اترپردیش میں سلاٹرہائوسوںپرپابندی اورگوشت کی تجارت سے
وابستہ ہزاروں کوبے روزگارکرنے کے بعدلگتاہے کہ اب یوپی حکومت
مسلمانوںکوخوش کرنے کے لیے قدم بڑھارہی ہے ۔حال ہی میں اترپردیش کے
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے مدرسوں کی جدیدکاری کامنصوبہ پیش کیاہے
۔سوال یہ ہے کہ کیااہل مدارس اس کے لیے تیارہوں گے اوربغیرکسی خدشے کے پیش
نظراس منصوبے پرپوری طرح عمل کرنے کے لیے حکومت کے قدم سے قدم ملائیں گے
؟اس میں کوئی شک نہیں کہ جدیدکاری کایہ منصوبہ مدارس کے حق میں نہایت
بہتر،نتیجہ خیزاوربے حدانقلابی ثابت ہوسکتاہے بشرطیکہ حکومت اس سلسلے میں
پہلے ارباب مدارس کے چندمنتخب ،باشعوراورمستقبل شناس لوگوں کی میٹنگ طلب
کرے ،انہیںاعتمادمیں لے ،جدیدکاری کاخاکہ ان کے سامنے رکھے اورپھرکوئی
فیصلہ کرے۔حکومت جب تک ارباب مدارس کو اپنے اعتمادمیں نہیں لے گی تب تک یہ
منصوبہ کامیاب نہیں ہوگاکیوںکہ ہمارے یہاں حکومتوں خصوصاًبی جے پی حکومت کے
تئیں جوبے اطمینانی اوربے اعتمادی پائی جاتی ہے اس کی بنیادپراہل مدارس اس
منصوبے کوعملی شکل دینے کے لیے آسانی سے تیارنہیںہوںگے۔دوسال قبل
مہاراشٹرحکومت نے بھی اسی سلسلے کے اقدامات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن مسلم
رہنمائوں نے اس کی سختی سے تردیدکی اوراسے مدارس میں مداخلت سے
تعبیرکیا۔نتیجہ یہ ہواکہ یہ منصوبہ آج تک زیرالتواہے۔میرے فہم ناقص میں
مہاراشٹرکے مسلم رہ نمائوں کایہ ردعمل تاریخ سے ناواقفیت اوربلاوجہ کی
دوراندیشی اورخیالی اندیشوں کی واضح مثال تھی اوراب اترپردیش میں بھی کچھ
ایسی ہی مثالیں دیکھنے کومل سکتی ہیں۔
یوگی حکومت کامنصوبہ ہے کہ مدرسوں میںہندی اورانگریزی کے ساتھ ساتھ سائنس
،جغرافیہ ،ریاضی وغیرہ سمیت پیشہ ورانہ تعلیم بھی دی جائے اوریوپی کے
۱۹ہزار۲۱۳مدرسوں کے طلبہ کووظیفہ بھی جاری کیا جائے ۔حکومت کی نیت میں گوکہ
فتورہومگرواقعہ یہ ہے کہ اس فیصلے کانفاذاگربہترین ڈھنگ سے ہوگیاتوچندبرسوں
کے بعدمدرسوں سے ایسے فضلانکل سکیں گے جو دینی ودنیوی دونوں علوم سے لیس
ہوں گے اوروہ عصرحاضرکے احساسات کے مدنظراسلام کی ترجمانی کرنے پربھی
قادرہوں گے۔ہمارے یہاں اکثرشکوہ کیاجاتاہے کہ کارآمدافرادنہیں مل رہے، اس
کی ایک بڑی وجہ یہی مدارس کانصاب ہے۔ آپ تاریخ کامطالعہ کریں، برصغیرمیں
’’دینی مدرسے‘‘کاتصورسب سے پہلے انگریزگورنرجنرل وارن ہیسٹنگزنے پیش
کیااوراس نے سب سے پہلے دینی مدرسہ کے طورپر ۱۷۸۱میں کلکتہ میں ’’کلکتہ
مدرسہ ‘‘قائم کیا۔ انگریزحکومت نے پورے ملک کے مسلمانوں کواس بات
کاپابندکیاکہ مدرسوں میں اب صرف دینی علوم ہی پڑھائے جائیں۔یہ مدرسہ قائم
کرنے سے پہلے انگریزحکومت نے ۱۷۵۷سے مسلمانوں کے تمام دینی اداروں پرپابندی
عائدکردی ۔۱۷۵۷تک ان دینی مدرسوں میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم
