انسانی زندگی سراسر مجموعہ اجداد ہے اگر تندرست ہے تو خوش ہے۔ لیکن
خدانخواستہ اس انسان کو کسی قسم کی بیماری نے آ گھیرا تو وہ کسی کام کا
نہیں۔ دنیا میں کئی قسم کی بیماریاں موجود ہیں۔ نئے دور کے ساتھ یہ
بیماریاں بھی نئی شکل اختیار کر رہی ہیں۔
اس وقت پاکستان کے شہر کراچی کو ایک نئی بیماری نے آ گھیرا ہے ، جو وقت کے
ساتھ وبائی صورت اختیار کر رہی ہے ، کچھ عرصہ قبل تک ڈینگی نامی ایک بخار
نے پورے پاکستان کو پریشان کر رکھا تھا ، اب اس کے متبادل بخار جس کا نام
’’چکن گونیا‘‘ ہے اس نے پورے کراچی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
|
|
چکن گونیا کسی نئے وائرس کا نام نہیں مگر پاکستان اور اس کے باسیوں کے لیے
یہ ایک نئی تحقیق ہے ۔ چکن گونیا کا وائرس سب سے پہلے افریقی ملک تنزانیہ
میں 1959کو دریافت ہوا تھا اور آگے چل کر 2010تک یہ یورپین ممالک میں داخل
ہوا۔ جبکہ پاکستان میں یہ بیماری سب سے پہلے کراچی کے ضلع ملیر میں تشخیص
ہوئی جس کے بعد اس بیماری نے بہت ہی تیزی سے پورے کراچی کو اپنے لپیٹ میں
لے لیا ،جبکہ اس وقت کراچی کا ضلع غربی اس وائرس سے شدید متاثر ہے، ضلع
غربی کا ہر دسواں شخص چکن گونیا کا شکار ہے۔
چکن گونیا بھی ڈینگی اور ملیریا کی طرح مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے انسان میں
منتقل ہوتی ہے ۔ اگر کوئی عام مچھر چکن گونیا سے متاثرہ کسی شخص کو کاٹ لے
تو وہ مچھر بھی اس وائرس کے مچھر میں تبدیل ہوجاتا ہے جس کے بعد وہ بھی اس
کے پھیلاؤ میں حصہ دار بن جاتا ہے(مایرین صحت کی رپورٹ )۔یہ وائرس انسان کی
جسم سے پوٹاشیم اور سوڈیم کو کافی حد تک ختم کر دیتا ہے ، جوڑوں اور ہڈیوں
میں شدید درد کے باعث انسان ٹھیک طرح بیٹھ بھی نہیں پاتا اور ساتھ ہی ساتھ
کھانا پینا بھی چھوڑ دیتا ہے۔
چکن گونیا کے علامات میں کچھ یہ بھی ہے کہ یہ بیماری مچھر کے کاٹنے کے بعد
تین سے لے کر سات دن کے اندر ظاہر ہوتی ہے۔ سب سے پہلے پاؤں کی طرف سے
ٹخنوں اور پھر گھٹنوں کے درد سے شروع ہوکر تیزی کے ساتھ پورے جسم کے جوڑوں
کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے، سر میں شدید درد ، تھکاوٹ ، متلی کا ہونا،
جسم میں خارش و سرخ نشانات کا ہونا بھی چکن گونیا کی علامات میں شامل ہے۔
اس وائرس کا آسان ہدف نومولود بچے، بزرگ افراد اور پہلے سے مختلف بیماریوں
جیسے ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، اور امراض قلب میں مبتلا افراد ہیں۔ لیکن
ایک بات اور بھی ہے جو ایک بار اس وائرس کا شکار ہوجائے تو اس کے بعد
دوبارہ اس وائرس کا نشانہ بننے کا امکان تقریباَ ختم ہوجاتا ہے۔ میں بھی کم
و بیش چار پانچ دن تک اس بیماری سے پنجہ آزمائی کرچکا ہو، اب میرے استاد
قادر خان یوسفزئی بھی اس وائرس کو وجہ سے بیڈ سے بھی نہیں اُٹھ پا رہے ہیں۔
|
|
اب سوال آتا ہے کہ چھ ماہ سے کراچی جبکہ کئی سالوں سے دنیا کے دیگر ممالک
میں انسانوں کو نچوڑنے والی اس بیماری کا کوئی مناسب علاج ہے بھی کہ نہیں ؟
ہماری اطلاع کے مطابق تاحال اس وائرس کی کوئی ویکسین دریافت نہیں کی جاسکی
نہ ہی کوئی ایسی دوا ہے جو بطور خاص اس وائرس کے خلاف مزاحم ہوسکے۔ یہاں یہ
یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس وائرس سے موت واقع نہیں ہوتی تاہم اس کی علامتیں
شدید تکلیف میں مبتلا کردیتی ہیں جبکہ یہ بیماری انسان کو بری طرح کمزور
کردیتی ہے۔
اس وائرس کا مناسب علاج کرنے والے افراد ایک ہفتے میں صحت یاب ہوجاتے ہیں
البتہ جوڑوں کا درد ایک ماہ یا اس سے بھی زیادہ دیر تک جاری رہ سکتا ہے۔
