کچھ حادثات انسان کی زندگی کو پوری طرح تبدیل کر دیتے ہیں
اور اُن حادثات کو ُبھولا دینا اس کے لئے نہایت مشکل ترین کام ہوتا ہے ․ یا
تو وہ صبر کا دامن تھام لیتا ہے یا پھر ہمیشہ کے لئے بے زبان ہو جاتا ہے․
ایسا ہی ایک حادثہ میرے والد کے عزیز دوست ملک صفدر کے ساتھ آج سے ۸ سال
قبل پیش آیا جس نے ان کی زندگی کے نقشے کو پوری طرح تبدیل کر ڈالا اور اُن
کو زندہ دل انسان سے اِک ایسا انسان بنا ڈالا جس کی سانس چلتی ضرور ہے اور
وہ زندہ تو ضرور ہے مگر اُس کی زندگی کو غموں نے گھیر لیا , لیکن وہ شخص آج
بھی خود کو اﷲ کی نعمتوں سے محروم نہیں سمجھتا ․
آج سے ۱۰سال قبل ملک صفدر کی والدہ ماجدہ انہیں یتیم کر گئیں , جبکہ اِن کی
زوجہ ۹سال قبل اِک بیماری کے باعث اس دُنیا سے رخصت ہو گئیں تھی ․ ان کی ۳
بیٹیاں ہیں جبکہ ایک ہی اکلوتا بیٹا ملک شاہ رُخ تھا , جسے ماں کے رخصت
ہونے کے ایک سال بعد ہی الیکٹرانک انجینئر کی ڈگری ملی اور اس کے نام کے
ساتھ انجینئر ملک شاہ رُخ کا نام لگ گیا,یہ روز شاہ رُخ کے گھر والوں کے
لئے خوشی کا روز تھا چونکہ ایک سال بعد خوشی نے ملک صفدر کے دروازے پہ دستک
دی تھی اور ملک صفدر کہیں حد تک اپنی زوجہ اور والدہ کے غم کو کم کر چُکے
تھے, لیکن نہ جانے قسمت کو کیا منظور تھا ․ ڈگری لینے کے چند روز بعد ملک
شاہ رُخ نے چار دوستوں کے ساتھ شام کو عید کی خریداری کرنے کے لئے شہر کے
مشہور بازار طارق روڈ جانے کا اِرادہ کیا ․ جانے سے قبل والد کی رضامندی
مانگی اور جانے کی اجازت لینا چاہی تو والدنے کہاکہ پہلے چھوٹی بہن طیبہ کو
ٹیوشن سے لے آؤ پھر چلے جانا جس پر اس کا کہنا تھا کہ جی ابو میں ابھی بہن
کو لے آتا تھا , بہن کے دیر سے آنے پر اُسے کہنے لگا ’آج کے بعد میں تمہیں
کبھی لینے نہیں آؤں گا , مجھے جانا ہے اور تم نے مجھے لیٹ کروادیا ـ‘یہ
سُنتے ہی طیبہ کا چہرہ مڑجھا گیا مگر وہ جانتی تھی کہ بھائی کی چہیتی ہے وہ
, جب کبھی بھائی اُسے ڈانٹتا تھا تو تھوڑی دیر کے بعد خود ہی اُس سے معافی
مانگتا تھا اور اُسے ہنسا دیتا تھا ․ تقریبا شام کے۶بج رہے تھے جس وقت اس
نے طیبہ کو گھر چھوڑا اور والد کے کہنے پر ڈرائیور کو ساتھ لیا اور دوستوں
کے ہمراہ خریداری کو نکل گیا ․چونکہ والد کبھی شاہ رُخ کو گاڑی اکیلے نہ لے
کر جانے دیتے, اسی وجہ سے ڈرائیور ہمیشہ ان کے ساتھ ہی رہتا․
ابھی یہ لوگ نیشنل ہائی وے پر ہی موجود تھے کہ تیز رفتار آئل ٹینکر اِن کی
گاڑی پر آگِرا ․چونکہ حادثہ گھر کے نزدیک پیش آیا تو والد کو اس حادثے کی
خبر مِل چُکی تھی اور وہ بیٹیوں کو بتائے بغیردوست کے ہمراہ جائے وقوعہ پر
آن پہنچے ․ٹینکر پوری طرح سے ابھی گرِا نہیں تھا ,امدادی کاروائیوں نے اپنا
کام جاری رکھا ہوا تھا اور ٹینکر کے نیچے سے مسلسل ملک شاہ رُخ اور اُس کے
دوستوں کی چیخنے اورچیلانے کی آوازیں آرہی تھی یہ سُنتے ہی ملک صفدر اپنے
ہوش و حواس کھو بیٹھے اور اُن آوازوں سے جیسے وہ خود کو سنبھال نہ پا رہے
تھے, ان کا کہنا تھا کہ میں خود اپنے بیٹے کو بچاؤں گا لیکن یہ اُن کے بس
