زندگی نہ ہی آسان ہے اور نہ ہی کسی کے لیے آسان ہوتی
ہے۔ اکثر ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ فلاں کی زندگی تو بہت آسان
ہے ،وہ تو بڑا کامیاب ہے ۔ کامیابی بغیر وجہ سے نہیں ملتی ۔ہر چیز کی ایک
قیمت دینا ہوتی ہے ۔ جو بھی کامیاب نظر آتے ہیں ۔ وہ یہ قیمت خوشی سے ادا
کرتے ہیں ۔ جبکہ جو ناکام ہوتے ہیں ۔وہ الزام تراشی سے کام لیتے ہیں ۔کبھی
وقت تو کبھی حالات ،کبھی والدین تو کبھی حکومت کو اپنی ناکامی کا سبب مانتے
ہیں۔ جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو زندگی کے بے شمار ایسے واقعات نظر
آتے ہیں ۔جن کے ہونے پر میں غصہ تھی لیکن اب سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ وہی
تھے جنہوں نے میری زندگی کے نخلستان کو ہرا رکھنےکے لیے کھاددی ۔ ورنہ
زندگی تو کسی صحرا کی طرح ہوتی۔
جب کوئی مشکل آتی ہے تو انسان چڑ جاتا ہے۔خاص کر ہر کسی کی زندگی میں کوئی
نہ کوئی ویلن ضرور ہوتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ کچھ لوگ تیلی لگانے والے لازمی
ہر کسی کی زندگی میں ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ تو تیلی لگا کر چلے جاتے ہیں ، اب
ہم پر ہوتا ہے کہ ہم کس طرح اس ننھی سی آگ کو اپنے آپ کو روشن کرنے کے
لیے بڑا کرتے ہیں یا پھر خود کو جلا کر اپنا جیون جہنم بنا لیتے ہیں ۔ جب
میں آٹھویں کلاس میں تھی تو مجھے یاد ہے ۔ ہمارا ایک گروپ ہوتا تھا۔ سٹار
گروپ ۔ یہ نام اس وجہ سے تھا کہ ہم دوستوں کے نام کے پہلے ایلفابیٹز کو لے
کر سٹار ز بنتا تھا۔
صائمہ، تنزیلہ،میں اسماؑباقی کی دوستیں ریحانہ اورسمیرا تھیں۔ ہم لوگوں میں
سب سے نالائق میں ہی تھی ۔اس نالائقی کی وجہ میرا سچ میں نالائق ہونا نہیں
تھا بلکہ پڑھنے کی بجائے ہر کام پر دھیان دینا تھا۔ میں صرف پاس ہونے کے
لیے پڑھتی تھی۔ایسے ہی باتوں باتوں میں صائمہ نے کہا یار ہمارا اتنا اچھا
گروپ اب ٹوٹ جائے گا۔ میں نے کہا کیوں کیا ہوا تو بولی اب سائنس اور آرٹ
کے سیکشن بنیں گئے تو تمہارا تو سائنس میں جانا مشکل ہے ۔ میں نے کہا کیوں
تو اس نے بتایا کہ ستر فی صد جس کے نمبر ہوں گئے وہی لڑکی سائنس لے سکے گی
۔باقی کی دوستوں میں سے کچھ ہنسی اور کچھ نے افسردگی کا اظہار کیا۔ مجھے
ہنسنے والوں کی ہنسی پسند نہ آئی اور میں نے غصے میں آ کر کہا ،ابھی تو
بہت وقت ہے ۔دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔اس دن جب میں گھر آئی تو سارا دن اپنی
دوستوں کو کوستی رہی۔ دوسرے دن کلاس کی سب سے آخری ڈیکس میں جا کر بیٹھ
