وہ پریشان تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔ میرے
پاس آیا تو بتانے لگا کہ گھر میں پچھلے ایک ماہ سے لگاتار جھگڑا چل رہا ہے
۔ یکایک اس کے باپ کو جانے کیا سوجی ہے کہ اس کی ماں کو طلاق دینے کے درپے
ہے۔ وہ اور دوسرے بہن بھائی اسے روک رہے ہیں۔ اس وجہ سے روز جھگڑا ہوتا ہے۔
محلے میں ان کا گھر تماشا بنا ہوا ہے۔ والد صاحب کو سمجھانے کی لاکھ کوشش
کے باوجود کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔آپ مدد کریں۔ اس کا باپ ایک مزدور ہے ،
کسی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ بہت دفعہ بے روزگاری کے وقت میں نے اس کی مدد
بھی کی تھی اور کہیں نہ کہیں اس کی نوکری کا بندوبست بھی کیا تھااس حوالے
سے بیٹے کو یقین تھا کہ وہ میری بات مان جائے گا اور کوئی بہتری کی صورت
نکل آئے گی۔
اگلے دن وہ سب خاندان میرے پاس موجود تھا۔میں نے سختی سے کہا کہ سب کی بات
سنوں گا مگر کسی کی گفتگو کے دوران کوئی دوسرا مداخلت نہیں کرے گا۔پہلے ماں
نے گفتگو کا آغاز کیا۔ سادہ سی گھریلو عورت تھی۔ کہنے لگی کہ گزشتہ تیس
(30) سال سے اس کے ساتھ رہ رہی ہوں ۔ ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔ کبھی کسی چیز
کی بے جا فرمائش نہیں کی ۔ کبھی کسی بات کا گلہ نہیں کیا۔ اس نے جو دیا کھا
لیا، پہن لیا، ہم ہر حال میں خوش تھے۔ مگر پچھلے ایک ماہ سے اسے پتہ نہیں
کیا ہو گیا ہے ۔ مجھے اپنے برے حالات کا ذمہ دار قرار دیتا ہے مجھے منحوس
کہتا ہے۔ حالانکہ اب تو بچے بھی کمانے لگے ہیں اور حالات پہلے سے بہتر ہیں۔
اب یہ مجھے چھوڑنا چاہتا ہے مگر ابھی تک اس لئے نہیں چھوڑ سکا کہ بچے کہتے
ہیں کہ ماں کو چھوڑو گے تو ہمارے گھر میں نہیں آؤ گے۔ اسے رہنے کو کوئی
دوسری جگہ نظر نہیں آتی اس لئے ابھی تک مجھے چھوڑنے کی جرآت نہیں کرسکا۔یہ
مرد ہے اسے گھر سے باہر رہنے کو کوئی جگہ نہیں ملتی میں تو عورت ہوں،میں
کیا کروں گی۔ تیس سال پہلے جب میں اس کے پاس آئی تھی تو اس کے بعد میں نے
کبھی پیچھے دیکھا ہی نہیں کہ میرا کوئی اور بھی ہے۔اس میاں اور ان بچوں کے
سوا کبھی کسی کاسوچا ہی نہیں۔بتائیں میں کیا کروں۔
میاں نے گفتگو کا آغاز باقاعدہ رونے سے کیا۔ کہنے لگا۔ اس عورت کی وجہ سے
میری ساری زندگی تلخ گزری ہے۔ میں نے بیس بیس گھنٹے کام کیا ہے مگر میری
حالت نہیں بدلی۔ اور اب مجھے پتہ چلا ہے کہ میری غربت کی وجہ یہ عورت ہے۔
میں نے پوچھا کہ اب کیسے پتہ چلا۔پہلے تو وہ بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا
رہا مگر میرے اصرار پر بول پڑا کہ ایک بابا جی جو بہت بڑے عالم ہیں ۔ انہوں
نے بتایا ہے اور کہا ہے کہ اسے طلاق دے کر اگر اس نا م کی لڑکی سے شادی کر
لو تو تمھارے حالات بدل جائیں گے۔ میں نے پوچھا کہ اس مخصوص نام کی لڑکی
کہاں ملے گی۔ اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔میں نے اسے سمجھایا کہ کل دونوں اکٹھے
اس عالم باباجی کے پاس چلتے ہیں اور پوری بات کرکے آتے ہیں۔ کہ کہیں ایسا
نہ ہو کہ تم اسے بھی چھوڑ دو اور اس نام کی لڑکی بھی نہ ملے۔اسے کچھ بات
ٹھیک لگی اور وہ راضی ہو گیا۔
اگلے دن ہم دونوں عالم باباجی کے ڈیرے پر پہنچ گئے۔ گاؤں سے تھوڑا ہٹ
