قرآن کریم کی باعتبار نزول سب سے پہلی آیتیں یہی ہیں:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق (۱)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ
عَلَقْ (۲)اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ(۳) الَّذِیْ عَلَّمَ
بِالْقَلَمِ(۴)عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ(۵) (القرآن سورہ
علق،آیت ۵سے۱)ترجمہ: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا،آدمی کو خون کے
لوتھڑے سے بنایا،پڑھو۔تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے رحم کرم والا ہے، جس نے قلم
سے لکھنا سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔یہی پہلی
نعمت عظمیٰ ہے جو اﷲ تبارک تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی محمد ﷺ پر انعام
فرمایا اور یہی وہ پہلی نعمت ہے جو ارحم الراحمین نے اپنے رحم وکرم سے اپنے
بندوں کو عطا فرمائی۔ اس میں تنبیہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک
جمع ہوئے خون کی شکل میں تھا اﷲ تعالیٰ نے اس پریہ احسان کیا کہ اسے اچھی
صورت میں پیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ
سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا ۔علم ہی کی برکت تھی تمام انسانوں کے باپ
حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں میں ممتاز نظر آئے۔ علم کبھی تو ذہن میں
ہوتاہے اور کبھی زبان پر اور کبھی کتابی صورت میں لکھا ہوا ہوتاہے۔ پس علم
کی تین قسمیں ہوئیں۔ ذہنی ،لفظی اور رسمی۔ ایک جگہ یہ بھی ہے العلم صید علم
کو لکھ کر قید کر لیا کرو۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے
اسے اﷲ تعالیٰ اس علم کا وارث کر دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا۔ اﷲ رب العزت
نے انبیاء کرام علیھم السلام کو علم کی بے بہا دولت سے سرفراز فرمایا ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ
کُلَّھَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلٓئِکَۃِ فَقَالَ اَنْبِئُوْ نِیْ
بِاَسْمآءِ ھٰٓئُوْلآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن(القرآن ، سورہ البقرہ، آیت
۳۱) ترجمہ: اور اﷲ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء)
کو ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔(کنز الایمان)
فرشتوں پر آدم علیہ السلام کی فضیلت کس وجہ سے ہوئی ؟یہاں اس بات کا بیان
ہورہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں
پر فضیلت و عظمت عطا فرمائی اور یہ فضیلت فرشتوں کو بھی نہیں کیونکہ جو علم
حضرت آدم علیہ السلام کو حاصل ہے فرشتے اس سے خالی ہیں۔ اﷲ نے فرمایا کہ
حضرت آدم علیہ السلام کو تمام نام بتائے ان کی تمام اولادوں کے، سب جانوروں
کے ،زمین وآسمان، پہاڑ، تری ، خشکی، گھوڑے ،گدھے، برتن ، چرند، پرند، فرشتے
، چاند وغیرہ وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کا علم اﷲ نے آدم علیہ السلام کو
عطا فرمایا۔
جب بنی نوع انسان کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو اﷲ نے علم جیسی نعمت سے
سرفراز فرمایا تو ان کی اولاد انسانوں کو بغیر علم کیسے پسند فرمائے گا۔
آقا ئے دوعالم ﷺ پر جو پہلی وحی نازل فرمائی وہ علم حاصل کرنے کی تلقین کے
ساتھ ہے۔ علم ایک ایسی طاقت(Power) ہے کہ اس کاکوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ رب
تبارک تعالیٰ نے جب نبی کریم ﷺ کو علم سکھایا، بتایا، عطا فرمایا تو ان کی
امت کو علم جیسی انمول نعمت سے دور رہنا کیسے پسند فرمائے گا۔ احادیث میں