گئی ۔ وہاں اکثر ایسی لڑکیاں بیٹھتی تھیں ۔جو سب سے نالائق ہوتی تھیں ۔
میرا گروپ مجھے راضی کرنے کے لیے بریک ٹائم پیچھے آیا۔ اسما ٗ یار ذرا سی
بات کا بتنگر نہیں بناتے ۔یہ کیا ہے تنزیلہ نے ناراض ہوتے ہوئے کہا ۔ اپنی
جگہ پر آو ۔ میں نے غصہ میں آ کر کہا۔ ویسے بھی گروپ سال کے آخر میں ٹوٹ
جائے گا تو میں سوچ رہی ہوں ابھی سے نئی دوستیں بنا لوں۔ میں نے اپنے ساتھ
بیٹھی فرزانہ نامی لڑکی کی طرف اشارہ کیاتو وہ بھی مسکرا دی ۔ صائمہ نے
مسکراتے ہوئے پھر کہا۔ نہیں آتی تو بیٹھنے دو ۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے
اپنے جیسی لڑکیاں مل گئی ہیں اَسے ۔یہ ویسے بھی سٹار ز کا اے ڈیزرو نہیں
کرتی ۔ اس نے میرے اندر لگی ہوئی آگ پھر گھی ڈالا ۔ یہاں تک کہ دھواں میں
نے اپنے کانوں سے نکلتا ہوا محسوس کیا ۔ اس دن تو جب میں گھر آئی تو میرے
اندر ایک طوفان سا چل رہا تھا۔ وہ ایسا کہہ کیسے سکتی ہے ۔ کیسے ؟اس کے بھی
توکبھی ساٹھ فی صد تک نمبر نہیں آئے۔میں خود سے باتیں کر رہی تھی ۔ میری
باجی جو میری نس نس سے واقف تھی مجھے اپنے آپ سے لڑتا دیکھ کر بولیں ۔آج
تو اسما ٗ تمہاری کسی سے جنگ ہوئی ہے۔ ہے نا۔ بولو نا کیا ہوا ۔ میں چپ چاپ
ان کا منہ دیکھنے لگی۔ وہ مسکرائی اور بولی۔ یہ آج کل تمہارا باجا کیوں
خراب ہے ورنہ تو مجھے کہانیاں سناتی ہو ۔صائمہ نے یہ کر دیا۔ ریحانہ نے یوں
کہا۔ تنزیلہ کے گھر یہ ہو گیا۔ کل بھی تم سارا دن خاموش تھی اور آج تو
تمہارے باجے کا بٹن لگتا ہے اندر کی طرف کھلا ہے۔ کیا ہوا ۔ پہلے تو میں نے
ایک منٹ ان کی طرف دیکھا اور پھر ایسے روئی جیسے کوئی مر گیا ہو۔ وہ پریشان
ہو گئی ۔ ارے اسماٗ ارے کیا ہوا ۔ میں مذاق کر رہی تھی ۔ کچھ بُرا لگا ۔
تمہیں ۔میں مذید رو رہی تھی۔انہو ں نے مجھے پیار سے تسلی دی ۔ پانی لے کر
آئی ۔ پھرمجھ سے سوال کیا ۔ آخر کیا ہوا؟بتاو تو ۔ میں نے اپنا دُکھ بیان
کیا ۔ کیسے میری دوستیں جنہیں میں جان سے ذیادہ چاہتی تھی۔ ان میں سےکچھ نے
میرا مذاق اُڑایا ۔ باجی نے کچھ دیر سوچا اور بولیں ۔ تم نے انہیں جواب
نہیں دیا۔ میں نے آنسو صاف کیے ۔ کیا جواب دیتی میں وہ سچ ہی تو کہہ رہی
تھی۔ میرے تو کبھی پینتیس فی صد سے اوپر نمبر آئے ہی نہیں ۔ تو باجی نے
دھیرے سے کہا۔ یہ تو سچ ہے ۔ سچ تبدیل ہو سکتا ہے لیکن۔ میں نے باجی کی طرف
دیکھا ۔آپ نے مجھ سے کچھ کہا ہے۔ باجی نے کہا ۔ہاں تم کو شش کرو تو تم بھی
سائنس لے سکتی ہو ۔ تمہارا دماغ بہت چلتا ہے دیکھو نا۔ تم ہر کام میں اگے
