ہمسایہ ملک بھارت کے مسلمان معاشرے میں ’’تین طلاق ‘‘ کے
موضوع پر ایک نیا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جو آئے روز بڑھتا چلا جارہا ہے ۔
ابتداء میں بھارت کے مختلف ٹی وی چینلز نے اس موضوع پر بحث مباحثے کروائے
اور اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تنازعہ بھارت کی عدالت عظمیٰ یعنی
سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے اور سپریم کورٹ نے اس بابت مرکزی حکومت سے مئی
کے دوسرے ہفتے تک جواب طلب کرلیا ہے ۔مزید برآں یہ مسئلہ بھارتی ایوانوں تک
بھی جاپہنچا ہے اورحکومتی جماعت اور اپوزیشن جماعتیں اس مسئلے پر اپنا اپنا
ردعمل پیش کررہے ہیں یہی نہیں بھارتی وزیر اعظم کو خود اس مسئلے کے حل کے
لئے بیان جاری کرنا پڑا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے مودی سرکار کو ہی اس
تنازعہ کی سب سے بڑی وجہ قرار دے دیا ہے ۔
تنازعے کا آغاز 2013 ء میں اس وقت ہوا جب مدھیہ پردیش کی عدالت نے طلاق کے
مقدمے میں مسلمان مدعا علیہ کی جانب سے اپنی بیوی کو ایک نشست میں دی گئی
تین طلاقوں (طلاق ثلاثہ) کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا ۔ مدھیہ پردیش
کے رہائشی توصیف شیخ کی شادی 2013 ء میں عرشی خان نامی خاتون سے ہوئی تھی
لیکن توصیف نے شادی کے کچھ دن بعد ہی عرشی سے رقم کا مطالبہ شروع کردیا جس
پر عرشی اسے چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور اس نے اپنے شوہر کے
خلاف ’’انسداد جہیز ایکٹ‘‘ کے تحت مقدمہ دائر کردیا ۔
اکتوبر 2014 ء میں توصیف شیخ نے عدالت کے احاطے میں اپنی بیوی کو زبانی
طلاق دے دی جس کے بعد ایک قانونی نوٹس کے ذریعے اس نے اپنی بیوی کو اطلاع
دے دی کہ اس نے تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ عرشی خان اس نوٹس کے خلاف عدالت میں
چلی گئی اور اب عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے یہ طلاق کالعدم قرار
دے دی ہے ۔ عرشی خان کے وکیل نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ مدعا علیہ
نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ نہ صرف غیر
قانونی ہے بلکہ شریعت کے خلاف بھی ہے ۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے عدالت نے
یہ طلاق منسوخ کردی ۔
عدالت کے اس فیصلے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے شدید احتجاج کرتے
ہوئے کہا کہ ایک سیکیولر عدالت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس معاملے میں
فیصلہ صادر کرے کیونکہ شریعت کی تشریح صرف اور صرف علماء یا پھر وہ لوگ
کرسکتے ہیں جو شریعت کے ماہر ہوں ۔
تنازعہ یہاں سے بڑھتا ہوا سپریم کورٹ کی دہلیز تک جاپہنچا ۔ یہاں تین طلاق
یعنی طلاق ثلاثہ کو اتراکھنڈ کی ایک خاتون سائرہ بانو نے چیلنج کیا ۔
مذکورہ سائرہ بانو کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیت علمائے
ہند برسرپیکار ہیں ۔ یہ دونوں تنظیمیں تین طلاق کو جائز قرار دے کر سپریم
کورٹ میں سائرہ بانو کی درخواست کی مخالفت کررہے ہیں ۔ ایسے میں آل انڈیا
مسلم خواتین پرسنل لاء بورڈ کی صدر شائستہ امیر بھی سپریم کورٹ میں سائرہ
بانو کے حق میں پارٹی بننے جارہی ہیں ۔
دوسری طرف یہ مسئلہ بھارتی ایوانوں میں بھی گونجتا نظر آرہا ہے ۔ گزشتہ روز
یو پی حکومت کے وزیر سوامی پرساد موریا نے بھی ایک انتہائی متنازعہ بیان
دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ تین طلاق دینے والے مسلمان صرف اپنی ہوس
مٹانے کے لئے بیویاں بدلتے رہتے ہیں ۔ تین طلاق کے مسئلہ پر انہوں نے مزید
