شکاگو کے محنت کشوں کی لازوال قربانیوں کی یاد میں
منایا جانے والا مزدوروں کا عالمی دن 131 ویں سال میں پہنچ گیا ۔مزدوروں کے
بنیادی حقوق کیلئے کی جانے والی کامیاب جدوجہد نے آج بھی مزدوروں کو عالمی
طور پر ایک طبقہ میں جوڑا ہوا ہے۔ گو کہ طبقاتی بنیادوں پر کی جانے والی
سیاست کی عالمی حیثیت اس وقت موجود نہیں لیکن یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ
کیا جمہوری طرز سیاست مارکیٹ اکانومی کا سیاسی ہتھیار ہے۔عالمی کیپیٹل کے
سردار امریکہ کا سیاسی اثر و نفوذ اب وہ نہیں رہا جو سرد جنگ کے دور میں
تھا لیکن اب عالمی سطح پر دنیا کے تقسیم ہونے کے باوجود سرمایہ داری ایک
نظام کے طور پر کامن قدر کے طور پر حکمرانی کر رہی ہے۔اور اس حکمرانی کے
استحصال کا شکار محنت کش ہی ہے۔ پہلی دنیا ،دوسری دنیا یا تیسری دنیا
استحصال ایک جیسا ہی ہے۔ جدیدیت میں موجود معاشرے ہوں یا پسماندگی کی دوزخ
کا شکار، جانے انجانے میں حق حکمرانی ایسے افراد یا ایسی پارٹیوں کے سپرد
کرتے ہیں جو انکے استحصال میں اضافے کا باعث ہی بنتی ہیں۔
ٹریڈ یونین مزدوروں کا مورچہ مگر سرمایہ کاروں کا مزدوروں کو قانون کے
ضابطوں میں کنٹرول کرنے کا ہتھیار ہے۔عالمی مزدور تحریک کے کمزور ہونے سے
مزدوروں کی عالمی طور پر سیاسی جتھہ بندی کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔عالمی
مزدور تنظیمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں مزدوروں کی ڈیمانڈز پر اجتماعی سودے
کاری کررہی ہیں ۔انکے کریڈٹ میں کئی کامیابیاں بھی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت
ہے کہ یہ سب کچھ سرمایہ داری کے نظام کو مضبوط کرنے کا ہی باعث ہیں۔مزدوروں
کی یہ پیشہ ورانہ ڈیمانڈز،دارہ جاتی مطالبات کسی طور عالمی طور پر استحصالی
نظام کے خاتمے کی جانب کسی پیش رفت کی نشاندہی نہیں کرتے۔
پاکستان ایسے ممالک میں شامل سمجھا جاسکتا ہے جہاں منتخب حکومتوں کے تسلسل
کی جڑوں نے ا بھی مضبوطی حاصل نہیں کی چہ جائیکہ ہم نظام کی تبدیلی کی توقع
رکھ لیں۔لیکن ہر سطح پر ہونے والے بد ترین استحصال کا مشاہدہ کریں تو اس
بات کے ا مکانات روشن نظر آتے ہیں کہ محنت کشوں کے طبقاتی بنیادوں پر متحد
ہونے سے تبدیلی تیز رفتار آسکتی ہے بہ نسبت ترقی یافتہ دنیا میں۔ اسکی وجہ
یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سرمایہ بطور طبقہ متحد نہیں بلکہ یہ حکمرانی کیلئے
متحد ہے۔اپنی حکمرانی کیلئے اب تک یہ سیکورٹی پالیسی کے تحت عالمی سامراج
کے ماتحت پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے ماتحت کام کرتا تھا لیکن وقت کے
ساتھ عالمی سامراج امریکی سامراج کی سربراہی سے محروم ہوکر مارکیٹ اکانومی
کے سپرد ہوچکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں بھی جمہوری منتخب حکومتوں کے
کام کا راستہ ہموار ہوا ہے لیکن ماضی کے حکمران آسانی سے پیچھے ہٹنے کیلئے
تیار نہیں وہ اب براہ راست مداخلت کی طاقت سے محروم ہیں اس لیے اپنی سیاسی
پارٹیوں اور سیاسی قیادتوں کی سرپرستی میں لگے ہوئے ہیں انکی نظریاتی اساس
چونکہ کچھ نہیں ہے لہذا وہ فوری نوعیت کے سطحی نعروں پر سیاست کو تبدیل
کرنا اور اپنے پالنوں کو اقتدار پر لانا چاہتے ہیں ۔عوام کیلئے نا یہ اچھے
ہیں اور نہ ہی وہ جو ، اب تک اقتدار پر رہے ہیں ۔مگر یہ درست ہے کہ جو، اب
تک اقتدار پر رہے ہیں وہ نادیدہ قوتوں کی چالبازیوں سے واقف ہیں اس لیے
