اردو زبان و ادب میں غزل انتہائی اہم اور قدیم صنف ہے، اس
کو ابتدا ہی سے عظیم رجال کار میسر آتے رہے اور جلد ہی اس کا شہرہ اور چرچا
ہوگیا، کائنات ادب پر اس کی حکمرانی ہوگئی، دیکھتے ہی دیکھتے غزل کی تابانی
اور بلندی کا دور دورہ ہوگیا، اور اسے آبروئے زبان ہونے کا شرف میسر آیا،
میر و غالب آتش و شیفتہ نے غزل کے عارض و کاکل سنوارے، میر نے اپنے درد
بھرے لہجہ، سوز و گداز، اور عشق و عرفاں کی تڑپ کو لفظوں کا پیکر عطا کر کے
غزل کا معیار و وقار بلند کیا، اور غالب نے تصوف فلسفہ عشق و محبت کے حسین
جذبات کو غزل میں سمو کر اسے نیرنگ کردیا، اور اسکا دامن معنی و مفاہیم سے
پور کردیا، آتش و ناسخ اور شیفتہ نے بھی اپنے خون دل سے اس صنف سخت جاں کے
تابناک مستقبل کی کہانی صفحہ قرطاس کی، صدیاں بیت چکیں، زمانہ کروٹ بدل
چکا، تہذیب و ثقافت نے نیا روپ اختیار کرلیا، حالات تغیر و تبدل کا شکار ہو
چکے، مگر ان کے یہ کارنامے زندہ پائندہ و تابندہ ہیں، مخالف آندھیوں کے
جھکڑ چلے، ترقی پسند تحریک نے غزل کا قلع قمع کرنے کی بھرپور کوشش کی، اسے
صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا، مگر تاریخ کے صفحات
شاہد ہیں، غزل کے حسن ، لطافت،نزاکت، معنی آفرینی، سوز و گداز اور رنگ و
آہنگ سے مخالفین غزل بھی متاثر ہوئے، غزل کے حسن نے انہیں بھی اپنا گرویدہ
اور قصیدہ خاں بنا لیا، اور تمام خیالات و رجحانات اور دلائل کے باوجود غزل
اسی طرح ہنستی، کھیلتی، مسکراتی، اٹھکیلیاں، کرتی ان مشکل تر ادوار سے گذر
گئ، نئے نظریات اس کے وقار کو مجروح کرنے میں ناکام رہے، جس دور میں یہ
احساس شدت کے ساتھ لوگوں کے قلوب پر دستک دے رہا تھا، کہ غزل دم توڑ دیگی
اس کی نبض حیات رکنے والی ہے، اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں ہیں، اس کی جاں کنی
اور نزاع کا وقت قریب ہے، جلد ہی اس صنف کا جنازہ اٹھ جائیگا، عین اسی وقت
ایسی شخصیات نے اس دھرتی پر جنم لیا، جنہوں نے غزل کو نء روح، نء غذا،نیا
فکر ، نیا رنگ و آہنگ عطا کیا، اور غزل کی موت کا خیال خام ثابت ہوا، بیسوی
صدی کے وسط میں جب غزل کی لو مدھم پڑنے لگی تھی ،مخالف آندھیوں کے جھکڑ چل
رہے تھے ،غزل کے نرم و نازک وجود کو نیست و نابود کرنے کے لئے سخت ترین
اقدامات ہورہے تھے ،اور غزل کے اختتام کا احساس قلب پر دستک دے رہا تھا
،اسی وقت غزل کے بانکے شہسروار اٹھے اوراسے آب حیات پلادیا ،اصغر فانی
،حسرت ،جگر ،فراق،نے غزل میں فکری اور صوتی تجربات کئے ،اسے خوبصورت خوبرو
اور لازوال بنادیا ،اور اس کی حسن کو دوبالا کردیا ،ان افراد کی زبانوں پر
بھی تالے پڑ گئے ،جو غزل کو بے وقت کی راگنی ،گذرے زمانہ کی بات ،فرسودہ
خیالات کی ترجمان ،گرادن رہے تھے ،اور یہ سوچ بھی اس تنکے کی مانند ثابت
