کامیابی و ناکامی

پچھلے دنوں ایک واقعہ نظر سے گزرا۔ کسی آدمی نے ایک مالدار شخص سے پوچھا :''آپ اتنا مال کس لیے کماتے ہیں؟''مالدار شخص نے جواب دیا :''کھانے کے لیے 'تاکہ زندہ رہ سکوں''
اس آدمی نے دوبارہ پوچھا :''اور آپ زندہ کس لیے رہنا چاہتے ہیں؟'' مالدار شخص نے جواب دیا :''کمانے کے لیے تاکہ مزید کھا سکوں۔''

آپ اسے ایک لطیفہ سمجھ کر ہنسے ہوں گے لیکن آپ بغور اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو تقریباََ ہر چہرے پر آپ کو یہی جواب نقش ملے گا۔ ہر شخص ''مال'' کے پیچھے اس طرح بھاگتا ہے کہ موت بھی اتنی سرعت سے زندگی کا تعاقب نہیں کرتی۔

دنیا میں کون ہے جو کامیابی کی تمنّا نہیں رکھتا؟ کون ہے جو ناکام ہونا پسند کرتا ہے؟ لیکن کیا مال و دولت کے پیچھے بھاگنا'اونچے عہدے کی خواہش میں جلتے رہنا' بنگلہ' کاراور بنک بیلنس حاصل کر لینا کامیابی ہے؟ کیا ترقی کی کسوٹی مال و زر 'زمین و جائداد'سونا چاندی اور ہیرے جواہرات ہیں؟ اگر ہاں تو پھر ہر چیز کے ہوتے ہوئے بھی سکونِ قلب نصیب کیوں نہیں ہوتا! کیوں راتوں کو ٹیبلٹس کے بغیر نیند نہیں آتی!! دل میں وساوس، شک اور خطرے کا نامعلوم سانپ کیوں پھن کاڑھ کے بیٹھ جاتا ہے!!!

دراصل لوگوں نے کامیابی و ناکامی کے معیار اپنے لیئے خود تراش لیے ہیں۔ آج کے پر فتن دور میں ہر کوئی 'مال کے چکر' میں ہے۔ پیسہ کیسے بنایا جائے'معاشرے میں اونچا اسٹیٹس کیسے حاصل کیا جائے۔ اس ادھیڑ بن میں حرام و حلال کی تمیز کیئے بغیر ہر کوئی اسے پا لینا چاہتا ہے۔ انسان کو کامیابی نظر آتی ہے تو صرف پیسے میں عزت دکھائی دیتی ہے تو دولت میں۔ وہ ایک روپے سے ایک لاکھ 'ایک سو سے ایک کروڑ بنانے کی فکر میں ہمہ وقت سر گرداں وغلطاں ہے۔ بظاہر یہ مال یہ دولت کامیابی نظر آتا ہے لیکن در حقیقت ہلاکت ہے یہ انسان کے لیئے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔

''ہر غیبت کرنے والے طعنہ دینے والے کے لیئے ہلاکت ہے۔ جو مال کو جمع کرتا ہے اور اسے گنتا رہتا ہے(کہ کتنا جمع ہو گیا) وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا۔ ہرگز نہیں! وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائے گا۔اور تمہیں کیا معلوم وہ حطمہ کیا ہے ۔اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں تک جا پہنچتی ہے۔''(سورة الھمزہ)

در اصل مال کی کثرت کامیابی نہیں فساد کی جڑ ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ کامیابی اگر مال و زر میں ہوتی تو کیا خدا انبیا کرام کواس سے محروم رکھتا؟

انسان اپنے جسم و جان کی ساری توانائیاں اسی 'فساد' کو حاصل کرنے میں صرف کر دیتا ہے پوری زندگی اسی ایک محور کے گرد چکراتے ہوئے گزر جاتی ہے یہاں تک کہ موت انسان کا چاروں طرف سے اِحاطہ کر لیتی ہے۔ کیا فائدہ ایسے مال وجواہرات کا جو زندگی کے چند سانس بھی بڑھا نہیں سکتا؟ حضور ۖ نے فرمایا:
''آدمی کہتا ہے کہ میرا مال !میرا مال!حالانکہ اس کے مال میں اس کا اور کیا حصہ ہے مگر جو کہ اس نے کھایا فضلہ بن گیا،جو پہنا بوسیدہ کر دیا اور جس کو اس نے خیر کے کاموں میں خرچ کر کے اپنے سے آگے روانہ کر دیا۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اس کے وارثوں کا ہے۔''

لیکن کیا کیجیئے زر طلبی، زر پرستی اور زر اندوزی کے اس مخصوص دور میں ہر کوئی اسی کی تمنا میں دن رات ایک کیئے ہوئے ہے۔ محد سے لے کر لحد تک اسی ہلاکت کو جمع کرنے کی فکر میں مگن ہے۔کیا آج کے انسان کا یہی منتہائے مقصود رہ گیا ہے؟مال مال اور صرف مال!یہ جانتے ہوئے بھی کہ آنکھ بند ہونے کی دیر ہے۔
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جائیں۔ امام غزالی فرماتے ہیں؛ ''توکل یہ نہیں کہ انسان کسب و عمل کو ترک کر دے اور ہاتھ پیر کو معطل کر کے اپاہیج بن کر پڑا رہے،جو ایسا سوچتا ہے وہ غلطی پر ہے '' ۔مال کمائیے لیکن حلال ذرائع سے۔ اور مال کی حب دل میں نہ آنے دیجیے۔ مال و دولت، زر و جواہرات کی محبت جب دل میں داخل ہو جائے تو حرام و حلال کی تمیز بھی نہیں رہتی۔

علامہ محمد اقبال ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:''مال صرف اس وقت نعمت ہے جب اس کے کمانے یا جمع کرنے کا مقصد دین کی سر بلندی کی خاطر اسے خرچ کرنا ہو''

لوگ شادی بیاہ اور دیگر غیر ضروری رسومات یہاں تک کے کسی عزیز کی موت پر صرف اپنی ''ناک'' بچانے کے لیئے بے دریغ خرچ کرتے ہیں لیکن جب کسی حق دار کا حق دینے کی بات آتی ہے تو ان کے ہاتھ تنگ اور دل سکڑ جاتے ہیں۔

اگر چاہتے ہیں کہ مال کے'' وبال'' سے بچ جائیں تو حرام و حلال کے فرق کو ملحوظ رکھیں اور حق داروں کو ان کا حق دے دیا کریں۔مال کو نیکی کی راہ میں خرچ کر کے آخرت کی زندگی کا ''زاد ِ راہ''بنا لیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''اور رشتہ داروں کو حق دو اور مسکینوں کو،اور مسافروں کو اور مال برباد مت کرو۔ بلاشبہ جو مال کو برباد کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے''

اگر آپ دوسروں کے حقوق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے شیطان کے بھائی بننے پر تلے بیٹھے ہیں تو شیطان کے انجام پر بھی نگاہ رکھیئے گا.
saqi farooqi
About the Author: saqi farooqi Read More Articles by saqi farooqi: 2 Articles with 2476 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.