بے لگام خواہشات

خواہشات کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ خواہشات کچھ جائز ہوتی ہیں اور کچھ ناجائز۔ خواہشات جائز ہوں یا ناجائز، ان کا بے لگام ہونا انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ خواہشات چاہے کتنی بھی ہوں اگر بے لگام ہو جائیں تو یہ ایسی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے جسے ہم اکثر سمجھ بھی نہیں پاتے اور خواہشات کا گھوڑا بے لگام ہو کر زندگی کے چٹیل میدان میں سر پٹ دوڑاچلا جاتا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس سے پہنچنے والے نقصان کاہم ٹھیک سے اندازہ بھی نہیں کر پاتے اور اپنی دھن میں جٹے رہتے ہیں۔

اگر آپ کے پاس ایک اچھا لباس ہے، آپ کی خواہش ہے کہ کاش میرے پاس دو اچھے لباس ہوتے تا کہ مجھے ہر جگہ ایک ہی لباس پہن کر نہ جانا پڑتا۔ کسی طرح آپ کی یہ خواہش پوری ہو جاتی ہے اور آپ کے ایک نہیں دو نئے لباس بن جاتے ہیں۔ آپ کی خواہش سے تھوڑا زیادہ ہی مل گیا۔ خدا کا شکر ادا کیا گیا۔ خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بس کچھ ہی دن گزرپائیں گے اس کیفیت میں۔ رفتہ رفتہ نہ صرف یہ کہ خوشی کم ہوتے ہوتے ایک دن ختم ہو جاۓ گی بلکہ اسی پوری ہوئ خوشی سے خواہشات کی چند شاخیں نکلنے لگیں گی جیسے، لباس تو بن گۓ اب اس کے ساتھ نۓ جوتے بھی ہوں، خواتین ہیں تو لباس کے ساتھ ملتے زیورات اور پرس کا بھی سوچیں گی۔ یہیں پر بات ختم نہیں ہوتی بلکہ سمجھیں کہ لباس کی خواہش کیا پوری ہوئ مزید خواہشات کا انبار لگ گیا۔ اور آپ کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں نے صرف ایک لباس کی خواہش کی تھی، خدا نے میری وہ خواہش دگنی کر کے پوری کر دی پر میں خوش ہونے کے بجاۓ مزید تکلیف میں آ گیا ہوں۔ جب تک خواہشات مختصر اورچھوٹی ہوتی ہین یا جب تک وہ پوری نہیں ہوتیں، لگام آپ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ مگر جیسے ہی کوئ تمنا بر آتی ہے، آپ کے ہاتھ سے لگامیں چھوٹ جاتی ہیں اور خواہشات کا گھوڑا نہ صرف یہ کہ بے لگام ہو جاتا ہے بلکہ سرپٹ دوڑنے لگتا ہے۔

انسان بہت کمزور اور بے چارہ ہے، خود کو بھی یہ کہہ کرجٹھلاتا ہے کہ نہیں میں ایسا کچھ نہیں کر رہا جو ناشکری یا نا خوشی کے زمرے میں آتا ہو۔ اور ایسی باتیں سوچنے لگتا ہے کہ خواہش کرنا نہ صرف میرا حق ہے بلکہ یہ میری ضرورت بھی ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کی خواہش اور ضرورت تو صرف ایک سائیکل کی حد تک تھی۔ پیدل چل چل کر پیروں تلے چھالے پڑ جاتے تھے تو اس نے خدا سے سائیکل مانگی تھی۔ مگر کب اور کیسے اس کے وجود کو گھیرے میں لے کر یہ سائیکل کی خواہش اور ضرورت، پہلے موٹر سائیکل اور پھر کار اور پھر کاروں کی خواہش اور ضرورت میں تبدیل ہوتی گئ، اور اس بات کا اسے احساس تک نہیں ہوا۔ ابھی سوچ اور خواہشات رکی نہیں، مسلسل بے لگام دوڑ رہی ہیں۔ خواہشات کا لا متناہی سلسلہ ضرورتوں کا نقاب اوڑھے اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اسے موت نہ آگھیرے یا پھر قسمت اسے آسمان سے زمین پر پٹخ نہ دے۔ تب اسے ہوش آتا ہے کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوا، میں کہاں نکل گیا تھا، میری خوشی میرا سکون سب کچھ کہاں کھو گیا۔ جب میں غریب تھا تو آج کی نسبت کتنا پر سکون اور مطمئن تھا مگر خواہشات جنھیں میں نے ہمیشہ ضرورتوں کا نام دیا، نے ایسا اندھا کیا کہ میری وہ سمجھ بھی چھین لی کہ میں پیچھے مڑ کر اس وقت کی خوشی اور سکون کو محسوس کر سکتا۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئ خواہش پوری ہوجاۓ تو انسان خواہشات ہی کرنا چھوڑ دے۔ خواہشات ضرور کرین مگر ان کے پورا نہ ہونے کی تکلیف میں نہ رہیں۔ خواہشات کے سمندر میں چھلانگ لگانے سے پہلے یہ جان لیں کہ آیا آپ تیرنا جانتے بھی ہیں یا نہیں ورنہ آپ ڈوب جائیں گے اور وہاں کوئ بچانے والا بھی نہ ہوگا۔ دل میں خواہشات ضرور رکھیں مگر ان کی لگامیں مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ان کے پورا نہ ہونے پر بے چینی کا اظہار نہ کریں بلکہ ان کو پورا کرنے کے لۓ محنت، جذبہ اور لگن سے کوشش جاری رکھین۔ خود کو حسد کی آگ میں نہ جلائیں۔ دلوں میں وہ وسعت نظر پیدا کریں جو دوسروں کو خوش دیکھ کر آپ میں بھی خوشی کا احساس جگاۓ۔ اپنی خواہشات کو بے قابو نہ ہونے دیں۔ صبر اور برداشت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔ سوچیں کہ جب آپ کی کوئ دیرینہ خواہش پوری ہوتی ہے تو آپ کس قدر خوش ہوتے ہیں اور پھر وہ خوشی کب اور کہاں گم ہو جاتی ہے، اس کی آپ کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یہ وہی تمنا ہوتی ہے جس کے پورے ہونے کے انتظار میں آپ نے ایک عرصہ بتایا ہوتا ہے۔ کیوں آپ اپنی حاصل کی ہوئ چیز کو دیکھ کر یا اپنے کسی بھی مقصد کی کامیابی کا سوچ کر زندگی بھر خوش نہیں ہو سکتے؟ اپنے اندر خوشی کی اس کلی کو جو آپ کے اندر اس وقت پھوٹتی ہے جب کوئ خواہش پوری ہو، صبر وتحمل کا پانی دے کر پروان چڑھائیں نہ کہ اس کو بھلا دیں اور وہ جل جاۓ۔ اور پھر خواہش کا اگلا بیج بو کر خوشی کی دوسری کلی کے پھوٹنے کا انتظار کریں اور پھر اسے بھی جلا ڈالیں۔ سوچیں کہ اگر ہر خواہش پوری ہونے پر، ملنے والی خوشی کی کلی کو ہم پروان چڑھاتے رہین گے تو ایک دن آپ کے اندر پھولوں سے مہکتا باغ ہوگا جس کی مہک آپ کی پوری ذات کو مہکا دے گی۔

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 30429 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.