مردان یونیورسٹی کا دل خراش واقعہ!

گزشتہ دن یعنی جمعرات کے روز مردان میں عبدالوالی خان یونیورسٹی میں ایک دل خراش واقعہ رونما ہوا جس کی تفصیل کچھ یو ہیں کہ دو سے ڈھائی ہزار طلبہ مشتعل ہوگئے اور ان طلبہ نے عبدالوالی خان یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر ایک کی جانب پیش قدمی شروع کردی جہاں پر موجود تھے اس ہی یونیورسٹی کے تین طلب علم جن کے نام مشال خان، عبداﷲ اور زبیر خان ، جیسے ہی طلبہ کا ہجوم ہاسٹل میں ان کے کمرے کہ قریب پہنچا تو زبیر خان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور دو طلب علموں مشال خان اور عبداﷲ کو ہجوم نے گیر کر ان کو مارنے پٹنے لگی ، مار مار کر دونوں طالب علموں کو لہو لہان کردیا اس دوران کسی نے مشال خان پر فائرنگ کی اور اس کو قتل کردیا ، قتل ہونے کہ بعد بھی مشال خان کی لاش پر یونیورسٹی کے طلبہ کے ہجوم کا تشدد جاری تھا جیسے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ ایسا کیا ہوا تھاکہ جس نے اتنے پڑھے لکھے اور ماسٹرز کے لیے عبدالوالی خان یونیورسٹی مردان میں آیئے ہوئے ان طلبہ کو مشتعل کردیا؟ اور انہوں نے اپنی فیوچر کا خیال بھی نہیں کیا کہ اگر ہم مشال خان کو قتل کرتے ہے تو ہمارے اُپر ایف آئی آر کاٹی جائیگی اور ہم کو یونیورسٹی سے بیدخل بھی کیا جائیگا ۔ باجود تمام خدشات کے انہوں نے ایسا ہی کیا جو کہ نہیں کرنا چاہییے تھا ، وہ وجوہات یہ تھی ’’توہین مذہب، توہین اسلام ‘‘ ان تین طلبہ مشال خان ،عبد اﷲ اور زبیر پر الزام تھا کہ یہ لوگ شعائر اسلام کی توہین کرتے ہیں ۔ ان طلبہ پر لگنے والے الزام میں کتنی صداقت ہے یہ ابھی تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیگی ، لیکن ابتک ہونے والے پیش رفت میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مشال خان کے خلاف یونیورسٹی کے انتظامیہ کو کئی شکایات موصول ہوئی تھی جس کی بنیاد پر عبدالولی خان یونیورسٹی کے انتظامیہ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی اور مشال خان سمیت باقی دونوں طلبہ کا کیمپسز میں داخلہ بھی بند کرادیا تھا اور یہ تمام نوٹیفیکشن اسی روز جاری کیئے گئے جس روز یہ دل خراش واقعہ رونما ہوا ، اس واقعہ کی تحقیقات ابھی جاری ہے ابھی یہ دیکھنا ہے کہ اُنٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ لیکن اس واقعہ سے ہمیں کیا سبق ملا ؟ وہ یہ ہے کہ چاہیے آپ مدارس سے پڑھے ہو یا اسکول کالج سے لیکن اگر آپ کے سامنے کوئی بھی آپ کے دین یا مذہب کے بارے میں کوئی بھی غلط بات کریگا تو آپ طیش میں آؤگے ۔ اس د ل خراش واقعہ والے دن میں ایک ٹی وی ٹاک شو دیکھ رہا تھا جس میں ایک موم بتی آنٹی اس واقعہ میں بھی علما ء دین کو ملوث قرار دے رہی تھی اور مسلسل علما پر تنقید کر رہی تھی ، ساتھ یہ بھی کہہ رہی تھی کہ اس واقعہ کے بعد (مشال خان کے قتل کے بعد) ایسے مولویوں کو پابند سلاسل کردینا چاہیئے جو سخت گیر ہو ، یہ سُن کر افسوس ہی کرسکتا تھا ۔ اس واقعہ میں کوئی مولوی ملوث ہے ؟ جواب نہیں میں آئیگا ، پھر بھی یہ لوگ مولویوں کو ہی بدنام کرتے ہے ان کو مولوی فوبیا ہوگیا ہے ۔ یہ موم بتی والے جو خود کو روشن خیال کہتے ہیں ،یہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ہر انسان کی اپنی فیلنگ ہوتی ہے ، تم اگر کسی کے مذہب کی توہین کروگے تو وہ اس بات کو قطعََ نظر انداز نہیں کریگا ، جب کوئی موم بتی یا سیکولرز کے خلاف بات کرتا ہے تو تم ان کے خلاف روڈوں پر نکل آتے ہو۔ اس دل خراش واقعہ کی زمہ داری جتنی ہجوم کی ہے اس سے کئی گنا زیادہ عبدالوالی خان یونیورسٹی کے انتظامیہ کی ہے ، انتظامیہ نے مشال خان پر لگے الزامات کی حساسیت کو نہیں سمجھا اور جب تحقیقاتی کمیٹی بنا ئی گئی اور نوٹیفیکش جاری کیا گیا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ، توہین مذہب کے الزامات کا یہ واقعہ کئی مہینوں سے چل رہا تھا اور اینڈ مشال خان کے قتل پر ہو ا ، یونیورسٹی کے کئی طلبہ نے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے سامنے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم نے یونیورسٹی کے اساتذہ اور انتظامیہ کو بار بار اطلاع کی کہ مشال خان اور اس کے دوست اسلام اور شعائر اسلام کی توہین کر رہے ہیں ، ان کی یہ شکایات مشال خان کو بھی پہنچی جس پر اس نے اپنے فس بک آئی ڈی میں ایک پوسٹ کیا جس میں ا س نے کہا کہ میرے نام پر فیک آئی ڈی بنی ہے جو مجھے بدنام کر رہی ہے ۔ جب کی کچھ طلب علموں نے تو اس الزامات کو درست قرار دے دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ٹوص شواہد موجود ہے لیکن ہم یہ پولیس یا یونیورسٹی کے انتظامیہ کو نہیں دینگے یہ ہم جوڈیشل کمیشن کو دینگے ۔ اگر انتظامیہ اور پولیس مخلص ہوتی تو بر وقت کارائی کرتی اور یہ واقعہ رونما ہی نہیں ہوتا۔یہاں اس بات کی وضاحت بھی کرتا چلو کہ اگر مشال خان نے واقعی شان رسالتﷺ اورشعائر اسلام کی توہین کی ہے تو اس درناک موت سے بھی اس کی بخشش نہیں ہوگی ، لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا کسی نے اس پر جھوٹا الزام لگایا تو اس بے رحمانہ قتل سے مشال خان کو شہادت کا درجہ ملے گا ،لیکن دونوں صورت میں عوان الناس کو یہ اختیار نہیں کے وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں۔

ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا کیا جائے ؟تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہو۔ اگر کسی سیکولرز ونام نہاد روشن خیال سے پوچھیں تو وہ کہے گا کہ تحفظ ناموس رسالتﷺ ایکٹ میں ترمیم کی جائے اور حق خودارادیت کی کھلی اجازت دی جائے ،جواز کے طور پر وہ اس سانحہ کو پیش کریگا ، لیکن اس کے اس جواز اور ترمیم کے مطالبے سے اس طرح کے مسائل حل نہیں ہوتے ۔ یہ ظاہر میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے ، لیکن ان کو اس بات کا ادراک بھی رکھنا چاہیئے کہ ابتک اس قانون سے کسی بھی شخص کو سزا نہیں ہوئی، اور میرے خیال میں اس وجہ سے ہی یہ گستاخ بلاگرز ڈٹے ہوئے ہیں ۔ کراچی میں آئے روز قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا ، روزانہ دس ،پندرہ اور بیس افراد قتل ہو رہے تھے ، یو بھی ہوتا تھا کہ ایک گروپ دوسرے گروپ کے قاتل کو بھی قتل کر دیتاتھا ،مگر قتل غارت گری کا بازار ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ، جب حکومت نے سختی کی اور کچھ قاتلوں کو تختہ دار کیا تو اب دیکھیں کیسا امن ہے کراچی میں ۔اسی طرح حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے ، اگر حکومت وقت ایسے لوگوں کے خلاف کاروائی کرتی جو توہین رسالت ﷺ اور توہین مذہب میں ملوث تھے ان کو باہر جانے نہ دے تھی ان لئے مظاہرے کرنے والوں کو بھی پابند سلاسل کرتی تو کبھی بھی عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے تھی ، ہماری حکومت کو یکسا نظام رائج کرنا ہوگا، یہ بھی نہ دیکھے کہ یہ شخص سیکولرز ہے سیاسی ہے یا مذہبی ہے اگر پاکستان اور اسلام کے قوانین کے خلاف ہے اور خلاف کام بھی کررہا ہے تو فیل الفور گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دیں پھر دیکھئے امن کیسے نہیں آتا۔ کسی بھی مذہب کی توہین جائز نہیں مگر اس ملک میں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو اگر کوئی ہندو کی توہین کریں تو اقلیت کا نعرا لگا دیتے ہیں ، اگر کسی سیاسی شخصیت کی شان میں کچھ غلط کہا جائے تو عدالت تک گسیٹ تے ہیں ۔ لیکن شان رسالت ﷺ ،صحابہ کرام ؓ اور شعائر اسلام کی توہین پر خاموش اور پھر امن امن کی راگ الاپتے ہیں ۔ توہین مذہب تمام مذاہب میں منع ہے اور ہر ملک میں اس کے خلاف قانون موجود ہے ۔ ہماری حکومت کو بھی بنائے گئے قانون پر عمل کرنا چاہیئے اور جو بھی شعائر اسلام کی یا کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین کریں تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کر نی چاہیئے ۔ اگر حکومت سخت اقدمات کر تی تو یقیناََ‘‘ مردان یونیورسٹی کا دل خراش واقعہ ’’ہمیں دیکھنا نہ پڑتا ۔

اﷲ سے دعا ہے کہ یا اﷲ اس ملک اور اس میں رہنے والے لوگو ں کو اپنے حفظ و اماں میں رکھے (آمین)

Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 84884 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.