بھی علم حاصل کرنے کی بے شمار فضیلت ہے ۔آگے احادیث آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔
مختصر حال دنیا مطالعہ فرمائیں دنیا کی مختلف قوموں کی تاریخ اور ان کی
علمی ترقی کودیکھیں کس طرح مختلف علم سیکھ کر دنیامیں حکمرانی کررہے ہیں
اور دنیا کو اپنی مٹھی میں کئے ہوئے ہیں۔
علم کی طاقت: جاپان کو دیکھئے کہ ایک چھوٹا سا چند جزیروں پر مشتمل ملک ہے
لیکن اس کی ٹکنالوجی کی طاقت کا کمال ہے کہ پورے ورلڈ میں اس کی بنائی ہوئی
چیزوں(Product) کی کتنی اہمیت ہے اور مانگ ہے۔آج جب کہ انتہائی مسابقت (Competition)کادور
ہے اسے دوسرے ممالک جیسے چین، کوریا، امریکہ کی چیزوں میں آج بھی لوگ جاپان
کی مصنوعات کو پہلی پسند مانتے اور خریدتے ہیں۔ برطانیہ کو دیکھئے اگر مغرب
میں امریکہ اور کناڈاتک اس نے حکومت کی ہے تو مشرق میں بہت سے ممالک میں اس
کی حکومت رہی ہے۔ حالانکہ برطانیہ کا رقبہ بہت چھوٹا ہے ۔ برطانیہ کے ایک
طرف سے دوسری طرف کا فاصلہ چھ سو میل کے قریب ہے۔ یہ سب کس طاقت کا اثر
تھا؟یہ علم اور ٹکنالوجی کی طاقت کا نتیجہ تھا۔ ہمارے ملک میں برہمنوں کی
تعداد پانچ فیصد ہی کے قریب ہے لیکن عملاًپورے ملک کا اقتدار ان ہی کے
ہاتھوں میں ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں یہودیوں کی تعداد بھی تین فیصد کے ارد
گرد ہے لیکن ان کی علمی ، سائنسی ٹکنالوجی کی طاقت سے پوری دنیا ان سے ڈری
سہمی رہتی ہے ان کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔ ذرائع ابلاغ جیسا طاقتور ہتھیار
پوری طرح سے ان کے ہاتھوں میں ہے۔ بینکنگ کا نظام ان کی گرفت میں ہے۔ کیا
مجال کہ کوئی امریکی صدر یہودیوں پر کھل کر تنقید کرے ۔ اس کا جینا اور
صدارت کے عہدہ پر رہنا ناممکن بنا دیتے ہیں۔ یہ سب علم کی طاقت کا نتیجہ ہے۔
آج موبائل کا ہر شخص گرویدہ ہے اگر یہ کہا جائے کچھ ہی لوگوں کو چھوڑ کر
بڑے چھوٹے تعلیم یافتہ شخص ہو یا غیر تعلیم یافتہ شخص ہو، امیر ہو غریب ہو
وغیرہ وغیرہ ۔ ہر طبقہ موبائل کا غلام بن گیا ہے تو شاید بیجا نہ ہوگا۔ ۵؍فروری
۲۰۰۴کو مارک زکر برگ (Mark Zuker Berg)ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک باتونی لڑکے
نے Facebookلانچ کیا بہت تیزی سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔
ہندوستان میں بھی فیس بک ۲۰۰۷میں لانچ ہوگیا۔ اس کی اہمیت و افادیت کے پیش
نظر ہاورڈ یونیورسٹی نے اس کا استعمال امتحانی امور کی اطلاع کے لئے شروع
کر دیا اور آج پوری دنیا کی یونیو رسٹیوں، کالجوں، آفسوں میں اس کا استعمال
ناگزیر ہوگیاہے۔ ۱۹۸۴ میں نیو یارک میں پیدا ہونے والے مارک زکر برگ کی
زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کی لگن اور اس کی تعلیم اس کو کہاں تک
پہنچا دیتی ہے اور اسی کو کہتے ہیں دنیا کو مٹھی میں کر لینا۔ آج پوری دنیا
سے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا بلکہ دنیا کے ارب پتیوں (Billonaire)میں
اس کا شمار ہوتاہے۔ یہ ہے علم کی طاقت۔
یہ چند دنیاوی مثالیں ہیں۔ کلامِ الہٰی و فرمودات مصطفوی کے آگے اس کی کوئی
وقعت ہی نہیں۔ ساری دنیا کے لئے رشد وہدایت کے لئے نازل ہونے والی کتاب
قرآن مجید کی ابتدا’’اقراء‘‘ پڑھوسے ہوئی اور آخر میں بتادیا گیاکہ
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ
نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنَاط (القرآن ،سورہ
مائدہ،آیت ۳)ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی
نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام دین کو پسند کیا۔(کنزالایمان) اس میں
یہ بھی فرمان الہٰی ہے دین اسلام پسندیدہ مذہب ہے ۔