ہوئی ،جسے ہوا کا ہلکا سا جھکا بھی اڑا کر لے جائے ،کہ غزل محض عشق و محبت
کے فرسودہ خیالات ہی کو الفاظ کا پیرہن عطا کر سکتی ہے ،زمانے کے بدلتے
تیور کو لفظوں کے پیکر میں ڈھالنا اس کے بس کا روگ نہیں ہے ،عشق ، معرفت
،وجدان زندگی کے مسائل، معاشرہ میں پیدا ہونے والا امراض ،گردش دوراں کی زد
میں آتے سماج کے ڈھانچہ کی ہر مشکل کو غزل نے اپنے دامن خوبرو میں جگہ دی
اور زمانے کو ان مسائل سے باخبر کرنے میں کوتاہی نہیں برتی ، غزل کا دائرہ
صرف محبوب تک ہی محدود نہیں رہا ،بلکہ زندگی کے ہر شعبہ سے اس وابستگی عیاں
ہے ،اس لیے غزل پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی کائنات ادب میں موجود ہے ،اج
بھی اس کا وقار مجروح نہیں ہوا ،گردش زمانہ نے غزل کو کچھ ایسے در نایاب
عطا کئے ،جنہوں نے غزل کو نیا رنگ و آہنگ عطا کیا ،اس کے حسن و جمال کو
جہاں ارا بنا دیا ،اس خوبصورتی سے اس کی خدمات انجام دیں ،کہ غزل کا روم
روم مہک اٹھا ،اس میں بلا کی نغمگی اور موسقیت پیدا ہوگء ،انحطاط و زوال کا
دور بھی ایسی شخصیات سے خالی نہیں رہا ،بیسوی صدی کی ایک عظیم جس نے غزل کو
اپنے فکر و فن سے نیا رنگ و اہنگ اور طرز عطا کیا فراق گورکھپوری کی ہے
،اگر فراق محض غزل کے شاعر نہیں ہیں ،انہوں نے نظم اور رباعی میں بھی قابل
ذکر خدمات انجام دیں ،اور اردو نظم کو ہندوستانی کلچر وتہذیب عطا کی ،اس کے
باوجود انہوں نے غزل میں انتہاء اعلی درجہ کی خدمات انجام دیں ،بہت ہی
خوبصورت اور نرالے اندازمیں ،غزل پرچم اٹھائے رکھا ،غزل سے انکا تعلق کس
درجہ ہے ،اس کے اظہار کے لئے یہ شعر پیش خدمت ہے ،
ڈھوندیں گے مجھ کو بزم سخن میں اگر کہیں
پائیں گی مجھ کو بعد کی نسلیں غزل کے بیچ
یہ شعر اس حقیقت کا ترجمان ہے کہ فراق غزل سے کس درجہ عشق کرتے ہیں ،اور کس
نوعیت کی ان کی خدمات ہیں ،فراق کی غزلوں کا مطالعہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا
ہے کہ ان کی غزلیں عشقیہ جذبات سے مملو ہیں ،حسن و عشق محبوب کا سراپا ،غم
عشق ،ان کی غزلوں کا مرکزی کردار ہے ،اگر چہ یہ سفر مدھم نہیں پڑتا اور
جمود تعطل کا شکار نہیں ہے ،عشق ہی پر ٹھر کر نہیں رہ جاتا زندگی کے دوسرے
مراحل سماج کا بھیانک روپ اور فسلفہ حیات کو بھی وہ اپنی غزلوں کا موضوع
بناتے ہیں ،اور اس طرز و انداز پر حساس موضوعات پر چوٹ کرتے ہیں ، کہ قلب و
ذہن متحیر ہوجاتا ہے ، اور فراق کی فکری بلندیوں کا قائل و ثناخواں ہوجاتا
ہے ،مثال ملاحظہ کیجئے :
انساں کو خریدتا ہے انساں
دنیا بھی دکان ہوگئی ہے
اور اسی طرح یہ بھی
لینے سے تخت و تاج ملتا ہے
مانگے سے بھیک نہیں ملتی
آدمیوں سے بھری ہے یہ بھری دنیا مگر
آدمی کو آدمی ہوتا نہیں دستیاب
یہ وہ اشعار ہیں جو سماج کا ڈھب ،معاشرہ کے گھٹتے معیار ،انسنایت کی گرتی