بھی پڑھائے جاتے تھے ۔قرآن وسنت اورفقہ پرمبنی علوم وفنون کے علاوہ جن
علوم کی تدریس ہوتی تھی ان میں علم طب ،علم ادویہ ،علم ریاضی،علم
طبعیات،علم فلکیات،علم کیمیا،علم فلسفہ ،علم تاریخ ،علم موسیقی اورعلم
مناظرہ کے علاوہ اوربھی کئی طرح کے علوم شامل تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ان مدارس
سے نکلنے والے فضلا دینی اوردنیاوی علوم میں ماہرسمجھے جاتے تھے ۔یہ نظام
پورے برصغیرمیں نافذتھا اورآپ کوحیرت ہوگی کہ اس وقت برصغیرمیں ۹۵فی
صدخواندگی تھی ۔شرح خواندگی کامطلب یہ ہرگزمت سمجھیے کہ اس وقت کے
برصغیرکاانسان اپنانام لکھنااورپڑھناجانتاتھا بلکہ اس وقت کی سکہ رائج
الوقف فارسی زبان پراس کی اچھی گرفت ہوتی تھی اوروہ صحیح معنوں میں
پڑھالکھاانسان ہوتاتھا لیکن جب انگریز ۱۹۴۷میں برصغیر چھوڑ کر گیا تواس وقت
شرح خواندگی محض ۴۹فی صدتھی۔جانتے ہو،یہ سب’’ کمال‘‘ کس کاتھا ؟یہ اسی
’’دینی مدرسے ‘‘کے تصورکاکمال تھا جس نے مسلمانوں کومحض دینی علوم پڑھانے
پر مجبور کردیا تھا ۔انگریزوں کی دوغلی پالیسی دیکھیے کہ ایک طرف
توانگریزنے یہ کیااوردوسری طرف اپنی کمیونٹی کوہرطرح سے لیس کرنے کے لیے
۱۸۱۰میں کلکتہ ہی میں برصغیرکاپہلامشنری اسکول قائم کیاجس میں ہمارے سابقہ
اسلامی مدارس کی طرزپرمذہبی علوم کے ساتھ جدیداوردنیاوی علوم بھی پڑھائے
جاتے تھے ۔
’’دینی مدرسہ‘‘ قائم کرنے کے بعدانگریزنے یہاں کے فارغ التحصیل افرادکوبس
اسی ذمے داری کا درس لینے پرمجبورکیاجویورپ میںچرچ کے پادیوں کودیاجاتاتھا
یعنی بچہ پیداہوتوبپتسمہ دے دو، شادی ہوتواس کوقانونی حیثیت فراہم
کردو،مرجائے تواس کی آخری رسومات اداکرادواوراتوارکے دن عبادت کرلو۔ٹھیک
یہی حال مدرسوں کے فارغین کاہوا۔بڑے دردسے لکھناپڑرہاہے کہ اب مدرسوں کے
فارغین کایہی ایک کام رہ گیاہے کہ وہ بچے کے کان میں اذان دے دیں،شادی ہونے
پرنکاح پڑھادیں ،وفات پرنمازجنازہ پڑھادیں اورنمازوں کی امامت کرلیں ۔آپ
مجھے بتائیے کہ ان چاروں کے علاوہ کوئی اورکام رہ گیاہے مدرسوںکے فارغین
کا۔؟انگریزنے کیسی شاطرانہ چال اورخوبصورتی سے مسلمانوں کومحض ان کے مذہب
تک ہی محدودکرکے باقی امورکی قیادت سے انہیںبے دخل کیا۔حیرت ہے کہ آج
مسلمان خوش ہیں کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں اوریہاں سے اسلام کے
محافظین کی کھیپ تیارہوتی ہے ۔یقیناًہوتی ہے مگرکیامسلمان صرف مسلمانوں کی
ہی قیادت کے لیے بھیجے گئے ہیں اوراسلام صرف مسلمانوں کے لیے آیاہے؟
اوراگرایساہے توہمارے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ اللعلمین کیوں
ہیں رحمۃ المسلمین کیوں نہیں ہیں۔یہ ایک بہت بڑاسوال ہے جومدارس میں
جدیدعلوم وفنون کی شمولیت سے انکارکرنے والوں سے پوچھاجاسکتاہے۔
