انسان کی شریف ترین میراث، تہذیب ہے،
انسان، علم حاصل کرتا ہے، اخلاق سیکھتا ہے، استادوں کے سامنے زانوئے ادب
تہہ کرتا ہے، مشاعروں میں جاتا ہے، دانش وروں کے جوتے سیدھے کرتا ہے،
یونیورسٹیوں میں وقت صرف کرتا ہے، علما کی محفلوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے،
کتابیں کھنگالتا ہے تا کہ ان سے تہذیب سیکھے اور مہذب بنے۔
اگر انسان کے پاس علم آجائے، اخلاق کی بڑی بڑی کتا بیں پڑھ لے، فی البدیہہ
اشعار کہہ لے، دنیا میں اس کی دانش کا سکہ چلنے لگے لیکن مہذب نہ ہو، چھوٹے
بڑے کا احترام نہ کرے، دستر خوان پر بیٹھنے کے آداب نہ جانتا ہو، دوستوں
سے بات کرنے کے سلیقے سے عاری ہو، ہمسائے کو بلانے کی تمیز نہ ہو اور قانون
کو خاطر میں نہ لاتا ہو۔۔۔
ایسےانسان کو زیادہ سے زیادہ الفاظ کا مخزن تو کہا جاسکتا ہے لیکن انسانوں
کے لئے مشعل ِ راہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے جس
ہستی کو عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل اور مشعل راہ قرار دیا ہے، اس ہستی نے
انسانوں کو فقط الفاظ نہیں سکھائے بلکہ انہیں تہذیب سکھائی ہے اور مہذب
بنایا ہے۔
یہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی سکھائی ہوئی تہذیب کا ہی نتیجہ تھا کہ ماضی میں پانی
پینے پلانے پر جھگڑنے والے ،اسلام قبول کرنے کے بعد ، خود پیاسے رہتے تھے
اور دوسروں کو پانی پلا کر فرحت اور تسکین محسوس کرتے تھے۔ زمانہ جاہلیت
میں ہمسائیوں کو تنگ کرنے والے، اسلام قبول کرنے کے بعد خود بھوکے رہتے تھے
اور ہمسائے کے گھر میں کھانا بھیجتے تھے، دیگر مکاتب و مذاہب اور قبائل پر
شبخون مارنے والے، مسلمان بننے کے بعد سب کو مکالمے، دوستی اور بھائی چارے
کی دعوت دیتے تھے، بچیوں کی ولادت کو ننگ و عار کا باعث سمجھنے والے ، کلمہ
طیّبہ پڑھنے کے بعد بیٹیوں کو رحمت کا باعث سمجھنے لگے۔ یہ تھی پیغمبرِ
اسلام ﷺ کی سکھائی ہوئی تہذیب کہ جس نے کالے اور گورے، عربی اور عجمی،
قریشی اور حبشی کا فرق مٹا دیا تھا، جی ہاں! یہ تھی وہ تہذیب جس نے قرن کے
اویسؓ، حبش کے بلالؓ، یمن کے مقدادؓ اور مدینے کے ایوب انصاریؓ کو آپس میں
بھائی بھائی بنا دیا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ ، آج ہمارے پاس اسلام کے نام پر فقط الفاظ باقی رہ گئے
ہیں اور اسلامی تہذیب ختم ہوتی جا رہی ہے ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام
کے نام پر بنائے جانے والے اس ملک کے ایک شہر سیالکوٹ میں لوگوں کا ہجوم
ایک شخص کو بجلی کے کھمبے سے باندھ کر اتنا مارتا ہے کہ اس کی روح پرواز کر
جاتی ہے، لیکن کوئی مسلمان اسے بچانے کے لئے آگے نہیں بڑھتا ، اور ہمارے
اسلامی ملک کی فوج اور پولیس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔۔۔
اسی طرح کچھ دن پہلے سرگودھا میں ایک پیر صاحب نے لوگوں کو ڈنڈے مار مار کر
ہلاک کر دیا ۔ یعنی لوگ اسلام کی تہذیب کو سیکھنے کے بجائے پیری مریدی کی
تہذیب پر قربان ہو گئے، مردان یونیورسٹی میں جس درندگی کے ساتھ مشال خان کو
قتل کیا گیا اس کی بھی اسلامی تہذیب میں کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔
اس وقت خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات کی صورتحال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے
ضلع سوات میں خواتین کی خودکشیوں کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا
ہے۔ ضلع میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے خوئندو جرگہ، دی
اویکننگ اورپولیس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران سوات میں
377عورتوں نے خودکشی کر کے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرديا ہے۔
خیبرٹیچنگ ہسپتال کے سائیٹکری وارڈ کے ڈاکٹراعزاز جمال سوات کی خواتین کے
خودکشی کے وجوہات پر تحقیق کررہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سوات میں جھوٹے
خودکشی کے واقعات کے تو اپنی جگہ لیکن حقیقت میں بھی حالیہ چند برسوں میں
یہاں پر خودکشی کے واقعات میں ڈبل اضافہ ہوا ہے اور ان کی تحقیق کے مطابق
خیبرپختونخوا میں گزشتہ چند سالوں میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات سوات
میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر اعزاز جمال نے میڈیا کو بتایا کہ سوات کے بعد جنوبی اضلاع بنوں، ڈیرہ
اسماعیل خان اور کوہاٹ میں خودکشی کے زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں اور ان
واقعات میں اٹھارہ سے تیس سال عمر خواتین کی شرح زیادہ ہے۔
ابھی حالیہ دنوں میں ہی پاکستان کے دارالحکومت میں ،ایئرپورٹ پر تعینات ایف
آئی اے اہلکار وں نے دو مسافر خواتین کو مار مار کر بے حال کر دیا، ایف آئی
اے اہلکاروں نے دونوں کو کمرے میں لے جا کر مبینہ طور پر شدید تشدد کا
نشانہ بنایا۔ خواتین کی حالت بگڑ گئی تو انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہی ایک اور واقعے میں ایف آئی اے
اہلکاروں نے مانچسٹر کے قریبی قصبے اولڈہم جانے والی مسعود نامی شخص کی
فیملی کی بھی خوب مار پیٹ کی ، جس پر لڑکی کے بھائی نے احتجاج کیا تو باپ
اور بیٹے دونوں پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔
آج جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں ، اس وقت پسرور کے نواحی گاوں ننگل
مرزا میں 3 بہنوں نے ملکر 13 برس بعد گستاخی مذہب کے الزام میں ایک شخص فضل
عباس کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ برقعہ پوش افشاں، آمنہ اور رضیہ، ننگل
مرزا میں دم کرانے کے بہانے مظہر حسین سید کے گھر میں داخل ہوئیں اور فضل
عباس سے ملنے کی خواہش کی۔ جب فضل عباس سامنے آیا تو اسے گولیاں مار کر
قتل کر دیا۔ تینوں خواتین نے الزام لگایا کہ فضل عباس نے 2004ء میں مذہب کی
گستاخی کی تھی۔
یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تہذیب سے ناآشنائی کی وجہ سے ہو رہا
ہے۔ اس کے اصل ذمہ دار ، اسلامی تہذیب سے عاری وہ علمائے سو ہیں جنہوں نے
لوگوں کو مذہبی غیرت کے نام پر قتل وغارت، سنگسار اور خودکشیاں کرنا نیز
کافر کافر کے نعرے تو سکھائے لیکن لوگوں کو اسلامی تہذیب نہیں سکھائی۔
موجودہ صورتحال کو سنبھالنے کے لئے مخلص علمائے کرام کی اوّلین ذمہ داری یہ
بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو کلمہ طیبہ سکھانے کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب بھی
سکھائیں۔ لوگوں کو بتائیں کہ دین اسلام میں فوج اور پولیس کا اخلاق کیسا
ہونا چاہیے، عوام کو حکومتی اداروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے، خواتین
کے حقوق کیا ہیں اور اسلامی معاشرے میں ان کی اہمیت و حیثیت کیا ہے! مذہبی
اختلافات کو حل کیسے کیا جاتا ہے اور مذہبی مسائل میں بولنے کا حق کسے حاصل
ہے! دین اسلام میں قانون کی بالا دستی اور قانون کا احترام نیز سرکاری
اداروں کی رٹ کیسے قائم کی جانی چاہیے۔۔۔ یہ سب ایسے موضوعات ہیں جن پر
علمائے کرام کی طرف سے باقاعدہ کام کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کو مزید ابتری
کی طرف جانے سے روکا جائے۔
یاد رکھئے ! جس معاشرے میں انسان درندگی پر اتر آئیں یا خود کشی پر مجبور
ہو جائیں، لوگ احترام باہمی کو بھول جائیں، افراد قانون کو اپنے ہاتھوں میں
لے لیں، معاشرہ ماورائے عدالت سزائیں دینا شروع ہو جائے، اور انسانیت اپنا
احترام کھو دے ، وہ معاشرہ اور تمدن بڑی بڑی مسجدوں اور لمبی لمبی اذانوں
کے باوجود کبھی بھی اسلامی نہیں ہو سکتا۔
آخر میں مختصرا ایک جملے میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہمارے معاشرے کو بگاڑنے
میں علمائے سو کا ہاتھ ہے اور اب اسے سنوارنے کے لئے علمائے حقہ کے حسنِ
اخلاق کی ضرورت ہے۔ |