صحافیوں کو جانب داری سے لفافے لینے تک ہر الزام کا سامنا
کرنا پڑتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے مسائل، مصائب اور ان کے ساتھ
ہونے والی فریب کاریوں کو کوئی سامنے لاتا ہے تو وہ یہی طبقہ ہے جس کا نام
صحافی ہے۔ اس طبقے کا المیہ یہ ہے کہ یہ سب کے لیے آواز اٹھاتا ہے مگر اپنے
مسائل پر بولنے سے قاصر ہے۔ یہ مسائل کس قدر خوف ناک ہیں اس کا اندازہ ایک
ایونٹ میں آنے والے اعدادوشمار اور حقائق سے ہوا۔
پاکستان کا شمار دنیا میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں پانچویں
نمبر پر ہوتا ہے جب کہ رپورٹرز ودھ آؤٹ باررڈر (RSF) کی 2016 کی انڈیکس کے
مطابق صحافتی آزادی کے اعتبار سے 180ممالک میں 147ویں نمبر پر ہے، جو کہ
نہایت تشویش ناک صورت حال ہے۔ یہی نہیں بلکہ فریڈم نیٹ ورک کے تحت کی جانے
والی ریسرچ کے مطابق سن2000 سے اب تک 110صحافیوں کو باقاعدہ فقط ان کی پیشہ
وارانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جب کہ
صحافیوں کے اغوا ان پر تشدد اور انھیں دھمکیاں دینے کے اعداد و شمار اس سے
کہیں زیادہ ہیں۔
اس حوالے سے میڈیا سیکٹر اور سول سوسائٹی نے مل کر اس سنگین صورت حال پر
قابو پانے کے لیے باقاعدہ قوانین کا سوچا، تاکہ پروفیشنل اور نان پروفیشنل
صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے ایک ایونٹ کا انعقاد کیا
گیا جس میں صحافت سے متعلق کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب ایک صحافی معاشرے کے ناسوروں کو ان کے
انجام تک پہنچانے کے لیے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے
لانے کی کوشش کرتا ہے تو کس طرح صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور مختلف
طریقوں سے ان کی جان کو خطرہ رہتا ہے۔ عوام کو آگاہی دینے اور پاکستان کے
مستقبل میں حقیقی مثبت تبدیلی لانے کے لیے بلاشبہہ ایک صحافی نہایت اہم
مقام رکھتا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کو ہمیشہ ہی سے مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ صحافیوں کو
محفوظ کرنے لیے اقدامات کیے جانا ضروری ہیں، کیوں کہ صحافیوں کا تحفظ نہایت
اہم ہے۔ چاروں صوبوں میں دیکھا جائے تو صورت حال کافی غیراطمینان بخش ہیں
اس سلسلے میں فیلڈ ریسرچ کی گئی اور پورے پاکستان سے ایسے لوگوں کو منتخب
کیا گیا جو عملی صحافت، تعلیم، قانون اور مختلف سرکاری اور نیم سرکاری، نجی
فلاحی اداروں سے وابستہ ہیں۔ جب فائنڈنگز سامنے آئیں تو ایک حیران کن حقیقت
یہ تھی کہ صحافیوں کے حوالے سے کوئی سیفٹی لا پاکستان میں موجود نہیں ہے۔
جب ہم تحفظ کی بات کرتے ہیں تو یقیناً اس حفاظت کو حکومت کی طرف سے یقینی
بنانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے، کیوں کہ صحافیوں پر حملہ دراصل
جمہوریت پر حملہ ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان مسائل کے
پیشِ نظر وفاقی سطح پر ایک قانون صحافیوں کے تحفظ کے لیے بنائے جانے پر غور
کیا جارہا ہے۔ اور اس سلسلے میں مستقل طور پر فریڈم نیٹ ورک کی جانب سے
کوششیں کی جارہی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ان تک ایسا کوئی قانون صحافیوں کے تحفظ کے لیے نہیں
بنایا گیا جو اب بننے جا رہا ہے، جو کہ ممکنہ طور پر جرنلسٹ سیفٹی لا کا
نام پائے گا۔ توقع کی جارہی ہے کہ یہ قانون اس سال آزادیٔ صحافت کے عالمی
