک آدمی کو صرف اس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے؟ حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس بیّنات (معجزات) لے کر آیا ہے ‘ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہے تو جس (عذاب) کی وہ تمہیں دھمکی دیتا ہے وہ تمہیں پہنچ کر رہے گا۔ بیشک اللہ زیادتی کرنے اور جھوٹ بولنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘​
لہذا معلوم ہوا کہ مردانگی اعلٰی اوصاف کا مجموعہ ہے جو اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں کا خاصّہ ہے جس کی بلندی سے انبیاء علیہم السلام اور ان کے اصحاب سرفراز ہوتے ہیں ۔

قرآنِ مجید میں غوروفکر اور تدبّر و تفکّر کے بغیر مردانگی کو سمجھنا اور اتباعِ قرآن کے بغیر مردانگی کے اوصاف سے متصف ہونا ممکن نہیں‘ جیسا کہ علامہ ؒ کامشہور شعر میں واضح ہے:

قرآں میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار!​

نبی اکرم ﷺ مردانگی کے معراج پر تھے اور مردانگی کے اوصاف سے مزین ایک مرد کے انتظار میں تھے جو آپ ﷺ کا معاون و مددگار بن کر دعوتِ حق کی نشر و اشاعت اور اسلام کی عزت و سربلندی کا باعث بنے اور اس کو طلب کرتے ہوئے آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی:

’’ اے اللہ! ان دو مردوں میں سے جو تجھے زیادہ پیارا ہے اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما: ابوجہل یا عمر بن الخطاب سے‘‘۔( مسند احمد ۔ جلد سوم ۔ حدیث 1222)

اللہ سبحانہ و تعالٰی نے دعا قبول فرمائی اور سیدنا عمرؓ اسلام قبول کرکے اسلام کے سب سے بڑے خیر خواہ بن گئے اور تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ پہلے مسلمان کھل کر اسلام کا اظہار نہیں کرپاتے تھے مگر جب سیدنا عمرؓ مسلمان ہوگئے تو مسلمان سرِ عام اسلام کا اطہار کرنے لگے‘ حتی کہ سیدنا ابن مسعودؓ فرماتے ہیں:

’’ جب سے عمرؓ مسلمان ہوئے ہیں تب سے ہم معزز و مکرم ہوگئے ہیں۔‘‘ (طبراني في المعجم الکبير، 9 / 165، الحديث رقم: 8820 )​
سیدنا عمر فاروقؓ کی مردانگی ان کی جسمانی قوت یا گھوڑ سواری میں مہارت جیسی صفات کی وجہ سے نہیں تھی کیونکہ ان صفات میں کئی قریشی ان سے بڑھے ہوئے تھے۔ آپؓکی مردانگی کا راز آپؓ کی قوتِ ایمانی اور عظیم شخصیت میں پوشیدہ تھاجو آپؓ کی عزت و وقار اور رعب و دبدبے کا باعث تھا۔

صحابہ کرامؓ نے چھپ چھپا کر ہجرت کی لیکن سیدنا عمر فاروقؓ نے گلے میں تلوار لٹکائی اور کعبہ شریف پہنچ کر طواف ونماز سے فارغ ہو کر پوری قوم کے سامنے بر سرعام اپنی ہجرت کا اعلان کرتے ہوئے کہا:

’’ جو کوئی چاہتا ہے کہ اسے اس کی ماں اسے گم پائے‘ جو چاہے کہ اس کے بچے یتیم ہوں اور جو چاہے کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے‘ وہ اس وادی کے پار میرے مقابلے کیلئے نکل آئے۔‘‘(اسدالغابة لابن الاثیر: ص:۸۱۹)

حضرت عمرؓ کی ان باتوں سے کفار مکہ پر لرزہ طاری ہو گیا اور لیکن کسی کو انہیں روکنے کی جرأت نہ ہوسکی۔

دبدبے سے جن کے جھکتے تھے سرافرازوں کے سر
جنکا لوہا مانتے ہیں حکمران بحر و بر​

حضرت عمرؓ خود بھی مردانگی کے جوہر سے مالامال تھے اور لوگوں میں مردانگی سکھانے کا پروگرام بھی وضع کرتے رہتے تھے۔ایک دفع فرمایا:

