پاکستان کو قدرت نے بیش بہا قدرتی خزانوں سے نوازا ہے۔اس
پاک سر زمین میں جدھر نظر دوڑائیں ہمیں قدرت کی رنگینیاں اور فیاضیاں چار
سَو نظر آتی ہیں۔چاہے یہ رنگینیاں چار موسموں کی شکل میں ہوں یا زمین میں
مدفون بیش بہا خزینوں اور معدنیات کی صورت میں،دریاؤں ،جھیلوں ،سمندروں کے
نیلگوں پانیوں کی شکل میں ہوں یا لق ودق میلوں پھیلے صحرا کی صورت میں،
ہمیں ہر طرف ہرچیز خدائے واحد کی حمد و ثناہ بیان کرتی نظر آتی ہے۔اس پاک
سرزمین میں ہمیں ایک طرف تو سمندر کی اتھاہ گہرائیوں سے امڈتی ،ابھرتی اور
جل تھل کرتی لہروں اور دلفریب ساحلوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے تو
دوسری طرف آسمانوں کو چھوتی برف پوش چوٹیاں ہم پہ اپنا سحر پھونکتی نظر آتی
ہیں۔ہر طرف پھیلے چرند، پرند، خزند، درند ہمیں دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں کہ
تم خدا کی دی ہوئی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے، لیکن حضرتِ انسان بہت
ہی ناشکرا ہے۔
endemic mammals یا منفرد مقامی ممالیے وہ جانور ہیں جو کہ کسی خاص علاقے
میں پائے جائیں اور اُس علاقے کے علاوہ دنیا میں اور کہیں نہ ملتے
ہوں۔پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں بھی چار ایسے منفرد مقامی ممالیے پائے
جاتے ہیں جو کہ دنیا کے کسی اور خطے میں موجود نہیں۔یہ ممالیے ایک خصوصی
ماحول میں رہتے ہیں اور ابنی اور اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ذیل میں
پاکستان میں پائے جانے والے منفرد مقامی ممالیے جانوروں کا تفصیلی ذکر ہے:
|
۱: بلوچی کالا ریچھ (Balochistan
Black Bear)
بلوچی کالا ریچھ ،ایشیائی نسل کے کالے ریچھ کی ایک ذیلے نوع ہے جو کہ صرف
بلوچستان کے انتہائی دشوار گزار اور پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ
ریچھ بلوچستان میں زیارت، قلات،خضدار،کوہ توبہ کاکڑ اور تخت سلیمان کے
سلسلہ ہائے کوہ میں ملتے ہیں ۔ یہ ریچھ جسامت میں تمام اقسام کے ریچھوں سے
چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ چمکدار سیاہ اور جسم بالوں سے ڈھکا ہوتا ہے۔کان
چھوٹے اور گول ہوتے ہیں جن پر بالوں کی جھالر نظر آتی ہے۔سینے پر ایک بڑا
اور واضع سفید رنگ کا ہلال جیسا نشان ہوتا ہے جو کہ بہت نمایاں ہوتا ہے۔دم
تقریبا تین،چار انچ لمبی ہوتی ہے۔مادہ نر سے چھوٹی اور وزن تقریبا ۵۰
کلوگرام ہوتا ہے،جبکہ نر کا وزن ۱۲۰ کلو گرام تک ہوتا ہے۔بلوچی کالے ریچھ
کی خوراک میں جڑی بوٹیاں، درختوں کے پتے، کیڑے مکوڑے، گھاس،شہد کی مکھیوں
کے چھتے اور حیوانات شامل ہیں۔اسکے سونگھنے کی حس بہت زبردست ہوتی ہے جو وہ
خوراک کی تلاش کے علاوہ خطرے کو بروقت محسوس کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ گزشتہ
چند عشروں سے بلوچی کالے ریچھ کو اسکی قیمتی کھال اور ادویاتی خصوصیات کی
بنا پر بے تحاشا شکار کیا گیا جسکی وجہ سے اسکی نسل ناپید ہونے کے خطرے سے
دوچار ہو گئی۔ IUCN جو کے معدومیت کے خطرے سے دوچار حیوانات و نباتات کی
ایک بین القوامی تنظیم ہے،اس نے بھی بلوچی کالے ریچھ کو انتہائی خطرے اور
معدوم ہوتے جانوروں میں شمار کیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی مسکن کی
تباہی بھی اسکی نسل کو کم کر رہی ہے۔
|
|
۲: پنجابی اُڑیال (Punjab Urial)
جنگلی بھیڑ کی یہ قسم بھی ایشیائی اُڑیال کی ذیلی نوع شمار ہوتی ہے۔اسکی
پشت کا رنگ زنگاری اور بطن سفید ہعتا ہے،جبکہ چہرے کا رنگ سلیٹی ہوتا ہے۔
ٹانگیں لمبی اور پتلی ہوتی ہیں۔نر کے سینے،گلے اور تھوڑی پر لمبے اور سفید