ہمارے نبی آقا ﷺ بھی علم وحکمت سکھانے والے نبی ہیں تو پھر اسلام پر چلنے
والے مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ علم کی جستجو میں جی جان سے لگ جائیں علم
حاصل کریں۔ آقا ﷺ کا فرمان ہے طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔(ابن ماجہ ،
مشکوٰۃ صفحہ ۳۴) علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد(عورت ) پر فرض ہے۔ یہ بھی
بتایا گیاکہ علم اسلام کی زندگی اور دین کا کھمبا(Piller) ہے اَلْعِلْمُ
حَیَاۃُ الْاِسْلَامِ وَعِمَادُالدِّیْن ۔ علم اسلام کی زندگی اور دین کا
کھمبا ہے ۔(کنزالعمال، جلد اول،صفحہ ۷۶) وغیرہ وغیرہ ۔ پھر یہ قوم علم سے
اتنی دور اور محروم کیوں؟وجوہات بہت سی ہیں پر وجوہات و رکاوٹوں سے لڑ کر
ہم کو علم حاصل کرنے کی سعی میں دن رات ایک کرنا ہوگا تبھی ہم دوسری قوموں
کے مقابلے میں کامیابی حاصل کر سکیں گے ۔علم آسانی سے حاصل نہیں ہوتا۔ حضرت
عبداﷲ بن یحییٰ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ﷺ نے فرمایا: علم جسم کے
آرام کے ساتھ حاصل نہیں ہوسکتا۔(مسلم حدیث نمبر ۱۲۹۰) کڑی محنت لگن سے علم
حاصل ہوتاہے اور جب علم حاصل ہوجاتاہے تو علم حاصل کرنے پر روزی کا ذمہ رب
تبارک تعالیٰ لے لیتا ہے۔مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ تَکَفَّلَ اللّٰہُ لَہٗ
بِرِزْقِہٖ۔ جس نے علم حاصل کیا اﷲ تعالیٰ نے اس کی روزی کو اپنے ذمۂِ کرم
پر لے لیا۔ (کنز العمال جلد ۱۰، ۔۷۹)۔
اﷲ کو طاقت ور مومن پسند ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: طاقتور مومن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر
ہے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث ۷۹،مسلم حدیث نمبر ۲۶۶۴، سنن نسائی ۶۲۵،مسند احمد
حدیث ۳۷ وغیرہ)مسلمانوں کوچاہئے علم حاصل کریں طاقتور مومن بنیں اور دنیا
کو دین اسلام کی دعوت دیں ۔ الحمد ﷲ! خانقاہ مارہرہ سے عظیم المرتبت
سجادگان حضور سید امین قاری دامت برکاتہ اور حضور سید نجیب حیدر نوری صاحب
قبلہ کے زیر سایہ البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی، علی گڑھ و مارہرہ شریف میں
علما کا تربیتی و ترغیبی کورس صحافت و خطابت پر چل رہاہے۔ بہت خوشی ہے ا ن
شاء اﷲ اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئیں گے طلبہ کرام محنت و ایمانداری سے
علم سیکھیں اور موجودہ زمانے کی سب سے طاقتور مانے جانے والی طاقت میڈیا پر
بھی اپنی پکڑ مضبوط کریں ۔یہ بہت بڑی دنیا ہے پر جتنا ممکن ہو وہی کریں
نہیں ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ ہزار قدم چلنے والابھی پہلے قدم کو آگے
بڑھا کر ہی ہزار قدم پر پہنچتاہے۔ گزشتہ چند سالوں سے مضمون نویسی کا فن
تیز ی پکڑ رہا ہے۔ آپ بھی اپنی بات، اپنا عقیدہ لوگوں کے سامنے پیش کریں آپ
جب بھی قلم اٹھائیں تو ذہن میں رکھیں کہ آپ کی لکھی گئی تحریر دوسروں تک
جائے گی اور لوگوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالے گی اپنی تحریر کو حوالہ جات
سے مزین رکھیں ۔ قرآن کلامِ الہٰی ہے دلوں کو مسخر کرتا ہے ۔ اس کا حوالہ
حدیث پاک، صحابہ، بزرگان دین کی سیرت سے بھی پیش کریں ۔ طویل مضامین سے
پرہیزکریں ۔ ہاں ، اگر حوالہ جات پر مبنی ہوتو بہتر ہے۔ عمدہ لکھنے کے لئے
مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ الفاظ سیدھے اور آسان استعمال کریں اور حقائق
بیان کرنے میں رو رعایت نہ کریں۔ گول مول بات نہ کریں آپ وراثِ انبیاء ہیں
خدارا حق بیانی سے قطعی گریز نہ کریں اور حق بیانی کو اول میں رکھیں ان شاء
اﷲ کامیابی قدم چومے گی۔ اﷲ پاک ہم تمام لوگوں کو حق وصداقت پر قائم رکھے۔
آمین! |