ہوتی ہو ۔ تمہیں تو فلموں کے گانے۔ لمبی لمبی کہانیاں کیسے یاد رہتی ہیں ۔
دیکھو کیسے چار دن میں تم نےچار سو ستر صفحات کی کتاب پڑھ لی تھی سوچوں اگر
تم چاہو تو اپنی دوستوں کو اپنے عمل سے جواب دے سکتی ہو۔ ستر فی صد تو کیا
تم نوئے فی صد بھی لے سکتی ہو ۔ باجی کی بات سن کر مجھے حوصلہ محسوس ہوا ۔
میں نے دل میں ٹھانی ہاں میں ایسا ہی کروں گی۔
بس پھر کیا تھا۔ جب رذلٹ آیا تو میرے سچ میں جس قدر نمبر آئے تھے انہیں
دیکھ کر میرا پورا گروپ حیران تھا۔ میرے اٹھانوے فی صد نمبر تھے میری ٹیچر
نے نہ صرف مجھے شاباش دی بلکہ کلاس کو باآواز بلند کہا ۔ اس لڑکی نے مثال
قائم کی ہے ۔ جس کے پچھلے امتحان میں چالیس فی صد نمبر بھی نہیں تھے ۔اس کا
فسٹ آنا کسی انہونی سے کم نہیں ہے ۔ آپ اس سے وہ راز ضرور پوچھیے گا۔ جس
کی وجہ سے اس نے یہ کامیابی حاصل کی۔ میری نظر اچانک سے صائمہ کی طرف مڑ
گئی ۔ جو مسکراتے ہوئے تالیاں بجا رہی تھی۔ خیر میری اِتنی محنت کے باوجود
بھی میں اپنے گروپ کو ٹوٹنے سے نہیں روک سکی۔
میں اب سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ وہ لمحہ کس قدر اچھا تھا جس میں اس نے مجھے
میری اوقات دیکھائی ۔ ورنہ شاہد میں کبھی سائنس نہ رکھ پاتی۔ میں نے میٹرک
اچھے نمبر وں سے کر لیا ۔ کالج میں داخلہ لینا تھا۔ مجھے ایف جی سبی تو
کالج پسند تھا ۔میرے نمبر اچھے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ مجھے داخلہ مل جائے
گا۔ جب ہم پرسپکٹس لے کر آئے تو پتہ چلا کہ انہوں نے داخلہ کے لیے سلیکٹ
کرنے کے بعد کی ڈیٹ جو رکھی تھی وہ پندرہ تھی ۔جبکہ ایک دوسرا کالج جو انٹر
کالج کے نام سے مشہور تھا ۔ساری نالائق لڑکیوں کو داخلہ دے دیتا تھا۔ جس کی
عمارت ۔ غریبوں کے گھر جیسی تھی ۔کچھ ٹوٹی کچھ بنی۔ جہاں گیارہوں ،بارہوں
کی دو ہی کلاسز پڑھائی جاتی تھیں۔ ابو نے اس کی پراسپیکٹس بھی لے لی ۔میں
نے دیکھا وہاں پر میدان میں لڑکیاں ٹینٹ کے نیچے بیٹھی تھیں۔ مجھے دیکھ کر
ان پر ترس آیا کاش ان کے نمبر بھی اچھے آ جاتے ۔ گھر آئے تو پتہ چلا
میری ایک دوست جو میری پڑوسی تھی اس کے نمبر بھی بہت کم آئے تھے ۔تو وہ
اسی کالج میں داخلہ لے رہی تھی۔ ابو نے کہا پڑھائی بچہ نے کرنی ہوتی ہے ۔
کالج نے نہیں ۔ تم یہاں داخلہ لے لو ۔آگے جب بارہ کر لو گی تو سبی کالج
چلی جانا۔ میں نے ضد پکڑ لی نہیں ۔اگر پڑھوں گی تو سبی کالج میں ورنہ کہیں
داخلہ نہیں لوں گی۔ انٹر کالج نے سلیکٹ کرنے کی تاریخ بارہ رکھی تھی۔ چودہ