بالوں کی جھالر گھٹنوں تک لٹکی ہوتی ہے جسکا رنگ سینے پر سلیٹی اور نیچے سے
سیاہ ہوتا ہے۔ پنجابی اُڑیال کی اونچائی تقریبا ۸۰ سینٹی میٹر ہوتی ہے۔سینگ
سخت اور تھوڑے مڑے ہوئے ہوتے ہیں،جن پر سالانہ چھلے ابھرے ہوتے ہیں جس سے
نر کی عمر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مادہ نر سے چھوٹی اور بغیر سینگوں کے
ہوتی ہے۔ یہ بڑے بڑے ریوڑوں کی شکل میں ریتے ہیں لیکن ملاپ کے موسم میں ہی
مادہ کے قریب آتے ہیں۔عموما طلوع ِآفتاب سے چرنا شروع کرتے ہیں۔ انکی خوراک
میں درختوں کے پتے، جڑی بوٹیاں اور گھاس شامل ہے۔ بنجابی اُڑیال ۱۵۰۰ سے
چار ہزار فٹ کی بلندی میں ملتے ہیں اور پنجاب میں کوہستان نمک کی پہاڑیوں
میں پائے جاتے ہیں خاص طور پر کالا باغ، کھیوڑہ اور اٹک کے علاقوں میں
دیکھے جا سکتے ہیں۔اگرچہ انکی کافی تعداد ہے لیکن غیر قانونی اور بے تحاشہ
شکار نے انکی تعداد میں کافی کمی کر دی ہے اور اگر انکے بچاؤ کے مناسب
انتظامات نہ کیے گئے تو انکی نسل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔
|
|
۳: دریائے سندھ کی اندھی ڈولفن: (Indus
river blind dolphin)
ڈولفن کی یہ قسم دریائے سندھ کے پانی میں پائی جاتی ہے اور دنیا میں دریاؤں
میں پائی جانے والی ڈولفنوں کی ایک نوع ہے۔ اسے مقامی زبان میں ـ’بلھن‘ کہا
جاتا ہے۔ یہ دریائے گنگا میں پائی جانے والی اندھی ڈولفن کی ذیلی نوع شمار
ہوتی ہے۔ اسکا رنگ بھورا اور مٹیالا سا ہوتا ہے، تھوتھنی لمبی اور آگے کو
نکلی ہوتی ہے۔ اس کے اوپری اور پیچھے کے جبڑوں میں منہ بند ہوتے ہوئے بھی
خلا نمایاں ہوتا ہے۔اسے عرفِ عام میں ’اندھی ڈولفن‘ کہا جاتا ہے، حالانکہ
یہ نابینا نہیں ہوتی، اس ڈولفن کی آنکھوں میں روشنی منعکس کرنے والے اعضاء
کمزور ہوتے ہیں، جسکی وجہ سے یہ چیزوں کو دیکھ نہیں پاتی۔ اس اندھے پن کی
وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور دریائے سندھ کی آلودگی ہے۔ دریا کے گدلے اور
فاسد کیمیائی مادوں کی موجوگی کی وجہ سے انکی آنکھوں پر اثر پڑا ہے۔ حرکت
پذیری کے لئے یہ ڈولفن سونار سسٹم پر انحصار کرتی ہے۔ یہ ڈولفن مععدومی کے
خطرے سے دوچار ہے اور ایک اندازے کے مطابق اسکی تعداد ۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰ کے
درمیان ہے۔
|
|
۴: اُونی اُڑن گلہری: (woolly flying
squirrel)
یہ گلہری پاکستان میں وادی گلگت ، استور، سکردو، کشمیر اور نیلم کے علاقوں
میں پائی جاتی ہے۔ یہ ایک چمگادڑ کی طرح نظر آتی ہے۔ گلہری کی یہ قسم دنیا
میں آڑنے والا سب سے بڑا ممالیہ بھی ہے۔ اس گلہری کے بارے میں معلومات
انتہائی کم ہیں جسکی وجہ اسکا دشوار گزار مسکن اور تحقیق کا فقدان ہے۔اسکا
رنگ سلیٹی مائل گہرا ہوتا ہے اور جسم پر گھنے اُونی بالوں کے گچھے ہوتے
ہیں،اسی مناسبت سے اس گلہری کو ’اُونی اُڑن گلہری‘ کہا جاتا ہے۔ اسکی جسامت
۱۸ سے ۲۴ انچ تک ہوتی ہے۔ تحقیق کی کمیابی کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل
ہے کہ اسکی کتنی تعداد پاکستان مین موجود ہے۔بہرحال پاکستان کے اس قیمتی
سرمائے کو معدومی کے انتہائی خطرات لاحق ہیں جس کی وجہ درختوں کی بے دُریغ
کٹائی اور اسکے قدرتی ماحول کی تبائی شامل ہے۔
|
|
ماحولیاتی تبدیلی، مساکن کی تبائی ، جنگلات کی کٹائی اور بے تحاشہ غیر
قانونی شکار ہمارے ملک پاکستان کی اس منفرد شناخت کے ختم کرنے کے بڑے عوامل
ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قدرتی وسائل کو سنبھالا جائے اور عوام میں
ان کے متعلق شعور اُجاگر کیا جائے۔ |