اقدار کی ترجمانی کرتے ہیں ،اور دور حاضر کا منظرنامہ ان اشعار میں پوری
طرح جلوہ گر نظر آتا ہے ،اور آدمیت کے فقدان کا احساس ان اشعار میں بھرپور
موجود ہے ،جو فراق کی قلبی کیفیت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے ،انسانیت کو
دکان سے تشبیہ دینا ،آدمیت کا میسر نہ ہونے کی نوحہ گری ،اور حقوق کا نہ
ملنا وہ حقائق ہیں ،جن کا ہر لمحہ اس آب و گل میں مشاہدہ ہوتا ہے ،اور ہر
شخص ان کیفیات سے نبردآزما ہوتا ہے ،ان حقائق کو فراق نے جس خوبصورتی سے
غزل کا لباس پہنایا ہے ،وہ یقینا قابل ستائش ہے ،اور لائق تحسین ہے ،لیکن
بلاتامل اس حقیقت کا اعتراف کیا جاسکتا ہے ،یہ فراق کی غزلوں کا عام رنگ
نہیں ہے ،عام طور پر تو وہ عشق و محبت اور جمالیات ہی کے شاعر ہیں انکی
غزلیں اس کیفیت سے بھری پڑی ہیں ،خود کو عشق کا ترجماں کہنا ،محبوبہ کو
زندگی سے تعبیر کرنا ،عشق کی تعریف و توصیف کرنا ،اس کی خوبیوں کا تزکرہ
کرنا ،حتی کہ عشق کو کو خدا کا درجہ دینا ،محبت کو زندگی سے تعبیر کرنا
،فراق کی عزلوں کی وہ نمایاں خوبیاں ہیں ، جو انہیں جمالیاتی اقدار کی اعلی
منازل پر فائز کرتی ہیں ،ان کی خاصیت یہ بھی ہے ، مفہوم کی ادائیگی اور
جذبات کے اظہار کے لئے حیا کے دامن کو تارتار نہیں ،شرم کے وقار کو ٹھیس
نہیں پہونچاتے .بہت ہی سلیقہ کے جذبات و احساسات کو الفاظ کی قباء پہناتے
ہیں ، چند مثالیں میرے دعوے کو مستند کردیں گی،
ملاحظہ ہو :
عشق خود اپنی تعریف یوں کر گیا
اہرمن اہرمن ایزداں ایزداں
بہت پہلے سے ان کے قدموں کی اہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
یہ اشعار ان کی غزلوں اصل رنگ کی جانب مشیر ہیں ،عشق ہی انکی غزلوں کا
عنوان ہے ،یہ وہ عنوان ہے ،جو میر سے اج تک غزل کے شعرا کی پہلی پسند رہا
،مگر فراق اس میں نمایاں نظر اتے ہیں ،اور جمالیات کی معراج اگر ان کی
شاعری میں دیکھنی ہو ،اور ان کی جمال پسندی اور جمال پرستی کا مشاہدہ کرنا
ہو ،تو اشعار دیکھ لیجیے جن میں وہ اپنے محبوب کا سراپا بیان کرتے ہیں ،اس
کے اعضاء و جوارح کوکس خوبی وخوبصورتی سے پیش کرتے ہیں ،اور تمثیلات و
تشبیہات کی ایسی دنیا قائم کرتے ہیں کہ متحیر اور زبان عش عش کرنے پر مجبور
ہو جاتی ہے ،شنیدہ دیدہ سے بھی کہیں زیادہ حسین و جمیل محسوس ہونے لگتا ہے
،زیر و بم سینہ میں وہ موسیقی بے صوت
یہ پنکھڑی ہونٹوں کی ہے گلزار بداماں
یہ موج تبسم ہے کہ پگھلے ہوئے کوندے شبنم زدہ غنچے ہیں لب لعلیں سے پشیماں
ان اشعار میں انہوں نے جس طرز پر اپنے محبوب کا سراپا بیان کیا ہے ،اس کے
زائقہ کا حصول مطالعہ سے تعلق رکھتا ہے ،طوالت کے خوف سے تمام اشعار نقل
نہیں کئے لین ثبوت دعوی اور ان کی جمال پرستی کے اظہار ،اور تشبیہات کی
رنگیں دنیا کے مشاہدہ کے لئے یہ اشعار بھی کافی ہیں۔
(مضمون نگار بصیرت کے رکن ہیں) |