تاریخ آخری تھی ایڈمیشن کی ۔ ابو نے ختمی فیصلہ سنا دیا ۔ دیکھو اگر پڑھنا
ہے تو انٹر کالج ہی ہے۔ ورنہ گھر بیٹھو ۔ سوچو اگر سبی کالج میں تمہارا نام
ہی نہیں آیا تو کیا ہو گا۔ انٹر کالج میں بھی تمہیں داخلہ نہیں ملے گا ۔
اس کی ڈیٹ نکل جائے گی۔ یہ دن میرے لیے قیامت کے دن تھے ۔ کھانا پینا سب
بھولا ہوا تھا بس ایک رٹ ۔سبی کالج جانا ہے۔ لیکن پھر باجی نے سمجھایا ۔
گھر بیٹھ کر کیا کرو گی۔ شادی کرنی ہے کیا۔ شادی کےنام پر ہی میں نے انٹر
کالج کو ہاں بول دی ۔وہ لمحہ سب سے اچھا تھا۔ اس کالج میں جس قدر میں نے
سیکھا میری جس قدر حوصلہ افزائی ہوئی ۔کہیں نہیں ہوئی تھی۔ میں وہاں
سوسائٹی گرل بنی ۔ چیف پراکٹر بنی۔ یہاں تک کہ مجھے میری لکھنے کی صلاحیت
کا علم بھی اس ٹینٹ والے کالج میں ہوا ۔ میں آج اتفاق کرتی ہوں کہ ابو سچ
کہتے تھے۔ پڑھائی کالج نہیں بچہ کرتا ہے۔میرے اتنے اچھے نمبر آئے کہ میں
تھرڈ ایر میں سبی ٹو کالج میں چلی گئی ۔ میں نے وہاں سے بی ۔اے کیا ۔ لیکن
اگر آج بھی کوئی مجھ سے پوچھے کہ زندگی کا خوبصورت ترین وقت میری کون سا
گزرا تو میں کہوں گی میرے ٹینٹ والے کالج میں ۔
میں نے بی اے کر لیا تھا ۔ میری تمام کزنز کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ مجھ سے
بہت چھوٹی چھوٹی سی اب بچوں کی مائیں بھی بن چکی تھی اس کی وجہ ان میں سے
اکثر کا میٹر ک کے بعد تعلیم چھوڑ دینا تھا۔ میں نے ایم ایڈمیں ایڈمیشن لیا
تھا۔ میری ایک کزن کی شادی تھی۔ ہم جب نکاح کی رسم میں شرکت کے لیے گئے تو
اس کی امی نے بتایا کہ لڑکا عمر میں ہماری بیٹی سے پانچ سال بڑا ہے ۔ امی
نے کہا اچھا کیا آپ نے ۔ میں نے کہا۔ آپ نے بہت جلدی کی کم سے کم بیٹی کو
بی۔اے تو کرنے دیتی۔ تو میری کزن مسکرائی اور بولی بی اے۔ کر لو تو بیاہ
نہیں ہوتا ۔ اس کا اشارہ میری طرف تھا ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔یہ تو
ہے۔جب ہم گھر آئے تو امی نے غصے سے کہا اسی لیے میں نہیں چاہتی تھی تم ایم
ایڈ میں داخلہ لو ۔کوئی کم پڑھا ہوا آدمی نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی اس سے
ذیادہ پڑھی لکھی ہو۔ میں نے غصے سے کہا۔آپ چاہتی ہیں کہ اگر کوئی لنگڑا ہو
تو میں بھی اپنی ٹانگ کاٹ لوں ۔ میں ایسا نہیں کر سکتی ۔ اگر اللہ نے میری
قسمت میں کوئی لکھا ہوا تو وہ آ جائے گا ۔ ورنہ میں اس قابل ہو ں کہ کسی
پر بوجھ نہیں بنوں گی۔ ایم ۔ ایڈ کے ساتھ ساتھ میں نے غصے میں آ کر ایم اے
