عقل کی پرواز بہت محدود ہے، وحی کی وسعت کا اندازا عقل
نہیں لگا سکتی، اسی لیے وحی کے مقابل عقل کو قبلہ بنانا دانش مندی نہیں۔
قرآن مقدس نے اسی لیے عقلاے زمانہ کو چیلنج کیا تھا: ’’اور اگر تمھیں کچھ
شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے ان خاص بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو
لے آؤ‘‘ (البقرۃ:۲۳) یہ اس بات پر دلیل ہے کہ قرآن کے آگے سب عاجز و ساکت
ہیں اور اس کتابِ مقدس کے احکام شک و شبہے سے پاک ہیں،امام احمد رضا قادری
(م۱۹۲۱ء) نے سچ ہی فرمایا:
تیرے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منھ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
۱۷؍ویں صدی کے مشینی انقلاب نے مغربی قوتوں کو خود فریبی میں مبتلا کر دیا،
وہ گمان میں پڑ گئے کہ اب قرآن مقدس سے دلوں کو دور کرنا آسان ہو گا، لیکن
یہ گمان ڈھے گیا، قرآن کی حقانیت ایجادات و اختراعات کے ساتھ ساتھ اور
اجاگر ہوتی گئی، سائنس نے جہاں جہاں قرآن سے استفادہ کیا ٹھوس نتائج بر آمد
ہوئے، جانسن کے بہ قول: ’’یہی (قرآن مقدس کا) پیغام ایک تعمیری قوت کے طور
پر وجود میں آیا اور عیسائی دنیا میں بہ طور نور پھیل گیااور جہالت کی ظلمت
کو دور کر گیا۔‘‘ (تبرکات مبلغ اسلام،ص۴۹۳)
ایمان نام ہے اطاعت و تسلیم کا، ہم ایمان لائے، اﷲ و رسول کی اطاعت کا عہد
باندھا، قرآن کے احکام کو تسلیم کیا، اب اسے چھوڑ کر عقل خام کو قبلہ بنانا
منفی طرز عمل ہے جو مغرب کا وطیرہ ہے، مغربی قوتوں نے ایمان کم زور کرنے کی
غرض سے عقلی تحریک کو آگے بڑھایا، قرآن کریم نے عقل کی نہیں بلکہ اﷲ و رسول
کی اطاعت کی تعلیم دی:ـ ’’اور حکم مانو اﷲ کا اور حکم مانو رسول کا‘‘ (سورۃ
المآئدۃ:۹۲)
یوں ہی واقعۂ معراج ہے یعنی رسول کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ نے
عالم سموات کی سیر کروائی اور سب سے بڑھ کر اپنا قربِ خاص عطا فرمایا۔ اس
واقعۂ معراج کو بعض مغربی تعلیم سے مرعوب مسلمان عقل ناپاے دار کی کسوٹی پر
پرکھتے ہیں۔ اعتراض کرتے ہیں کہ کس طرح کم وقت میں فرش سے عرش گئے، رب کا
دیدار کیا؟ اور مشاہدات کیے؟…… قرآن نے صاف فرما دیا: ’’پاکی ہے اسے جو
راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرد اگرد
ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں۔‘‘ (سورۃ بنی
اسرائیل:۱)
سوچنے والی بات ہے کہ نبی، رب قدیر کے پیغامات پہنچاتے ہیں، انھیں نیابت
الٰہی حاصل ہوتی ہے، ’’رب کی عظیم نشانیاں‘‘ ملاحظہ فرما کر انھوں نے
انسانیت کو سنوارا، رب نے انھیں اپنی ربوبیت کی پہچان کا ذریعہ بنایا، تو
انھیں اپنی عظیم نشانیاں دکھا دے تو جائے تعجب کیا؟ اعتراض کیسا؟ رب نے
بتایا اور وہ قدرت والا ہے، اس میں کلام رب کی قدرت پر جسارت ہے…… قرآن و
حدیث دونوں پر ہمارا ایمان ہے اور دونوں ہی معراج مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم
پر دلیلیں رکھتے ہیں، قرآن مقدس میں مسجد اقصیٰ تک کا بیان تو بالکل واضح
ہے اور احادیث میں آگے کی منازل اور رویت باری (دیدار الٰہی) کا بیان ہے۔
قادر مطلق نے اپنی قدرت سے اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنا دیدار عطا
فرمایا، ہم اس رُخ سے یہاں چند دلائل ذکر کیے دیتے ہیں تا کہ ایمان کو
تازگی ملے اور اسلام مخالف قوتوں کو ضرب کاری۔
سورۃ والنجم میں بہت واضح طور پر معراج کا ذکرفرمایا گیا، جس میں یہ بھی
ارشاد ہوا کہ حضور اقدس اپنی خواہش سے نہیں کہتے جو رب کی مرضی ہوتی ہے وہی
فرماتے ہیں، ملاحظہ کریں: ’’اس چمکتے تارے (محمد) کی قسم جب یہ معراج سے
اترے، تمھارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے، اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے
نہیں کرتے وہ تو بس وحی ہوتی ہے جو انھیں کی جاتی ہے انھیں سکھایا سخت
قوتوں والے طاقت ور نے، پھر اس جلوہ نے قصد فرمایا اور وہ آسمان بریں کے سب
