کتاب اور طلباء

قارئین ِ کرام !آپ نے اکثر لوگوں کو یہ شکایت کرتے سُنا ہوگا کہ آج کل کے طلباء و طالبات کتابوں سے دور ہیں ، کچھ عرصہ پہلے تک پہلے راقم الحروف بھی یہی شکایت کرتا تھا لیکن پھر یہ جُستجو ہوئی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ طلباء کتابوں سے دور ہیں ، اس کیلئے ہمیں آج کے طلباء کی نفسیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ آپ صرف ٹیکنالوجی کو دیکھ لیں کس رفتار سے ترقی کررہی ہے لیکن کیا ہم واقعی اس ترقی کا قرض چُکاپارہے ہیں، یہ ایک الگ سوال ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے دور ِحاضر کے طلباء وطالبات کس حد تک فوائد حاصل کررہے ہیں، اب یہ بات بہت عام سی ہوگئی ہے کہ جامعات سے دیئے گئے انتسابات کو ترتیب دینے میں بابا گُوگل ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں ، نہ صرف یہ بلکہ کوئی بھی تقریر تیار کرنی ہو یا کوئی پیش کش بنانی ہو تو اُس کیلئے تمام آئیڈیاز گُوگل بابا مُفت فراہم کررہے ہیں مگر وہ کہتے ہیں نا کہ مالِ مُفت دلِ بے رحم، طلباء کی اصل حالتِ زار اچانک لیئے جانے والے امتحان سے بالکل دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتی ہے کیونکہ بِنا تیاری کے ہی تیاری کا معیار سامنے آجاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت کتنے پانی میں مِحو غوطہ ہیں، تب مطالعہ کام آتا ہے تو جس طالب علم کے پاس یہ گوہر موجود ہوتا ہے وہ ہرتعلیمی محفل و امتحان میں بازی لے جاتا ہے ۔ آج کا تقریباً نوّے فیصد طالبِ علم انٹرنیٹ کا مُحتاج ہوچکا ہے ۔ مطالعہ کا فائدہ محض مُقابلے میں جھنڈے گاڑنے کے ہی نہیں بلکہ انسان کے علمی ظرف میں بھی اضافہ کرتا ہے اُس کے کردار میں ایک وزن پیدا کرتا ہے اور باقی سب سے اُس کو مُمتاز کرتا ہے ۔ انسان چونکہ اپنے دوستوں سے پہچان میں آتا ہے تو آپ نے اکثر دیکھا ہوگا ہر جامعات و درسگاہ میں مُختلف گُروہ ہوتے ہیں اور کوئی بھی آپ سے مِلنے آتا ہے تو آپ فوراً اُس کو اُس کے اندازِ گُفتگو سے پہچان لیتے ہیں چاہے وہ لفّاظ ہوں یا علم دان ۔ کتاب کا معاملہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوں میں ہی نظر آتی ہے اور اس سے دوستی لگانے کیلئے اس کے دوستوں سے دوستی کرنی پڑتی ہے ، حال ہی میں جامعہ ء کراچی میں کتاب میلہ لگا تھا جہاں دُنیا بھر کے بہترین مصنفین کی کُتب دستیاب تھیں اور اس ناچیز کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے نہ صرف خود بیشتر کُتب خریدیں بلکہ ہم جماعت اور دیگر طلباء کو بھی خریدنے اور پڑھنے پر اُکسایا اور الحمداﷲ بہت سارے دوستوں اور ساتھیوں نے مُختلف موضوع پر کتابیں خریدیں ۔ مگر ناجانے کیوں بیشترکا یہ حال ہے کہ اُنہیں کتاب کا نام اور اس کے مُصنف کا نام تک یاد نہیں۔ پھر بھی چند دوست ایسے ہیں جن کی زندگی میں مُطالعہ کرنے سے لاشعوری طور سے ایک انقلاب آچُکا ہے اور اُن کی ترجیحات میں کافی بہتری آئی ہے اور وہ اچھی اور مثبت زندگی گزارنے لگے ہیں اور یہی کافی ہے کیونکہ قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔ آپ اگر کسی سے بھی یہ جُملہ سُنیں کہ ’کتابوں میں وہ سبق ہی نہ ملے جو زندگی نے سِکھا دیئے ‘ تو اُن کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اگر آپ مطالعہ کے عادی ہوتے تو زندگی سے متعلق بہت ساری باتیں آپ کو معلوم ہوجاتیں اور آپ اُن حادثات کے شکار ہی نہ ہوتے لیکن چونکہ آپ نے پڑھنے کی توفیق ہی نہ کی اس لیئے زندگی نے آپ کو وہ سبق پڑھا دیا، اور اگر پھر بھی آپ کا کسی لفّاظ سے واسطہ پڑجائے تو آپ خاموشی سے وہاں سے چلتے بنیں کیونکہ ڈھُول جتنا خالی ہوتا ہے اُتنی ہی اچھی آواز کرتا ہے، لیکن اُس ڈھول کو آپ اگر اسٹیج پر اچانک بُلا کھڑا کریں تو وہ وہیں ٹوٹ کر بِکھر جائے گا۔ طالبِ علم کا ہتھیار قلم ہے لیکن یہ قلم صرف اُس وقت کاغذ کالے کرے گا جب اُس کے پاس مُطالعہ کی سیاہی ہو ۔ اپنی تحریر کا اختتام اس جُملے پر کرنا چاہوں گا کہ’یہ زندگی آپ ہی کی ہے اس کی گاڑی بھی خود آپ چلائیں اس کو سمجھنا ضروری ہے اور سمجھنے کیلئے مطالعہ ناگزیر ہے‘۔

Abdullah Ibn-e-Ali
About the Author: Abdullah Ibn-e-Ali Read More Articles by Abdullah Ibn-e-Ali: 22 Articles with 18648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.