کی بات نہ تھی ․ اچانک آئل ٹینکر پوری طرح ان کی گاڑی پر گر گیا اور اب
چیخنے اور چِلانے کی آوازیں آنا بند ہو چُکی تھی یہ منظر دیکھتے ہی اُن کے
پاؤں تلے زمین نکل گئی تھی ․
افسوس ملک شاہ رُخ اپنے دوستوں کے سنگ اس دُنیا سے چلا گیا اور اپنے پیچھے
۳ بہنوں اور اپنے والد کو تنہا چھوڑ گیا․ مُحلے کے لوگوں نے بہنوں کو خبر
پہنچائی تو گھر میں کہرام مچ گیا جنہیں اپنے کانوں پر یقین نہ آرہا تھا کہ
اُن کا اِکلوتابھائی اب اس دُنیا میں نہ رہا, جنہیں سمجھ نہ آرہی تھی کہ
کیا یہ سچ ہے یا جھوٹ , بہنوں پر جان چھناوڑکرنے والا انہیں روتا ہو ا چھوڑ
گیا اور والد کے گھر داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے وہ زندگی کا سب کچھ
کھو بیٹھے ہوں ․ اسی مُحلے میں ملک شاہ رُخ کے ہمراہ د و جڑواں بھائیوں کا
دستے خاکی بھی لایا گیا ․ علاقے کے ہر شخص کی آنکھ عشق بار تھی اور ملک
صفدر اپنی زوجہ اور والدہ کے غم سے پوری طرح نہ نکلے تھے کہ قسمت نے اُن سے
ان کا اکلوتا بیٹا چھین لیا تھا ․جس نے بڑھاپے میں والد کا سہارا بننا تھا
, وہ اپنے والد کو زندگی بھر کا غم دے گیا․ ملک صفدر نے اپنی جوان اولاد کو
اپنے ہاتھوں سے دفنایا , کتنا مُشکل ترین لمحا ہوتا ہے جس وقت باپ کے
کندھوں پر بیٹے کا دستے خاکی ہو, اُس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے․ اکلوتے بیٹے کے
دُنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعد ملک صفدر خود کو نہ سنبھال سکے اور دل کے
مرض میں مُبتلا ہو گئے ․ زوجہ,والدہ اور بیٹے کی جُدائی نے اِن سے بینائی
تک چھین لی اور وہ اپنی آنکھوں کی روشنی کھو بیٹھے․
ملک صفدر کے اکلوتے بیٹے کے دُنیا سے چلے جانے کے بعد وہ اس قابل نہ رہے کہ
اپنی زندگی کو معمول کے مُطابق گزار سکیں․ لیکن کائنات کا نظام ہے کہ وہ تو
چلتا ہی رہتی ہے پس لوگ دُنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں․ ایک طرف بھائی
کے دُکھ نے اِن سب کے خوابوں, اُمیدوں کو توڑ ڈالا تھا تو دوسری طرف اﷲ نے
ان کی بیٹیوں کو ایسی طاقت سے نوازہ کہ انہوں نے ہر مُشکل کام کو انجام دیا
اور باپ کا سہارا بنیں․اِن کی سب سے بڑی بیٹی سائرہ نے اپنے بھائی شاہ رُخ
کی کمی کو پورا کیااور گھر کے سودا سلف سے لے کر ہر چیز اور کام کو سنبھال
لیا․جبکہ حنا اور طیبہ نے والد کی خاطر اپنی پڑھائی کو ادھورا چھوڑ دیا اور
گھر کو سنبھالا اور والد کی ہر ضرورت کو پورا کیا ․
لوگ کہتے ہیں کہ کسی کے چلے جانے سے زندگی رُک نہیں جاتی, ہاں وہ سچ ہی
کہتے ہیں․ اگر اﷲ نے ملک صفدر سے اُن کے اکلوتے بیٹے کو لے لیا تھا تواُن
کی بیٹیوں کو بیٹے جتنی طاقت سے نوازا جو باپ کے بڑھاپے کا سہارا بنی ․آج
بیٹیاں شادی شدہ ہیں لیکن شادی شدہ ہونے کے باوجود والد کی خدمت میں کوئی
کمی نہیں چھوڑتی اورآج والد کے پاس جینے کی اُمید اُن کی بیٹیوں سے ہے․ ان
کو اپنی بیٹیوں پر فخر ہے ․ وہ اپنی بینائی تو کھو بیٹھے لیکن ان کی آنکھوں
کی ٹھنڈک ان کی بیٹیاں بنیں․ سچ کہتے ہیں بیٹیاں بیٹوں سے کم نہیں ہوتی․ |