سے بلند کنارے پر تھا، پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا، پھر خوب اتر آیاتو اس جلوہ
اور محبوب میں دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا، پھر وحی
فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا، تو کیا تم
ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو، اور انھوں نے وہ جلوہ دو بار دیکھا
سدرۃالمنتہیٰ کے پاس۔‘‘ (سورۃالنجم)
دیدارِ الٰہی کی بابت کفار مکہ اور یہودو نصاریٰ کو بہت شاق گزرا اور وہ
حسد میں پڑ گئے، اس حقیقت کو جھٹلانے کو بہانے تلاش کرنے لگے، وحی نے ان کے
عزائم کو خاک میں ملا دیا، اول سے ہی معراج النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
کا انکار یہود و نصاریٰ کرتے چلے آئے ہیں۔اسی سبب راقم نے معراج نبوی کے
انکار کو مغربی اندازِ فکر سے تعبیر کیا ہے۔
علامہ محمد زرقانی کے حوالے سے امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں: نبی صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کے خصائص سے ہے کہ حضور نے اﷲ عزوجل کو اپنی آنکھوں سے
بیداری میں دیکھا، یہی مذہب راجح ہے اور اﷲ عزوجل نے حضور سے اس بلند و
بالا تر مقام میں کلام فرمایا، جو تمام امکنہ سے اعلیٰ تھا، اور بے شک ابن
عساکر نے انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم نے فرمایا شبِ اسریٰ مجھے میرے رب نے نزدیک کیا کہ مجھ میں اور اس میں
دو کمانوں بلکہ اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا۔ (دیدار الٰہی،ص۱۱۔۱۲)
امام نسائی اور امام ابن خزیمہ و حاکم و بیہقی کی روایت میں ہے: کیا
ابراہیم کے لیے دوستی اور موسیٰ کے لیے کلام اور محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کے لیے دیدار ہونے میں تمھیں اچنبا ہے، حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح ہے،
امام قسطلانی نے فرمایا اس کی سند جید ہے…… حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ
عنہما فرمایا کرتے بے شک محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو بار اپنے رب
کو دیکھا، ایک بار اس آنکھ سے اور ایک بار دل کی آنکھ سے۔ امام سیوطی و
امام قسطلانی و علامہ شامی و علامہ زرقانی فرماتے ہیں اس حدیث کی سند صحیح
ہے۔ (مرجع سابق،ص۳۔۴)
خطیب بغدادی حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے راوی، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم فرماتے ہیں: شب اسریٰ مجھے میرے رب عزوجل نے نزدیک کیا یہاں تک
کہ مجھ میں اس میں دو کمان بلکہ کم کا فاصلہ رہا۔(ختم نبوت، ص۱۲، امام احمد
رضا)…… مجھے یہاں امام شرف الدین بوصیری کا وہ شعر یاد آ رہا ہے جو معراج
کی طرف اشارہ کرتا ہے:
وَبِتَّ تَرْقیٰ اِلٰی اَنْ نِلْتَ مَنْزِلَۃً
مِنْ قَابَ قَوْسَیْنِ لَمْ تُدْرَکْ وَلَمْ تُرَمٖ
ترجمہ: آپ بلندیوں کی جانب بڑھتے رہے، یہاں تک کہ ’’قاب قوسین‘‘ کی وہ منزل
پالی جس تک نہ کسی کی رسائی ہوئی نہ ہمت (وہ یہ کہ صرف دو کمانوں کا فاصلہ
رہ گیا۔)
ہمیں ایمان، رب کی معرفت، توحید کی تعلیم، حق کی پہچان سب بارگاہ نبوی صلی
اﷲ علیہ وسلم سے ہی عطا ہوئے، ان کی رسائی بارگاہِ رب تک اور ہماری رسائی
بارگاہِ مصطفی تک، اسی لیے امت محمدی کو جو مقام ملا وہ دوسری امتوں کو نہ
ملا۔ ان سب انعامات و امتیازات کے باوجود واقعۂ معراج سے متعلق صہیونی
اندازِ فکر کو اہمیت دینا مناسب نہیں، اور یہی مغربی سازش بھی تھی کہ
مسلمان اپنے نبی کی عظمت میں شک کرے، مغرب کے ایسے حربوں کو ناکام کرنا
ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ ایک مسلمان کو لازم ہے کہ وہ اپنے نبی کی عظمت کے
ترانے گنگنائے، امام شرف الدین بوصیری فرماتے ہیں: ’’ہم مسلمانوں کے لیے
خوش خبری ہے کہ عنایت ربانی سے ہمیں ایک ایسا ستون میسر آگیا ہے جو کبھی
زمیں بوس نہ ہوگا۔‘‘
٭٭٭
|