کرویران سی جگہ پر دو کمرے بنے ہوئے تھے اور کمروں کے باہر گندے ، میلے
کچیلے کپڑوں میں پانچ چھ آدمی حقہ پی رہے تھے۔ یقیناً تمباکو میں کوئی نشہ
آور چیز موجود تھی کہ دور تک اس کی پھیلی ہوئی بدبو سے مجھے سخت کراہت
محسوس ہو رہی تھی۔میں نے اسے پوچھا کہ عالم بابا جی کہاں ہوں گے۔ اس نے
درمیان میں بیٹھے غلیظ تریں شخص کی طرف اشارہ کیا کہ وہ ہیں۔عالم بابا جی
ہمیں قریب پا کر وجد میں آ گئے۔ سر گھماتے پوچھا بیٹا کیسے آئے۔ میں نے کہا
کہ یہ میرا دوست اپنے حالات بدلنے کے لئے آپ کے پاس آیا تھا۔ آپ کے کہنے کے
مطابق اس نے بیوی کو چھوڑ دیا ہے مگر آپ کے بتائے ہوئے مخصوص نام والی لڑکی
نہیں مل رہی ،آپ کی مدد درکار ہے۔عالم صاحب نے مسکرا کر کہا۔ یہ کام بھی کر
دیتے ہیں۔ ان کے اشارے پر ایک شخص بھاگ کر کمرے سے پرانے سے غلاف میں
لپٹاقرآن حکیم اٹھا لایا۔ عالم نے اسے کھولا، جو صفحہ سامنے آیا آنکھیں بند
کرکے اس پر انگلیاں پھیریں اور قرآن بند کرکے واپس پکڑاتے ہوئے کہا۔ کام ہو
گیا۔ آپ لوگ پرسوں گیارہ بجے آ جائیں اس نام کی عورت کھنچی چلی آئے گی۔ ہم
واپس چلے تو تین آدمی ہمارے ساتھ تھے۔انہوں نے مبارک دی کہ دیکھیں بابا جی
نے آپ کا ایک مشکل کام کتنی جلدی کر دیا۔ بتانے لگے بابا جی کے آنکھیں بند
کرکے قرآن پر انگلیاں پھیرنے سے ہر چیز ان کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اور
انہیں سب پتہ چل جاتا ہے۔ بابا جی کا تو پتہ نہیں مگر مجھے پتہ چل گیا کہ
عالم بابا قرآن بھی پڑھے ہوئے نہیں۔ہمارے ساتھ چمٹے وہ تینوں شخص ان نذرانہ
مانگنے لگے ۔ ہم نے لاکھ کہا کہ ایک ہی دفعہ پرسوں دیں گے مگر انہوں نے بھی
سو روپے لے کر بمشکل جان چھوڑی۔
میں اپنے ساتھی کو ملحقہ گاؤں لے گیا۔ہم نے جس سے بھی بابا جی کی بات کی وہ
ہنسا اور بابا جی اور ان کے ساتھیوں کو فراڈیا قرار دیا۔میں نے اسے سمجھایا
کہ تمھاری طرح کوئی سادہ لوح اپنی بچی کی شادی کے لئے اس کے پاس آیا ہو
گا۔جس بچی کا وہ نام ہے ۔اس نے پیسے کمانے کے لئے دونوں کو بے وقوف بنایا
ہے۔ اسے سمجھ آ گئی اور آج وہ سکون سے بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہا ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہر بے ہنگم ، مخبوط ا لحواس یا فراڈیے کو عالم جان
لیتے ہیں۔ عالم کا تعلق علمیت سے ہوتا ہے اورمسلمانوں میں عالم وہ ہوتا ہے
جو قران سمجھتا اور سمجھاتا ہے جبکہ قران سمجھنے کے لئے کم ازکم اٹھارہ علم
جاننا ضروری ہیں اور وہ علم ہیں 1۔علم لغت (زبان) 2 ۔ علم صرف (کلموں کی
تقسیم، اصل اور گردان) 3 ۔علم نحو(اجزائے زبان کا باہمی تعلق) 4 ۔ علم
معانی(معنوں کا درست مطلب) 5 ۔ علم بیان 6 ۔ علم بدعی 7 ۔ علم قرات و
تجوید(حروف کیصحیح ادائیگی) 8 ۔علم فقہ( قانون شریعت) 9 ۔علم اصول فقہ 10 ۔
علم حدیث 11 ۔علم اصول حدیث 12 ۔ علم کلام 13 ۔ علم ناصخ و منسوخ 14 ۔ علم
اسباب النزول 15 ۔علم قصص 16 ۔ علم تاریخ 17 ۔ علم مناظرہ 18 ۔علم تصوف ۔جس
شخص کو ان علوم سے واقفیت نہیں وہ کیسا عالم۔ افسوس علم کی کمی سے جہالت کو
اس قدر فروغ حاصل ہو گیا ہے کہ ہر فراڈ کرنے والا خود کو عالم ظاہر کر کے
لوگوں کو لوٹنے کا سامان کر لیتا ہے۔ |