ہمارے ان قدیم مدرسوں کاہی کمال تھا کہ سول سروسیزکے لیے افرادتیارہوتے تھے
۔پورے برصغیرکی سول سروس مدارس کے ہی فارغین پرمنحصرتھی۔علاقے
کاکوتوال،خزانہ کامحافظ ،عدالتوں کے قاضی،عمارتوں کے انجینئر،تحصیل ،ضلع
،ڈویژن کے سارے ذمے داراورحکومت کے سارے محکموں میں یہی فضلاے مدارس کام
انجام دیتے تھے ۔لال قلعے،تاج محل ،قطب مینارسمیت برصغیرکی شاہ کار عمارتوں
کوبنانے والے کوئی اورنہیں انہی مدرسوں کے فارغ التحصیل تھے لیکن ۱۷۸۱کے
بعدتاریخ نے جوپلٹاکھایاتومسلمان جودنیاکی قیادت کے لیے آئے تھے صرف اپنے
مذہب تک محدودکردیے گئے اور انگریزآسانی سے ساری چیزوں پرحاوی ہوگیا۔
مدرسوں کے اس پس منظرکوذہن میں رکھیں اوراس کے بعدیوگی حکومت کے منصوبے
کاجائزہ لیں ۔ایک بات یادرکھیں کہ حکومت کے ہراقدام کوشک کی نگاہ سے
دیکھنادانش مندی نہیں ہے ۔گوکہ حکومت اس کے ذریعے مسلمانوںکوخوش کرناچاہتی
ہےمگرہمارے لیے مدرسوں کے زوال سے نکلنے کایہی ایک واحدراستہ ہے ۔مدرسوں کے
نصاب میں تبدیلی وترمیم کامسئلہ برسوں سے گونج رہاہے مگراب تک اس پرکچھ بھی
نہ ہواکیوںکہ ہمارےارباب مدارس ہمیشہ حکومت کے فیصلوںکوشک کی نگاہ سے
دیکھتے آئے ہیں ۔بہت سارے ارباب مدارس کوضروریہ خدشہ لاحق ہوگاکہ حکومت کی
نظرنصاب میں تبدیلی کے ذریعے مدرسوںمیں مداخلت کی ہے اس لیے وہ اس کی جم کی
مذمت کریں گے اوراس کی تکمیل میں رکاوٹ ڈالیں گے۔بزعم خویش وہ سمجھتے ہیں
کہ وہ مستقبل شناس ہیں،دوراندیش ہیں مگرکیاوہ صرف اسی معاملے میں دوراندیش
اور مستقبل شناس واقع ہوئے ہیں ؟بقیہ دیگرمعاملات میں ان کی دوراندیشی کہا
ںچلی جاتی ہے؟میراطالب علمانہ خیال ہے کہ جب حال اچھاہوگاتویقیناًمستقبل
بھی اچھاہی ہوگا۔ اور اگربالفرض ایساہونے والابھی ہوتومفروضہ خطروں کے پیش
نظرموجودہ فوائدسے چشم پوشی کہاں کاانصاف ہے؟اس لیے بلاوجہ کے خدشات میں
وقت ضائع کرنااورمواقع کوکھودینانہایت عاجلانہ اقدام ہوگا۔
ہمارے یہاں ایک خیال یہ بھی پیش کیاجاتارہاہے کہ جدیدعلوم کی شمولیت
کامشورہ صرف مدرسوں کوہی کیوں ،کالجوں میں اسلامیات کی شمولیت کامشورہ کیوں
نہیں ؟۔مسلمان اس سلسلے میں بڑے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ مدارس میں دنیوی علوم
کی شمولیت ایسے ہی ہے جیسے موبائل بنانے والی فیکٹری سے کمپوٹربنانے کی
امید رکھنا ۔ اس طرح کاخیال پیش کرنے والوں سے کہا جا سکتاہے کہ ۱۷۸۱سے
پہلے کا کوئی بھی مدرسہ ایسادکھادیں جہاں دینی ودنیاوی علوم ایک ساتھ نہ
پڑھائے جاتے ہوںاوردوسری بات ،جس کاراقم الحروف باربارذکرتارہاہے ،یہ ہے کہ
ہمیں اس وقت صرف اپنی فکرکرنی چاہیے ،دوسرے لوگ کیاکرتے ہیں اس سے ہمیں
کوئی سروکارنہیں ہوناچاہیے ۔ہم اس وقت جن مسائل کے شکارہیں پہلے انہیں حل
کریں ،بعدمیں دنیا کی فکرکریں ۔اپنی حالت کاجائزہ لیے بغیر دوسروں پرتبصرے
،شکوے اور مشورے نہایت احمقانہ عمل ہے ۔ |