اردو میں بھی داخلہ لے لیا۔ اگرچہ میرے ابو کا کہنا تھا کہ دو کشتیوں کا
مسافر ڈوب جاتا ہے۔ تو مجھے یاد ہے میں نے کہا تھا لوگ کرتب بھی تو کرتے
ہیں ۔دیکھنے والے دیکھ کر حیران بھی ہوتے ہیں ۔ میں کہیں نہیں ڈوبی ۔ آج
میں سوچتی ہوں تو میری ایک اچھے انسان سے شادی کی بنیادی وجہ میرا اعلی ٰ
تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ ہی نظر آتا ہے۔
مشکل ،آزمائش تکلیف زندگی کو خوبصورت بنا دیتی ہیں اگرچہ ہم ان سے سبق
سیکھ لیں ۔ اپنی تکلیفیوں کو آسانیاں لانے والے ذرائع سمجھیں۔ایک دو ننھی
منھی کہانیاں بھی آپ کو سناتی ہوں جنہوں نے مجھے متاثر کیا۔ ایک استاد نے
اپنے طلباٗ میں سے ہر ایک کو ایک سفید کاغذ دیا اور اس کاغذ کے درمیان ایک
کالانقطہ لگا تھا ۔ استاد نے ان سب کو کاغذ پر غور کر کے کچھ بیان کرنے کو
کہا۔ سب کی نظر میں وہ چھوٹا سا کالا نشان ہی مرکز بنا رہا کسی نے کاغذ کے
پیچھے کے سفید حصے کو سوچ ک مرکز نہیں بننے دیا ۔ ہم بھی تکلیف اور پریشانی
پر نظر رکھتے ہیں ۔ اس مشکل کے بعد آنے والی آسا نی کے بارے میں کبھی
نہیں سوچتے۔ جب کہ اللہ کا وعدہ ہی مشکل کے بعد آسانی کا ہے۔
دوسری کہانی جس نے مجھے متاثر کیا وہ کچھ اس طرح سے تھی کہ ایک بادشاہ کا
وزیر دو شاھین لے کر آیا ۔ پرندے بہت خوبصورت تھے ۔ بادشاہ کو تحفہ دینے
کا سوچا اور ان کو ایک تربیت دینے والے کے حوالے کر دیا۔ بہت کوشش کے بعد
بھی ایک پرندہ نے اُڑنے سے انکار کر دیا تو ۔مایوس ہو کر تربیت دینے والے
نے وزیر کواطلاع دی کہ ۔ایک پرندہ کو پتہ نہیں کیا مسلہ ہے کہ وہ اُڑتا ہی
نہیں ۔ ہزارکوشش کر لی ۔ وزیر نے بہت سے دوسرے تربیت دینے والوں سے بھی مدد
لی ۔سب نا کام رہے۔ پھر ایک عقلمند شخص نے دعوی ٰ کیا کہ وہ پرندے کو
اُڑانے کی زمہ داری لیتا ہے۔ اگرچہ وہ تربیت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
جب اسے موقع دیا گیا تو دوسرے ہی دن پرندے نے اُڑنا شروع کر دیا۔ جب وزیر
نے اس عقل مند شخص سے راز پتہ کیا تو پتہ چلا کہ اس نے وہ شاخ ہی کاٹ دی جس
پر پرندہ بیٹھا تھا ۔ اس کے پاس چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ نہ اُڑے۔
ہمیں بھی جب تک شاخ میسر آتی ہے ۔ہم اُڑنا نہیں سیکھ سکتے۔ جب کوئی کاٹتا
ہے تو وہ بُرا محسوس ہوتا ہے ۔ اگرچہ وہ ہم پر احسان کر رہا ہوتا ہے۔ اپنی
تکلیفیوں کو اپنی ڈھال بنائیں ۔ ہیرے نگینہ بننے کے لیے بہت ذیادہ دبرداشت
کرتے ہیں ۔کامیابی کی شرط اول ہی یہی ہے کہ کسی بھی مشکل کی پروا کیے بغیر
ان تھک مسلسل محنت۔ |