مشال خان بلا شبہ مظلومیت کی حالت میں مارا
گیا درد دل رکھنے والے لوگ الیکٹرانک،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر مشال خان کی
مظلومانہ شہادت پر نوحہ پڑھ رہے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس
واقعہ سے ہر انسان کا سر شرم سے جھک گیا ہے بہت سے لوگوں نے اپنے جذبات کا
اظہار کرتے ہوئے اس واقعہ کو انسانیت اور ضمیر کی موت قرار دیا ہے۔کسی نے
لکھا ہے کہ مشال خان کی اوندھے منہ پڑھی ہوئی لاش پر پڑنے والے ٹھڈے اور
ڈنڈے درحقیقت اسلام کے نحیف جسم پر برس رہے تھے جس کے نتیجے میں مشال کی
صورت میں اسلام قتل ہوا۔
کسی نے کہا کہ مشال کی موت کا پورا معاشرہ ذمہ دار ہے اور ہم سب مشال خان
کے قاتل ہیں۔عقل و دانش کا حامل اور درد دل رکھنے والا ہر شخص ان جذبات کو
قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس بربریت کی سخت ترین الفاط میں مذمت کرتا
نظر آتا ہے لیکن انہی جذبات و احساسات کے جھرمٹ میں ایسے جذبات اور بیانات
کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے جن کا اسلامی تعلیمات سے تو کیا انسانیت سے
بھی دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔
ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد پاکستان میں ایک فکری رجحان تیزی سے اپنی
جڑیں مضبوط کر رہا ہے جو جہالت کی تمام حدیں پھلانگ جانا چاہتا ہے اس فکری
رجحان کے روح رواں مولانا خادم رضوی صاحب ہیں جو کبھی کہتے نظر آتے ہیں کہ
اسلام امن کا دین نہیں ہے تو کبھی ممتاز قادری کی شان میں جھوٹے افسانے گھڑ
کر عام لوگوں کو گمراہ کرتے نظر آتے ہیں یہی نہیں بلکہ مولانا کی سربراہی
میں ممتاز قادری جیسے قاتلوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور اس امر
کے حصول کے لئے اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا۔
جبکہ ریاست کے کرتا دھرتا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں اگر ممتاز
قادری کی پھانسی کے بعد اس فکری رحجان کا سد باب کرنے کے لئے ریاستی سطح پر
اقدامات کئے جاتےتو ایسے واقعات کا راستہ روکا جا سکتا تھا لیکن مولانا
خادم رضوی کو اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے جس کے
نتیجے میں معاشرے میں تشدد پسندی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اس بات میں کوئی
شک نہیں کہ عوام ہر مکتب فکرکے علما کو اپنا رہبر تصور کرتے ہوئے ناصرف ان
کی بات غور سے سنتے ہیں بلکہ دل و جان سے اس پر عمل بھی کرتے ہیں اس لئے
علما کو بہت احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے لیکن ایک خاص مکتب فکر میں غیر
معمولی حد تک مقبول مولانا خادم رضوی نا صرف احتیاط کا مظاہرہ نہیں کرتے
بلکہ عوام کے دینی جذبات کا فائدہ اٹھا کر انہیں تشدد کی طرف مائل کر
رہےہیں راقم نے پنجاب اور سندھ کی یونیورسٹیوں کو نزدیک سے دیکھا ہے اس لئے
مشال کے قتل پر میرے لئے یہ باور کرنا مشکل تھا کہ ایک یونیورسٹی میں بغیر
تحقیق کے طالبعلموں نے اپنے ہی ساتھی کو انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا۔
میرے خیال میں ہر چند مشال کو مارنے والے جوان بھی سزا کے مستحق ہیں لیکن
ان سے زیادہ سزا کے مستحق وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایسا فکری رجحان پیدا کیا جو
توہین رسالت کے ملزم کوبغیرکسی تحقیق کے قتل کرنے والے کو اسلامی ہیروکے
طور پر پیش کرتا ہے۔اگر آپ جرم کی جڑ کاٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ کو سب
سے پہلے مذکورہ فکری رجحان کے روح رواں لوگوں کی زبانوں کو لگام دینا ہو گی
ورنہ ہمیشہ سلمان تاثیر اور مشال خان جیسے بے گناہ لوگ جہالت اور دینی
گمراہ سوچ کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ |