انتہا پسندی کے عفریت نے جن آہنی ہاتھوں سے ہمارے معاشرہ
کو جکڑ رکھا ہے اس سے سب پریشان ہیں ۔ دن بدن حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے
ہیں اور بہتری کوئی صورت نظر نہیں آتی۔عدم برداشت اور انتہا پسندی معاشرے
لئے زہر قاتل ہے ۔ سویڈن جسے پر امن ملک کو بھی دہشت گردی کا سامنا کرنا
پڑا جب سات اپریل کو اسٹاک ہوم شہر میں چار شہری جاں بحق ہوئے۔ ا نتہا
پسندی کسی قسم کی بھی ہو، چاہے مذہبی ہو یا سیکولر وہ قابل مذمت ہے۔ ہمارے
معاشرتی رویے بھی انتہا پسندی کا شکار ہیں۔ مروت، احترام باہمی، صبر و
برداشت ، خوش خلقی اور حیا جیسی خوبیاں ناپید ہورہی ہیں۔ حالیہ ہونے والے
چند واقعات اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ awareness آنے سے
ہی تبدیلی آئے گی لیکن یونیورسٹی کے طلبہ سے زیادہ اور کسے آگہی ہوگی ۔ صرف
awareness کچھ نہیں بلکہ درست اور سچی آگہی اور بیداری کی ضرورت ہے۔ مجھے
رسول اکرم ﷺ کی وہ دعا یاد آرہی ہے کہ آپ ؐنے فرمایا کہ یا اﷲ مجھے اشیاء
کی اصلیت سے آگاہ فرما۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب تک اصل حقیقت اور درست
معلومات نہ ہو بات نہیں بنتی۔اسی لئے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ
مسلم معاشرہ میں مذہبی نتہا پسندی قرآن سے دوری کی وجہ سے ہے اور اگر ہم نے
قرآن کو درست طور پر سمجھا ہوتا تو کبھی بھی مذہب کے نام پر کوئی کسی کا
قتل نہ کرتا بلکہ جان لینا تو دور کی بات کسی قسم کا جبر یا دباؤ بھی نہ
ہوتا۔سورہ یونس جب یہ واضح اعلان ہے کہ خدا نے جبر سے لوگوں کو مومن نہیں
بنایا تو تم ایسا کیوں کرتے ہو۔ اﷲ تعالیٰ کے اس حکم کے بعد کیا کوئی
مسلمان ایسی جرات کرسکتا ہے۔سوہ الغاشیہ میں رسول اکرم ﷺ سے بھی فرمادیا کہ
ہم نے آپؐ کوکو لوگوں پر جابر و قاہر کے طور پر مسلط نہیں کیا، جب رسول پاکؐ
کو یہ اختیار نہیں دیا گیا تو کوئی اور کیوں یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لیتا
ہے۔ حالیہ واقعات میں انتہا پسندی اور انسانی قتل کی وجوہات یہ سامنے آئی
ہیں کہ کسی نے دین اسلام اور بزرگ ہستیوں کے بارے میں نازیبا کلمات کہے یا
قرآن پاک کی توہین کی اور رد عمل انسانی قتل کی صورت میں سامنے آیا۔ اب
قرآن حکیم کو دیکھیے کہ خود اﷲ تعالیٰ اپنی کتاب کی توہین ہونے کی صورت میں
کیا بہترین لائحہ عمل دیا ہے جس پر عمل کرنے سے انتہا پسندی کا خاتمہ
ہوجاتاہے ۔ سورہ نساء کی آیت 140میں ہے ’’ اور اﷲ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی
کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اﷲ تعالیٰ کی
آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ
نہ بیٹھو! جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں، ورنہ تم بھی اس
وقت انہی جیسے ہو، یقیناً اﷲ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم
میں جمع کرنے والا ہے‘‘۔رد عمل کا کیسا مہذہب اور خوبصورت طریقہ بتایا ہے
اور یہ نہیں کہا کہ خدا کی آیات کا نکار اور مذاق اڑانے والوں کی گردنیں