پاکستان میں یہ بیماری ہندوستان سے آئی، پاکستانی ماہرین کے مطابق آج سے چھ
سال قبل چکن گونیا نامی اس وائرس نے ہندوستان کو اپنے لپیٹ میں لیا تھا ،
جس کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان میں پھیلنے والا وائرس وہاں سے آنے
والے افراد کے ذریعے کراچی کے علاقے ملیر میں پھیلا۔
طبی ماہرین کی وارننگ کے باوجود انتظامیہ نے کراچی اور لاہور ایئرپورٹس پر
ہندوستان سے آنے والے مسافروں کے خون کے نمونے لئے اور نہ ہی واہگہ بارڈر
کے ذریعے آنے والے افراد کے نمونے حاصل کئے گئے۔چکن گونیا سے کیسے بچا جائے
اور کیسے اس کا علاج کیا جائے ؟یہ ایسی بیماری ہے جو انسان کو حد درجہ
کمزوری پر لے جاتی ہے مگر اس بیماری سے انسان کی موت واقع نہیں ہوتی مگر
بیماری والے چند دن موت سے کم بھی نہیں ہوتے اس کے علاج کیلئے یہ ضروری ہے
کہ آپ بروقت اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں ۔
احتییاطی تدابیر:
اگر آپ چکن گونیا کے متاثرہ مریض سے ملے ہیں، یا کسی ایسے علاقے کا دورہ
کیا ہے جہاں یہ وائرس پھیلا ہوا ہے تو محتاط رہیں اور اوپر بتائی گئی
علامتوں کے معمولی طور پر ظاہر ہوتے ہی فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ وائرس کا
شکار ہونے کی صورت میں بعض ڈاکٹروں کے مطابق زیادہ سے زیادہ آرام کریں۔جبکہ
بعض ہلکی پھلکی ورزش کا مشورہ دیتے ہیں۔
|
|
جسم میں پانی کی کمی سے بچنے کے لیے مائع اشیا کا زیادہ سے زیادہ استعمال
کریں۔وائرس کا نشانہ بننے سے صحت یاب ہونے تک اسپرین لینے سے گریز کریں۔اگر
آپ پہلے سے کسی مرض کا علاج کر رہے ہیں تو اپنے ڈاکٹر کو ضرور اس سے آگاہ
کریں۔
یہ تو تھی ڈاکٹری علاج کے طور طریقے اب آتے ہیں روحانی طریقوں کی طرف ، اﷲ
تعالیٰ قرآن مجید کے سورہ الانعام آیت نمبر 17 میں ارشاد فرماتے ہیں : اور
اگر خدا تم کو کوئی سختی پہنچائے تو اُس کے سوا اس کو کوئی دور کرنے والا
نہیں اور اگر نعمت (وراحت)عطا کرے تو کوئی اس کو روکنے والا نہیں بے شک اﷲ
ہر چیز پر قادر ہے۔ اس آیت کو ترجمے کے ساتھ پڑھے اور ساتھ میں ،لا الہ الا
انت اني کنت من الظالمین کو ایک جگہ بیٹھ کر چالیس مرتبہ اول وآخر دورود
شریف پڑھئیں ۔ انشااﷲ شفاء ملے گی، اس سے بچاؤ کے ٹوٹکے ، پپیتے کے پتوں کو
اُبال کر اس کے پانی کو پینا ، کھانے میں بھنڈی کا زیادہ سے زیادہ استعمال
، نیم گرم پانی میں نمک ڈال کر جہاں جہاں درد ہو اس جگہ کی سکائی کریں
انشاء اﷲ جلد ہی آرام آئیگا۔
اس وقت کراچی میں’’ چکن گونیا ‘‘وبائی صورت اختیار کرچکا ہے ، پرنٹ اور
الیکٹرونک میڈیا کے مطابق یکم جنوری سے لیکر 26اپریل تک اس وائرس نے
1910افراد کو اپنا شکار بنا یا ، لیکن اصل میں یہ تعداد اس سے بیس گنا
زیادہ ہے یہ 1910 وہ کیسیز ہے جو رجسٹرڈ ہوئے، لیکن ہزاروں کی تعداد ایسی
بھی ہے جو رجسٹرڈ نہیں ہوئے ، یہ لوگ زیادہ تر اتائی ڈاکٹروں کے پاس جاتے
ہیں۔
|
|
حکومت وقت کی کیا ذمہ داری بنتی ہے ؟ حکومت وقت کو چاہیئے کہ وہ اس بیماری
کے علاج کی تشخیص کے لئے ماہرین کو جمع کریں اور اس کا علاج دریافت کریں
اور ساتھ ہی ساتھ پورے کراچی میں بلخصوص ان علاقوں میں جہاں یہ وائرس وبائی
صورت اختیار کرچکا ہے وہاں روزانہ کی بنیاد پر مچھر مار اسپرے کرایں ۔ چکن
گونیا سے بچاؤ کیلئے مچھروں سے بچاؤ ضروری ہے ، ساتھ ہی ساتھ پیناڈول کی
گولیاں بھی ڈاکٹرز کے ہدایات کے مطابق استعمال کی بھی ضرورت ہے ، حکومت کو
چاہیے کہ اس وائرس سے متاثرہ آفراد کی بھر پور رہنمائی کریں ۔ اﷲ ہم سب کو
قسم در قسم بیماریوں سے محفوظ رکھے (آمین)
|