یادش بخیر۔۲۵ اپریل ۱۹۸۶ء کو امام حرم عبداﷲ ابن سبیل
مظفر آباد تشریف لائے تھے۔ خطہ بہاراں میں تا حد نگاہ اس روز بہار کے پھول
کھلے تھے، لیکن امام حرم کے خطاب نے ہر صاحب ایمان کو آنسوؤں کی برسات عطا
کر دی تھی ۔عبداﷲ بن سبیل تب جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے سالانہ
اجتماع میں خطاب کرنے آئے تھے ۔ انہوں نے صدیوں سے الم کا شکار کشمیریوں سے
کہا تھا۔ ’’ پاکستان میرا اپنا ملک ہے ، یہ اسلام کا قلعہ ہے اور کشمیر
میرے دل کا ٹکڑا ہے اس کا ہر دکھ میر اپنا دکھ ہے۔‘‘مظفر آباد کے اسٹیٹ
گیسٹ ہاؤس میں اس وقت کے صدر سردار محمد عبدالقیوم خان کے کندھے پر ہاتھ
رکھ کر انہوں نے کہا تھا ’’ہم کشمیر کی آزادی کے لیے آپ کا کندھا ہیں ۔ ‘‘
کئی دہائیاں گزر گئیں ۔ کل ایک اور امام حرم شیخ صالح بن عبدالعزیز جمعیت
علمائے اسلام ( ف ) کے صد سالہ اجتماع میں تشریف لائے تو ان کے خطاب نے درد
کے سارے تار چھیڑ دئیے ۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم پاکستان کو تنہاچھوڑنے کا
کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم پاکستان سے اور پاکستان ہم سے محبت کرتا ہے
ہم مل کر چیلنجز کا مقابلہ کریں گے اور بالآخر مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں گے۔
‘‘ جناب امام ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مسلمان ایک نئے
موضوع کے ساتھ دنیا میں زیر بحث آ جاتے ہیں ۔ دنیا میں سر بلند ہونے اور
بنیاد پرستی کے طعنے سے بچنے کے لیے حمیت و عزیمت کی ہر دیوار گراتے چلے
جاتے ہیں ۔ نائن الیون کے دو مینارمسلمان حکمرانوں کے نصیبوں پر گرے کہ
دنیا کا ہر مسلمان زیر عتاب آ گیا ۔ عالم اسلام کے حکمران اپنے ہی عوام کے
در پے آزار ہو گئے ۔ امریکا کی انسان دشمن پالیسیوں کے مقابل آواز بلند
کرنے والے قابل گردن زدنی ٹھہرے اور امریکا کی ہاں میں ہاں ملانے والے سر
خرو ‘سر بلند اور دل پسند ۔
جموں و کشمیر میں ایک معرکہ برپا ہے جسے اس کے مکینوں نے بھارت کی مسلط
کردہ کھلی جنگ کے عوض قبول کیا ۔ نہتے اور بے بس اہل جموں و کشمیر کو
ہتھیار کوئی نہیں دیتا ‘ ان کی اپنی فوج بھی نہیں ‘ ان کے اپنے ٹینک اور
جہاز نہیں ‘ وہ صدیوں سے رزم آرائی کے فن سے بھی ناآشنا ہیں ۔سات لاکھ مسلح
فوجی جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ اس خطہ بہاراں پر ٹوٹ پڑے تو
معصوم ‘تر دماغ اور نجیب قوم نے اپنے جگر گوشوں کے لہو سے کوچہ و بازار میں
چراغ جلادیے ۔ غلامی کے اندھیاروں کے مقابل ڈٹنے والے اندھی بہری دنیا سے
اپنا حق آزادی نہ منوا سکے تو اپنوں کے ہاتھوں ہی پٹنے لگے۔ ایک زچ کر دینے
والا مرحلہ اس ریاست کے باشندوں کو در پیش ہے جن کے چھ لاکھ بچے ‘ بوڑھے
مرد اور عفت مآب خواتین لہو میں نہاگئیں ۔وہ دہشت گرد ٹھہرے اور جو ٹینک ‘
توپ ‘ جہاز اور اندھے قانون کے ہمراہ ان پر پل پڑے ‘وہ امن پسند ‘ جمہوریت
نواز اور مظلوم ٹھہرے۔بڑی طاقتوں کا ’’کمال ‘‘ہے کہ ہم جہاد کی فضیلت‘
برکات ‘ فرضیت ‘ ضرورت برکت و عظمت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور جہاد میں
فرق بیان کرتے کرتے اس مقام پر آ گئے ‘جہاں سے کوئی بھی راہ منزل کی طرف
نہیں جاتی ۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے ۔
پاکستان مدینہ کی اسلامی ریاست کے بعد دنیا کا پہلا نظریاتی ملک ہے ‘جس کے
ساتھ امت کی امیدیں وابستہ ہیں ۔ ایسے ہی اسرائیل خطہ ارض پر یہودی نظریاتی
مملکت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ ستر برس سے زائد عرصے کے دوران اسرائیل