اڑا دو بلکہ یہ کہا کہ وہاں سے اٹھ جاؤ لیکن جب وہ اپنی روش چھوڑ کر عام
گفتگو شروع کریں تو پھر شریک محفل ہوجاؤ۔ اس سنہری حکم کو عام کرنے کی
ضرورت ہے۔ ہر منبر و محراب سے اس آیت کے مفہوم کوبلند ہونا چاہیے۔ میڈیا
میں بار بار یہ آیت دہرانی جانی چاہیے۔ سورہ بقرہ میں دیا جانے والے یہ حکم
بھی عوام کو بتانے کی ضرورت ہے کہ یونہی کسی کا قتل بہت بڑا جرم ہے اور
فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔ یہ قرآن ہے جو سورہ مائدہ میں کہتا ہے
کہ ناحق ایک جان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اور پھر یہ بھی
کہ دشمن سے بھی عدل کرو۔ یہ قرآن ہے جو سورہ طہٰ میں حکم دیتا ہے کہ دشمن
سے بھی نرمی سے بات کرو ، شائد وہ سمجھ جائے۔ جب اﷲ تعالیٰ نے سورہ اسرا
میں کہہ دیا کہ ہم نے تمام انسانوں کو قابل عزت پیدا کیا ہے تو پھر کسی کیا
مجال کہ وہ سرتابی کرے۔
اسلام تو دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ دوسرے مذاہب
کی عبادت گاہوں پر حملہ آور ہونے والوں کو سورہ حج میں دیئے گئے اس حکم پر
غور کرنا چاہیے۔جب اﷲ تعالیٰ نے سورہ بقرہ، انفال اور حج میں تمام انسانوں
کو مذہبی آزادی دی ہے تو کسی کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں پر جبر کرے۔
یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ دوسروں کے جذبات کا خیال رکھا جائے اور تحریر و
تقریر سے کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جس سے کسی کی دل آزاری ہو اور نہ کسی
پر جھوٹا الزام عائد کیا جائے۔ قرآن حکیم فساد پھیلانے سے سختی سے منع کرتا
ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ مومن فساد نہیں پھیلاتے۔ قرآن تو یہاں تک حکم
دیتا ہے کہ دشمن کے سربراہوں کو بھی عزت سے بلاؤ اور جنگ سے قبل ہی صلح کی
پیش کش کرو۔ سورہ توبہ میں یہاں تک کہا کہ اگر دشمن بھی پناہ طلب کرے تو
اسے پناہ دو اور اسے قرآن سناؤ لیکن اس کے باوجود وہ واپس جانا چاہئے تو
اسے جانے دو۔ اس قدر امن اور انسان دوستی پر تعلیمات ہونے کے باوجود اگر
کسی مسلمان سے قتل اور انتہا پسندی کے واقعات سر زد ہوجاتے ہیں تو اس کی
وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے قرآن کو پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی قرآن کے نصب العین
سے آگاہی حاصل کی ہے۔ ہم نے اسوہ حسنہ سے کچھ نہیں سیکھا بقول علامہ اقبال
منزل و مقصود قرآن دیگر است رسم ِ آئین مسلماں دیگر است
در دل او آتش سو زندہ نیست مصطفےٰ در سینہ ء او زندہ نیست
قرآن اور اسوہ حسنہ نے جس عالمگیر بھلائی اورجنت ارضی کا پیغام دیا اسے ہر
وقت پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور وحدت انسانیت جس کی منزل ہے ۔ یہی پیغام
ہادی برحق کی زبان سے فاران کی چوٹی سے دیا گیا۔حکیم الامت کہتے ہیں کہ
انسان کا مقام فرشتوں سے برتر ہے اور دوسروں کا احترام ہی اصل میں تہذیب
اور اسلام کی تعلیمات ہیں ۔
برتر از گردوں مقام آدم است اصل تہذیب احترام آدم است
|