مردان کی عبدالولی خان یونی ورسٹی ہمارے
ملک کے ایک ایسے سیاست داں کے سے منسوب ہے جس نے اپنی سیاست کو تشدد، گولی
اور بندوق سے دور رکھا۔ خان عبدالولی خان اس سرزمین کے اس عظیم فرزند کے
بیٹے تھے جس سے ہم لاکھ اختلاف کریں مگر یہ ماننا پڑے گا کہ اس نے پختون
معاشرے میں، جہاں بندوق زینت اور انتقام روایت ہے، عدم تشدد کا فلسفہ
روشناس کرایا۔ برصغیر کے اس عظیم راہ نما یعنی خان عبدالغفارخان عرف باچہ
خان اور ان کے پیروکاروں نے بدترین ظلم اور تشدد سہنے کے باوجود ہتھیار
اٹھائے نہ ہی تشدد پر مبنی کوئی اور جوابی کارروائی کی۔
امن کے پیروکار اور عدم تشدد کے حامی شخصیت کے نام پر قائم اس جامعہ میں
ایک طالب علم کو بے دردی سے مار ڈالا گیا۔ مشال خان ایک ذہین طالب علم تھا،
علم کا گرویدہ اور روشنی کا پرستار۔ جسے علم سے محبت ہو، جو روشنی کا
گرویدہ ہو، جو ظلمت اور جہالت کا دشمن ہو وہ اس عظیم ہستی کے بارے میں کوئی
نازیبا بات کہنا تو کجا دل میں ایسا خیال میں کیسے لاسکتا ہے، جس ہستی کے
دیے ہوئے علم وشعور کے اجالے نے پوری دنیا کو منور کردیا، جس کا دیا ہوا
شعور مغرب میں اذہان کو روشن کرنے کا باعث بنا، جس نے اندھیرے کو نور میں
بدل ڈالا جس نے جہالت اور جہل کی ہر روایت کو شکست تھے۔ میرے پیارے نبی ﷺ
جیسے عظیم الشان ہستی کا دشمن کوئی ابوجہل ہی ہوسکتا ہے۔
مشال خان کو وحشت اور درندگی کا ہدف بناتے ہوئے جو الزام لگایا گیا اس کی
تردید وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ
واقعے کی ابتدائی تفتیش میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ اس طالب
علم نے شان رسالت یا شعائر اسلام کی تھی، بل کہ یہ ذاتی عناد کا شاخسانہ
ہوسکتا ہے۔
اس واقعے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کسی جہالت میں ڈوبی بستی،
گلی محلے یا گاؤں میں پیش نہیں آیا، اس سانحے نے ایک درس گاہ ایک اعلیٰ
تعلیم کے ادارے میں جنم لیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتہاپسندی، جنون اور
وحشت کسی خاص طبقے اور جگہ سے مخصوص نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں تشدد کا چلن
گلیوں سڑکوں سے ہوتا ہوا یونی ورسٹیز کی لابی تک پہنچ چکا ہے۔
ہمارے معاشرے میں تشدد کا عنصر اس حد تک پھیل چکا ہے کہ ایک عام آدمی بھی
جو تنہا کسی پر ہاتھ بھی نہیں اٹھا سکتا موقع ڈھونڈتا ہے کہ ہجوم کے ساتھ
شامل ہوکر اپنے اندر چھپے وحشی کو سامنے لاسکے۔ ہمارے ہاں ایسے بہت سے
واقعات سامنے آچکے ہیں جب کسی پر مذہب کے حوالے سے الزام لگا کر اسے بدترین
تشدد اور تذلیل کا نشانہ بناکر مارڈالا گیا۔ پھر کون دیکھتا ہے کہ جرم سرزد
ہوا بھی تھا یا نہیں۔ اسی طرح لوگوں کو ڈاکو یا چور قرار دے کر مارڈالنے کے
واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
ہم اپنے عمل میں کتنے مذہبی ہیں، دین کے احکامات کی کتنی پابندی کرتے ہیں،
اس حقیقت سے ہم بہ خوبی واقف ہیں، لیکن مذہب کے نام پر بھڑک اٹھنا ہمیں خوب
آتا ہے۔ آپ کسی پر بھی مذہب کی توہین کا الزام لگا دیجیے، لوگ اس پر ٹوٹ
پڑیں گے اور جان لے کر چھوڑیں گے، کوئی تصدیق کرنے کی فکر نہیں کرے گا کہ
یہ الزام درست ہے یا غلط۔ ہر ایک یہ سوچ کر حملہ آور ہوجائے گا کہ ثواب
کمانے کا موقع ملا ہے لوٹ لو۔
اگر مشال یا اس جیسے وحشیانہ سلوک کا شکار ہونے والے افراد پر لگایا جانے
والا الزام درست بھی ہے تو ہمارے یہاں اس جرم کے بارے میں قانون موجود ہے،
سزا موجود ہے، انھیں قانون کے حوالے کیا جاسکتا تھا اور کرنا بھی یہی
چاہیے۔ میرے جیسے لوگ جو ناموس رسالت کے قانون کے حامی اور اس جرم کے مرتکب
افراد کو کڑی سزا دینے کے قائل ہیں ہمیں اس حوالے سے سب سے زیادہ پُرزور
آواز اٹھانی چاہیے کہ اگر کسی نے یہ جرم کیا ہے تو اسے خود سزا دینے کے بہ
جائے قانون کے حوالے کیا جائے اور فیصلہ عدالت پر چھوڑا جائے۔
اس حوالے سے علما کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور لوگوں کو بتانا چاہیے
کہ کسی جرم سے متعلق ریاستی قوانین اور اداروں کے ہوتے ہوئے قانون اپنے
ہاتھ میں لینا اور کسی کو نقصان پہنچانا خود اسلام کے خلاف ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کسی پر مذہب کی توہین کا الزام ہے بھی تو کم ازکم اس کی
بات تو سنی جاسکتی ہے، اسے بولنے کا موقع تو دیا جاسکتا ہے، مگر ایسا نہیں
کیا جاتا، کیوں کہ یہ مذہب سے محبت کا معاملہ نہیں، یہ تو ایک وحشت ہے ایک
جنون ہے جو انسانی خون پی کر خوش ہوتا ہے، جو کسی کو تڑپ تڑپ کر مرتے دیکھ
کر نہال ہوجاتا ہے۔ یہ جنون یہ وحشت کبھی مذہب کے نام پر سامنے آتی ہے کبھی
لسانیت، علاقائیت، ذات، برادری، فرقے اور سیاست کے نام پر۔ یہ معاشرے میں
تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان ہے جو مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے۔ ہمیں اس
نفسیات کو اس رویے کو بدلنے کے لیے ہر سطح پر کوششیں کرنی ہوں گی، ورنہ آپ،
میں ہمارے گھر کا کوئی فرد، کوئی بھی اس وحشت اس جنون کا شکار ہوسکتا ہے۔
|