’’ اپنے بچوں کو تیر اندازی‘ تیراکی اور گھوڑ سواری سکھلاؤ اور انہیں اچھے اشعار سنایا کرو۔ ‘‘ (مصنف عبدالرزاق (۹/۱۹)
اسی طرح آپؓ نے مریل چال چلتے ہوئے نوجوان کو سرزنش کی اور فرمایا: ’’سر اٹھا کر چل، اسلام مریض نہیں‘‘​
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اپنی جھوٹی مردانگی دکھانے کیلئے متکبرانہ چال ڈھال اوراندازِ گفتگو اپنایا جائے بلکہ مردانگی نام ہے معتدل اور متوازن چال ڈھال اور رویّے کا جس میں انتہائی کمزوری کا اظہار بھی نہ ہو :

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّ۔هَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿١٨﴾ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ (لقمان:19)
’’اور لوگوں سے( تکبر میں) اپنامنھ نہ پھیر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، بیشک اﷲکسی متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو پسند نہیں کرتا ‘ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے ‘‘ ۔​

حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے: ’’ میں لوگوں کیلئے نرم خو ہوں‘ یہاں تک کہ اس نرمی میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ پھر سخت گیر بھی ہوں اور اس سختی میں بھی اللہ سے ڈرتا ہوں۔ اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے زیادہ اپنے دل میں خوف اور خشیت رکھتا ہوں‘‘۔ (حکمراں صحابہؓ: حضرت عمر بن خطابؓ صفحہ ۱۵۲ از محمود احمد غضنفر)

مردانگی یہی ہے۔ مردانگی متوازن و معتدل کردار کا نام ہےجو اطیع اللہ اور اطیع الرسولﷺ سے نکھر کر بلندی پر پہنچتا ہے۔

نہ صرف حضرت عمر فارقؓ بلکہ تمام صحابہ کرامؓ میں مردانگی بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔

کیونکہ صاحب خلق عظیم ﷺ مکارم اخلاق کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اوصافِ مردانگی کو بھی پروان چڑھا گئے جس سے صحابہ کرامؓ سرفراز ہوئے اور ساری دنیا میں مردانگی کے جوہر دکھائے۔ وقت کے سپر پاور قیصر و کسریٰ کو نیست و نابود کرکے بحر و بر میں فتوحات کے جھنڈے گاڑھے:

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی ​

جب مرد کے دل و دماغ اور جسم و روح کتاب و سنت کی حکومت قائم ہوتی ہے تو اس میں مردانگی اپنی بلندی کو پہنچتی ہے اور اس بے مایہ انسان میں وہ قوت رونما ہوتی ہے جس سے جہاں بینی و جہاں بانی کے جوہر کھلتے ہیں اور یہی لوگ علم و دانش اور تہذیب و ثقافت کے جلوے بکھیرتے ہیں۔

آج باہمت مسلمان نوجوانوں کو مردانگی کے ان ہی اوصاف سے آراستہ ہونے کی ضرورت ہے جواطیع اللہ و اطیع الرسولﷺ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت اپنا کر ممکن ہے۔جو لوگ اسے پالیں گے وہ دنیا وآخرت رفعت و بلندی سے سرفراز ہونگے۔

دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لا تذر میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے ​

جو مردانگی کے بجائے زنانگی اپناتے ہیں وہ مرد نہیں بلکہ مرد کا لباوہ اوڑھے کچھ اور ہی ہیں۔ ایسے بے غیرت مرد ہر عورت پر صرف شہوت کی نظر ڈالتے ہیں‘ یہاں تک کہ اپنی ماں‘ بہن‘ بیوی‘ بیٹی ‘ بہو یا کسی بھی نسوانی رشتے کے محافظ بننے کے بجائے غاصب بن جاتے ہیں۔لہذا گھر برباد ہوتے ہیں‘ معاشرے بگڑ جاتے ہیں‘ امت کمزور پڑ جاتی ہے اور مردوں کی حاکمیت و قوّامیت ختم ہوجاتی ہے:

لرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّ۔هُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ…(سورة النساء : ۳۴)
’’ مرد عورتوں پر قوّام ہیں اس لئے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے‘‘​
جبکہ مردانگی تو یہ بھی ہے کہ مرد عورتوں پر قوّام‘ ہو یعنی عورتوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والا‘ نگرانی و خبر گیری اور خیر خواہی کرنے والا‘ کفالت کرنے اور خرچ اٹھانے والا‘ گھر کا حاکم و منتظم ہو۔