کہا کہ اس تنازعہ میں بی جے پی کی حکومت مسلمان خواتین کے ساتھ ہے ۔ ایک
نجی پروگرام میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سوامی پرساد موریا نے کہا کہ تین
بار طلاق بول کر شوہر اپنے ہی بیوی بچوں کو سڑک پر بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ
دیتے ہیں جسے کسی صورت اچھا نہیں کہا جاسکتا ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرا
مودی نے اس تنازعہ پر مسلم سماج سے تین طلاق کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کو
کہا ہے ۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ میں مسلم سماج کے لوگوں سے بھی اپیل
کروں گا کہ اس مسئلے کو سیاست کے دائرے میں مت جانے دیں ، مسلم سماج کے
دانشور لوگ آگے آئیں گے تو مسلم بیٹیوں کے ساتھ جو گزررہی ہے اس کے خلاف
لڑائی لڑیں گے تو راستہ نکلے گا ۔ وزیر اعظم مودی نے مزید کہا کہ تین طلاق
سیاسی موضوع نہیں ہے اور مسئلہ کے حل کے لئے خود مسلم سماج کو لڑنا ہوگا ۔
معاشرے کے تمام طبقے کے لوگ ایک ہیں اور اسی سے مضبوط قوم کی تعمیر ہوتی ہے
۔ عورتوں کے حق کے لئے سب کو آگے آنا ہوگا اور اسی سے معاشرے کے اندر
تبدیلی کا آغاز ہوگا ۔
تین طلاق کے تنازعہ پر مودی کا بیان سامنے آتے ہی اپوزیشن جماعت کانگریس نے
بھی اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے ۔ کانگریس کے جنرل سیکرٹری غلام نبی آزاد نے
ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ تین طلاق کے مسئلے پر سیاست کرنے میں مودی خود
چیمپین بن کر ابھرے ہیں ۔غلام نبی آزاد نے کہا کہ مودی خود اس مسئلے پر پر
سیاست کررہے ہیں تاکہ یہ مسئلہ سرد نہ پڑنے پائے ۔ کانگریس سمیت کسی بھی
اپوزیشن پارٹی نے نہ مسئلے کو چھیڑا ہے اور نہ ہی کبھی اس پر بحث کی ہے ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ لوک سبھا انتخابات سے قبل اور اس
کے بعد بھی آر ایس ایس اور بی جے پی نے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے اس
تنازعہ کو باقاعدہ ایک ایجنڈے کی طرح آگے بڑھایا ہے ۔ تین طلاق کے مسئلہ پر
یو پی کے وزیر سوامی پرساد موریا کے انتہائی متنازعہ بیان پر ردعمل کا
اظہار کرتے ہوئے غلام نبی آزاد نے کہا کہ اس معاملہ میں مودی کو چاہیے کہ
خود بھی کنٹرول میں رہیں اور اپنی پارٹی کے لوگوں کو بھی کنٹرول میں رکھیں
۔
چونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اس لئے یہ معاملہ آئے روز گرمی
پکڑتا جارہا ہے اور اس موضوع پر جاری بحث میں مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے
اور آئے روز یہ بحث دلچسپ ہوتی جارہی ہے ۔ اس بابت مئی کے دوسرے ہفتے تک
بھارت کی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کروانا ہے جس کے
بعد جولائی میں سپریم کورٹ میں اس مسئلہ پر بحث ہونے کے آثار ہیں ۔ تاہم آل
انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیت علمائے ہندنے ابھی سے یہ کہنا شروع
کردیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے تین طلاق پر پابندی لگانے کا فیصلہ سنایا تو
اس فیصلے کی جم کر مخالفت کی جائے گی۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران مسلم
سماج کی کئی تنظیمیں بھی اپنی رائے عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کریں گی ۔
بھارت میں یہ تنازعہ اس قدر طول پکڑ چکا ہے کہ اس کے فیصلے کا انتظار
مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ پورا ہندوستان اس فیصلے کا بے تابی سے ا نتظار
کررہا ہے۔
٭……٭……٭ |