دن پر جاری کردیا جائے گا۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ پاکستان میں مستقل
صحافیوں کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔ ریاست کچھ جگہوں پر میڈیا کو اپنے لیے
خطرہ سمجھتی ہے اور بعض سیاسی ونظریاتی گروہ بھی میڈیا سے ناراضگی کا اظہار
تشدد کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس قانون کے ذریعے جن صحافیوں کو مشکلات کا سامنا
ہے و ہ قانونی مدد لے کر اپنا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ صحافیوں کو جن مسائل اور خطرات کا سامنا ہے وہ صر ف پاکستان
میں ہی ہیں۔ دنیا میں دیگر بہت سے ممالک ہیں جن میں صحافیوں کی جانوں کو
خطرات لاحق ہیں اور مختلف تنظیمیں اس حوالے سے اپنا کردار بہ احسن طریقے سے
انجام دے رہی ہیں اور مستقل حکومت کے رابطے میں ہیں، تاکہ جس حد تک ممکن ہو
ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایا جا سکے۔
اگر ہم میکسیکو کی بات کریں تو وہا ں صحافیوں کے تحفظ کے لیے اسپیشل
پروسیکیوٹر کا تقرر عمل میں لایا گیا، جس کے بعد اب تک میکسیکو میں صحافیوں
کے عدم تحفظ کے حوالے س صرف تین کیس فائل ہوئے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ
میکسیکو میں اب ایسے کیسیز پر ساٹھ فی صد پر قابو پالیا گیا ہے۔ اسی طرح
کولمبیا میں صحافیوں کو باقاعدہ شناخت دی گئی اور الارم سسٹم دیے گئے، تاکہ
وہ خطرے میں ہوں تو فوری طور پر کارروائی عمل میں لائی جائے۔ گوئٹے مالا
میں عوامی آگاہی کا کام کیا گیا۔ نیپال میں قانون کے تحت ہیومن رائٹس کمیشن
کے ذریعے صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا اور ایسا ہی کچھ ہونڈوراس میں
بھی ہوا۔
یہ ان ممالک کی مثالیں ہیں جنھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اپنے خطے کے
مخصوص حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی
اور کام یاب رہے۔ اب پاکستان میں انھی ممالک کی طرز پر کام کرنے کی ضرورت
کو زیرِبحث لایا جارہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں بنائے جانے والے قانون
میں کیا کیا شامل کیا جاسکتا ہے؟ صحافیوں کے تحفظ کے قانون کو مؤثر اور
سودمند بنانے کے لیے منعقدہ اس اجتماع میں اس حوالے سے باقاعدہ طور پر
سیفٹی کونسل بنانے کی تجویز دی گئی، جس میں سات نمائندوں کو شامل کیا جائے۔
ان میں دو ایم این اے حکومت اور اپوزیشن جماعت سے، ایک صحافی تنظیم کا
نمائندہ، ایک اسپیشل پروسیکیوٹر اور سول سوسائٹی کے نمائندے کو شامل ہوں۔
اس قانون کے تحت مستقل بنیادوں پر ڈیٹا بیس مرتب کیا جائے اور صحافیوں کے
لیے ایک انڈومنٹ فنڈ بنایا جائے، تاکہ صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کی مدد
کی جاسکے۔ کمپنسیشن پیکیجز دیے جائیں، جو صحافی نشانہ بنتے ہیں، دھمکیاں
ملنے کی صورت میں انہیں سیفٹی ہاؤسز دیے جائیں۔ صحافی عدالت میں اپیل کریں
تو اس کی شنوائی تیس دن کے اندر ہوجانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سیفٹی کونسل اور
اسپیشل پروسیکیوٹر کی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کی
جائے۔
محمد خان بریرو جو کہ انٹی ٹیررسٹ کورٹ میں اسپیشل پروسیکیوٹر ہیں، اس
حوالے سے کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کوئی
کام نہیں کیا جارہا اور صحافیوں کو انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔ قانون پر
عملدرآمد ہونا بہت ضروری ہے۔ پاکستان کی حکومت صحافیوں کے معاملے میں
سنجیدہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا کے ادارے ایسے کیسز میں صحافیوں کو شامل
نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب صحافیوں کے خلاف ہونے والے حملوں کو بھی
ٹیررازم میں شامل کیا گیا ہے۔ گواہوں اور پروسیکیوٹر کے تحفظ کو یقینی
بنایا جانا اس وقت ہماری سب سے اہم ترجیح ہونی چا ہیے۔ کراچی میں صحافیوں
کو بہت برے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ
میڈیا وہ فورم ہے جس سے تمام مسائل کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ جبارخٹک صاحب
اس حوالے سے کہتے ہیں کہ بل میں ایسی سفارشات بھی رکھی جائیں کہ صحافی خود
کو غیرمحفوظ سمجھتے ہوئے اپنا کیس فائل کر سکے۔ صحافی وڈیروں اور پولیس
افسران کے پریشر میں ہوتے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیموں کو بھی اپنے ساتھ شامل
کرکے کام کیا جائے۔ اس کے علاوہ میڈیا کے اداروں کے لیے سیفٹی سسٹم لاؤنچ
ہونے چاہییں۔
پروفیسر توصیف احمد خان صاحب کہتے ہیں کہ اس قانون پر عمل درآمد اسی وقت
ہوسکتا ہے جب کوئی وفاقی وزیر جیسے وزیرداخلہ اس کونسل کا سربراہ ہو۔ مظہر
عباس کا خیال ہے کہ اس کا سربراہ ایک ایڈیٹرکو ہونا چاہیے۔ دوسری اہم بات
یہ کہ اگر کوئی صحافی ڈیوٹی کے دوران مارا جاتا ہے تو اس کی تنخواہ تاحیات
اس کے گھر والوں کو ملتی رہے جو کہ ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ مظہر عباس کہتے
ہیں کہ وہ صحافی جو صحیح طرح تربیت یافتہ نہیں ہے کہ وہ کس طرح نیوز کے
ساتھ ڈیل کر سکتا ہے یا جس علاقے میں اسے بھیجاجارہا ہے اس علاقے سے اگر وہ
واقف نہیں ہے اور اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو متعلقہ ادارے کو اس
کا ذمہ دار ہونا چاہیے اور یہ شق صحافیوں کے لیے بنائے جانے والے قانون میں
باقاعدہ طور پر شامل کی جائے۔ فہیم صدیقی کہتے ہیں کہ بل کا نام جرنلسٹ
سیفٹی لا کے بجائے میڈیا ورکرز سیفٹی لا ہونا چاہے، تاکہ تمام افراد جو
میڈیا ہاؤسز سے تعلق رکھتے ہیں اس کے دائرے میں آجائیں۔ اس بل کے حوالے سے
اے پی این ایس کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔ نیز یہ کے کمپنسیشن کون دے گا؟
آیا حکومت دے گی یا ادارہ دے گا؟ یہ بھی طے ہونا چاہیے۔ کمال صدیقی صاحب اس
حوالے سے کہتے ہیں کہ صحافیوں کی تنخواہ کے معاملات کو بھی اس بل کا حصہ
بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت تنخواہ نہ ملنے کی صورت میں بھی قانونی مدد
لی جاسکے۔ میں نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ قانون میں صحافی کون ہے؟
اس کی تعریف کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک صحافی کو اس کی کسی تحریر
کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تو جس ادارے کے لیے وہ لکھتا ہے یا جس جگہ اس
کی تحریر شایع ہوئی ہے وہ ادارہ اس صحافی کی مدد کرنے کا پابند ہونا چاہیے۔
641صحافی مارے گئے جن میں سے دس فی صد صرف پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ
ایک انتہائی غیراطمینان بخش صورت حال ہے۔
صحافیوں کے لیے قانون سازی ایک خوش آئند بات ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ
قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے نہ صرف یقینی بنایا جائے بلکہ اس
قانون پر عمل پیرا نہ ہونے والے کو سزا کا مرتکب بھی سمجھا جائے۔
|