قرآن کی تعلیم کی اہمیت

اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے
جو میرے ذکر یعنی قرآن سے شریعت سے اعراض کرتے ہیں میں ان کی معیشت تنگ کر دیتا ہوں اور قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھاوں گا انسان کہے گا کہ ہائے افسوس میں تو دیکھنے والا تھا اندھا کیسے ہوگیا اللہ کہے گا کہ تمھیں میں نے جو آیات عطا فرمائی تھیں ان کو تو نے بھلا دیا تھا
حق تلاوت سے کیا مراد ہے؟
پھر فرمایا کہ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ حق تلاوت ادا کرتے ہوئے پڑھتے ہیں،
قتادہ کہتے ہیں اس سے مراد یہود نصاریٰ ہیں
اور روایت میں ہے کہ اس سے مراد اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت عمر فرماتے ہیں حق تلاوت یہ ہے کہ جنت کے ذکر کے وقت جنت کا سوال کیا جائے اور جہنم کے ذکر کے وقت اس سے پناہ مانگی جائے
ابن مسعود فرماتے ہیں حلال و حرام کو جاننا کلمات کو ان کی جگہ رکھنا تغیر و تبدل نہ کرنا وغیرہ یہی تلاوت کا حق ادا کرنا ہے
حسن بصری فرماتے ہیں کھلی آیتوں پر عمل کرنا متشابہ آیتوں پر ایمان لانا مشکلات کو علماء کے سامنے پیش کرنا حق تلاوت کے ساتھ پڑھنا ہے
ابن عباس سے اس کا مطلب حق اتباع بجا لانا بھی مروی ہے پس تلاوت بمعنی اتباع ہے جیسے
آیت (والقمر اذا تلاھا) میں ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے یہی معنی مروی ہیں لیکن اس کے بعض راوی مجہول ہیں گو معنی ٹھیک ہے
حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں قرآن کی اتباع کرنے والا جنت کے باغیچوں میں اترنے والا ہے،
حضرت عمر کی تفسیر کے مطابق یہ بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی رحمت کے ذکر کی آیت پڑھتے تو ٹھہر جاتے اور اللہ سے رحمت طلب کرتے اور جب کبھی کسی عذاب کی آیت تلاوت فرماتے تو رک کر اللہ تعالٰی سے پناہ طلب فرماتے۔
پھر فرمایا اس پر ایمان یہی لوگ رکھتے ہیں یعنی جو اہل کتاب اپنی کتاب کی سوچ سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں وہ قرآن پر ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں
جیسے اور جگہ آیت (ولو انھم اقاموا التوراۃ) اگر یہ توراۃ انجیل پر اور اللہ کی ان کی طرف نازل کردہ چیز پر قائم رہتے تو ان کے اوپر سے اور پیروں تلے سے انہیں کھانا ملتا اور فرمایا اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ و انجیل کو اور جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اترا اس کو قائم نہ کر لو تب تک تم کسی چیز پر نہیں ہو ان کا قائم کرنا مستلزم ہے کہ تم اس میں جو ہے اسے سچا جانو
اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی صفات آپ کی تابعداری کا حکم آپ کی اتباع کی رغبت سب کچھ موجود ہے
اور جگہ فرمایا جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی کی تابعداری کرتے ہیں جس رسول کا ذکر اور تصدیق اپنی کتاب توراۃ و انجیل میں بھی لکھا دیکھتے ہیں
اور جگہ فرمایا آیت (ان الذین اوتوا العلم من قبلہ) الخ یعنی تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان پر جب اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں منہ کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ہمارے رب کا وعدہ بالکل سچا اور صحیح ہے
اور جگہ ہے جنہیں ہم نے اس سے اگلی کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان پر یہ پڑھی جاتی ہیں منہ کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ہمارے رب کا وعدہ بالکل سچا اور صحیح ہے
اور جگہ ہے جنہیں ہم نے اس سے اگلی کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان پر یہ پڑھی جاتی ہے تو اپنے ایمان کا اقرار کر کے کہتے ہیں ہم تو پہلے ہی سے ماننے والوں میں ہیں انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر دیا جائے گا
یہ لوگ برائی کو بھلائی سے ہٹاتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دوسروں کو دیتے ہیں
اور جگہ ارشاد ہے آیت (قل للذین اوتوا الکتاب والامیین) الخ یعنی پڑھے لکھے اور بےپڑھے لوگوں سے کہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو؟
اگر مان لیں تو راہ پر ہیں اور اگر نہ مانیں تو تجھ پر صرف تبلیغ ہے اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اسی لئے یہاں فرمایا کہ ساتھ کفر کرنے والے خسارے والے ہیں،
جیسے فرمایا آیت (ومن یکفر بہ من الاحزاب فالنار موعدہ) جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے
اس کے وعدے کی جگہ آگ ہے
صحیح حدیث میں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں سے جو بھی مجھے سنے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں جائے گا۔

اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے
جو میرے ذکر یعنی قرآن سے شریعت سے اعراض کرتے ہیں میں ان کی معیشت تنگ کر دیتا ہوں اور قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھاوں گا انسان کہے گا کہ ہائے افسوس میں تو دیکھنے والا تھا اندھا کیسے ہوگیا اللہ کہے گا کہ تمھیں میں نے جو آیات عطا فرمائی تھیں ان کو تو نے بھلا دیا تھا
جو اللہ کے دین اسلام سے منہ موڑتا ہے اللہ اس کی معیشت تنگ کر دیتا ہے یہاں یہ ترغیب دلائی جارہی ہے کہ اللہ کی کتاب قرآن پاک کو پس پشت ڈال دو گے تو تمھاری معیشت تنگ ہو جائے گی اعراض کرنا کا مطلب ہے کہ روگردانی کرنا منہ پھیرنا زندگی کے فیصلوں کو اللہ کے حکم کے مطابق نہیں کیا بلکہ دوسرے مذہب یا جدید سوچ کے مطابق فیصلہ کیا جیسا کہ آج کل کے لوگ کرتے ہیں حالانکہ اللہ کا حکم ہے کہ جو لوگ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ہیں اس لیے اللہ کے احکامات کو جاننے کے لیے اللہ کے قرآن کو سمجھ کر پڑھنا قرآن کا علم حاصل کرنا کہ کس معاملے میں اللہ کا کیا حکم ہے اگر نہیں پتا تو اہل علم سے پوچھ کر اللہ کے حکم کو پورا کرنا چاہیے اللہ کے احکامات کو جاننے کے لیے قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے مثال کے طور پر اس بات کا پتہ لگانا کہ کمائی کیسے کرنی ہے خرچ کیسے کرنا ہے کن لوگوں پر کرنا فقرو فاقہ سے غربت سے کیسے بچنا ہے لین دین کیسے کرنا ہے امانت کی حفاظت کیسے کرنی ہے کبیرہ گناہوں سے کیسے بچنا ہے حقوق اللہ حقوق العباد کیسے ادا کرنے ہیں فرائض کیسے پورے کرنے ہیں شادی غمی کیسے کرنی ہے اللہ کو راضی کیسے کرنا ہے اس بات سے کیسے بچنا ہے کہ کہیں ہم ظالم لوگوں میں شامل نا ہو جائیں اور متقی پرہیزگار کیسے بننا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کے اعمال قبول نہیں فرماتا بلکہ اللہ تعالیٰ متقی پرہیزگار لوگوں کے اعمال قبول فرماتا ہے-
 
محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 138830 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.