اور بھارت پاکستان کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے رہے ہیں۔ ان کی مشترکہ
کمانڈوز مشقیں ایک طرف ‘ سری نگر کے برفستانوں میں بر سر پیکار مجاہدین کے
مقابل اسرائیلی فوجوں کی معرکہ آرائی کس سے پوشیدہ رہی ہے ؟اسرائیلی اسلحے
کے ڈھیر اور اسلامیوں کے سینے میں اترنے والی گولیوں کا موجد یہی اسرائیل
ہی تو ہے جس کی ساری تگ و تاز ایک ہدف کے گرد گھومتی ہے کہ کسی طرح مسلم
نامی مخلوق کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔
بلاد شام کے جنوب مغرب میں ایشیا اور افریقہ کے سنگم پر واقع فلسطین
‘ایشیائی اور افریقی مسلمانوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے
ایک شہر پر آگ و خون کا ایک معرکہ اپنی انتہاؤں کو چھوتارہا ہے ۔ جس کی
کوئی صبح ایسے طلوع نہیں ہوتی کہ اس کی بیٹیاں اور بیٹے خون میں ڈوب کر سر
خرو نہیں ہوتے ہوں‘ کوئی شام ایسی نہیں آتی جب ان کے گھر راکھ و خاک کا
ڈھیر نہیں بن جاتے ۔فلسطین کے پیرو جواں مسجد اقصیٰ کے گرد پروانوں کی طرح
نچھاور ہو رہے ہیں اور مسلمان حکمران مجرمانہ خاموشی میں غرق ہیں ۔ ایک
قبرستان جیسی خاموشی جس کے ٹوٹنے کے امکانات کم ہو تے جاتے ہیں اور اے امام
حرم !!
آپ جانتے ہیں خود بلاد شام میں آج لہو کی ندیاں بہہ رہی ہیں ایک دلدوز منظر
ہے ۔ اپنے ہی اپنوں کے ہاتھوں تہہ تیغ ہو رہے ہیں ۔ مسلم حکمران ہی
مسلمانوں کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ذلتوں اور رسوائیوں کی سیاہ رات سے
روشنی کی کوئی کرن نہیں پھوٹ رہی ،کٹتے مٹتے اور سرخرو ہوتے مسلمانوں کو ٹی
وی کی سکرین پر دیکھ رہے ہیں ۔ ہمارے حکمران اور قائدین بھی یہ منظر دیکھ
رہے ہیں ۔عرب و عجم کے حکمران ‘ قائدین ا مام اور ۵۲ اسلامی ملک ایک
قبرستان کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔
فلسطین مقدس دھرتی ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی اس کے ساتھ روحانی اور
جذباتی وابستگی ہے ‘ یہودی ازل سے اسلام کے دشمن چلے آ رہے ہیں ۔ان کی تمام
نفرتیں ہمارے لیے ہیں ‘ان کے تمام منصوبے ہمارے خلاف ہیں۔ قرآن کہتا ہے ۔’’
اے مومنو!یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ‘ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم
میں سے جو کوئی ان کو دوست بنائے وہ ان میں سے ہے۔بے شک اﷲ ظالموں کو ہدایت
نہیں دیتا۔‘‘ (المائدہ)
اے میرے محترم امام !
آج ہمارے لیے بہت سے سوالیہ نشان ہیں ؟عربوں کی روایتی غیرت اور جرات کہاں
گئی ؟ان کی دولت ‘ ان کا جاہ و جلال ان کے بادشاہ کب بروئے کار آئیں گے؟
ریت میں منہ چھپائے ‘ آنکھیں بند کیے خطرے کب ٹلتے ہیں۔وہ عرب جو اپنے
راستے سے پتھر ہٹانے کی خواہش میں کانٹے بوتے چلے جا رہے ہیں ۔ جنہیں کل کی
نسلوں کو اپنی آنکھوں سے چننا ہوگا۔ جس کے جوانوں کو سرکاری سرپرستی میں
زنخے بنایا جا رہا ہو ‘وہ آنے والے دور میں کیا کام آئیں گے؟سری نگر ہو یا
غزہ یا دمشق یا کابل……ہمارا مستقبل ہزار پردوں میں پنہاں ہے ۔ جس کا ابھی
کوئی نام نہیں ‘ لیکن ایک لمحہ آئے گا جب اس اندھیرے نے مٹ جانا ہے ۔
اندھیرے تو مٹ کر ہی رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری تگ و تاز کا نام کیا ہے
؟اس بہتے لہو کی کیا قیمت ہے ؟ آج نہیں تو کل غزہ ، سری نگر، کابل اور دمشق
کا منظر بدل جائے گا ؟ غزہ ہو یا سری نگر بغداد ہو یا کابل ہم اس عہد کم
ظرف میں جی رہے ہیں جس میں ہمارا کوئی پرسان حال نہیں۔اے امام حرم !آپ کا
فرمانا درست آپ کی حوصلہ افزائی اپنی جگہ لیکن اس امت کا کوئی پرسان حال
نہیں ،اس کا کوئی تو والی وارث ہو۔ |