لیکن افسوس کہ آج اکثر مسلمان مرد ’ قوّام‘ بننے کے لائق نہیں۔

بڑے بڑے جسم رکھنے کے باوجود قولِ حق اور حکمت سے عاری زبان اور عقل سقیم کے مالک ‘نفسانی خو اہشات کے غلام ‘ دنیوی لذتوں کے دلدادہ ‘ انسانیت کے بلند مقاصد سے دستبردار اور اپنے خالق سے منھ موڑ لینے والے‘ مرد نہیں بلکہ مردوں کا بھیس بنائے انسانیت کی تذلیل کرنے والے ہیں۔

مرد تو وہ نوجوان ہیں جن کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے۔
مرد تو وہ شخص ہے جو پوشیدہ طور پر صدقہ کرتا ہے کہ اس کے دوسرے ہاتھ کو پتہ بھی نہیں چلتا۔
مرد تو وہ لوگ ہیں جو راتوں کو اکیلے میں اللہ کو یاد کرتے ہیں تو خشیتِ الٰہی سے انکے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔
مرد تو وہ لوگ ہیں جو صرف اللہ کیلئے محبت کرتے ہیں‘ اسی پر اکٹھے ہوتے ہیں اور اسی پر علیحدہ ہوتے ہیں۔
مرد تو وہ لوگ ہیں جو تنگدشتی کے باوجود حرام اور کرپشن سے بچتے ہیں اور حق و حلال کی روزی پر گزارا کرتے ہیں۔
مرد تو وہ نوجوان ہیں جسے عالی نسب حسن و جمال کی ملکہ دعوتِ گناہ دے اور وہ کہہ دے: ’’انی اخاف اللہ ۔( میں اللہ سے ڈرتا ہوں)‘‘

ایسی ہی مردانگی کے حامل لوگوں کو اللہ تعالٰی قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جس دن عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔

بے شک یہی عباد الرحمٰن یعنی رحمٰن کے حقیقی بندے اور حقیقی مرد ہیں جیسا کہاللہ کا فرمان ہے:

وَعِبَادُ الرَّحْمَ۔ٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴿٦٣﴾وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا﴿٦٤﴾وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖإِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا﴿٦٥﴾إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا﴿٦٦﴾وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا﴿٦٧﴾ الفرقان
’’ اور رحمان کے (حقیقی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔جو دعائیں کرتے ہیں کہ "اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔وہ بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے" ۔جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔‘‘​
اسلامی تاریخ مردانگی کے جوہر دکھانے والے رجال سے بھری پڑی ہے۔لہذا جو لوگ اوصافِ مردانگی سے مالامال ہونا چاہتے ہیں وہ اسوۂ حسنہ ﷺ اور سیرتِ صحابہ کرامؓ اور سیرتِ صالحینِ امت سے انہیں چُن کر خود اپنائیں ‘ اپنے بچوں کی اسی بنیاد پر تربیت کریں اور اس قحط الرجال کے دور میں مردانگی کے جوہر سے بھر پور رجال / مرد امت کو فرام کرنے کی سعی کریں۔

اس مضمون کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ آج ہم مسلمانوں کے پاس روح کو غذا پہنچانے اور کردار سازی کیلئےوقت بہت کم ہے ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تحریر مسلمان مردوں میں مردانگی کا جو جاہلانہ تصور ہے اسے ختم کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتی ہے تو صدقۂ جاریہ کے طور پر اسے آگے شیئر کیجئے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کیجئے۔

(تحریر : محمد اجمل خان)​
حوالہ جات:
1- خطباتِ حرمین ۔خطباتِ مدینہ منورہ ۱۴۲۲ ھ
2- حکمراں صحابہؓ: (حضرت عمر بن خطابؓ )از محمود احمد غضنفر
3- الفردات فی غرائب القرآن ۔ امام راغب اصفہانی، اردو ترجمہ: مولانا محمد عبدہ فیروز پوری​
 

Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 95 Articles with 69603 views اللہ کا یہ بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی باتوں کو اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیکھنا‘ سمجھنا‘ عم.. View More