آسانی سے اشاروں پر ناچنے کیلئے تیار نہیں جبکہ اگر اشاروں پر ناچنے والے
اقتدار تک پہنچ گئے تو عوام کی مشکلات میں اضافہ اور محنت کش عوام کیلئے
منظم ہونا دشوار تر ہوجائے گا ۔عالمی اور علاقائی تضادات میں اضافہ ہوگا
اور ممکن ہے کہ پاکستان عالمی تنہائی میں چلا جائے یہ وقت ایسے حالات کو
جنم دے گا جس میں ایک بار پھر اقتدار کٹھ پتلیوں کے پاس ہوگا۔پاکستان میں
بہت سا عذاب کٹھ پتلیوں کے اقتدار میں رہنے کا ہی نتیجہ ہے۔
محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر لکھے جانے والے مضمون میں سیاست پر بات
عجیب سے لگتی ہے لیکن یہ محنت کشوں کے خراب حالات کو بدلنے کیلئے منائے
جانے والے دن کی عین ضرورت ہے کہ مزدوروں کے حقوق کے حصول کیلئے صف بندی
کرتے ہوئے درست طور پر سیاسی اقتدار اور معیشت پر بات کی جائے ۔اقتدار پر
قابض طبقہ اگر مزدور دشمن ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ محنت کشوں کے حق کی
پالیسیاں سامنے آئیں؟ اور یہ ممکن نہیں کہ سرمایہ داروں،جاگیر داروں،تجارتی
نمائندوں اور ملاؤں کے دم چھلہ بن کر محنت کش بطور طبقہ اپنے حالات بدل سکے۔
ہمیں عام حالات میں جس یوٹوپیائی حکمرانی کا خواب دکھایا جاتا ہے۔خواب
دکھانے والوں کو عقیدت کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو ان کے قول و فعل کا
تضاد صاف نظر آتا ہے۔
محنت کشوں کی بطور طبقہ تنظیم کا جائزہ لیا جائے تو انتہائی مایوس کن
ہے۔ایک ہی ادارے میں کئی کئی ٹولیوں میں تقسیم اپنی بے شعوری کے سبب ایک
دوسرے کے استحصال کا باعث بنتے ہیں ۔معاشرتی طور پر ہم
مذہب،قوم،زبان،نسل،ذات،شہری و دیہی وغیرہ وغیرہ کی تقسیم کے علاوہ وائٹ
کار،بلو کالر، ریگولر،کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز میں تقسیم ہیں۔ پبلک سیکٹر اور
پرائیویٹ سیکٹر کی تقسیم تو بتدریج ختم ہوجاتی جارہی ہے اس لیے کہ اب پبلک
سیکٹر کی نجی شعبہ کو حوالگی نا گزیر ہوچکی ہے۔ مزدوروں میں ایک تقسیم
تنظیموں کی شکل میں بھی ہے ایک ہی ادارے میں کئی کئی ٹریڈ یونینیں قائم کر
لی جاتی ہیں ۔ان ٹریڈ یونینوں کی موجودگی میں مزدور بھی تقسیم رہتے ہیں عام
طور پر اس قسم کی تقسیم پبلک سیکٹر کے اداروں میں دیکھنے میں آتی ہے۔ یہاں
اسکی بڑی وجہ سیاسی گروپس کی شناخت کیلئے ٹریڈ یونینیں قائم کرنا ہے اسکے
مقابلے میں سیاسی پارٹیوں کے لیبر ونگ نجی شعبے کے اداروں میں ٹریڈ یونینیں
قائم نہیں کرتے۔پبلک سیکٹر کے اداروں میں انتظامی عہدوں پر فائز افسران باپ
کا مال سمجھ کر ان ٹریڈ یونینوں کے کارکنوں کو سہولیات بہم پہنچاتے ہیں جن
کے حصول کیلئے یہ اپنے اپنے ونگ اور پارٹیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مزدوروں
کو تقسیم رکھنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
پاکستان میں پبلک سیکٹر اور سرکاری شعبہ کے مزدوروں کے حالات کار ہی بہتر
ہیں سرکار اپنی حکمرانی میں ہاتھ بٹانے والے ان ملازمین کی تنخواہوں اور
سہولیات میں مسلسل اضافہ کرتی ہے جبکہ نجی شعبہ کے مزدوروں پر کم از کم
تنخواہ کا قانون بھی عمل نہیں کروایا جارہا ہوتا ۔اسکی ایک مثال مالی
اداروں کی ہے پاکستان کے جو بینکس نجی شعبے کے حوالے کیے جاچکے ہیں ان میں
کام کرنے والے خواہ اپنے آپ کو مزدوروں کی کلاسیکل تعریف سے جدا سمجھتے
ہوئے خود کو مزدور نہ سمجھتے ہوں لیکن اس وقت سب سے زیادہ استحصال کا شکار
ہیں جہاں انکے آنے کا وقت مقرر ہے لیکن واپسی کا وقت کوئی نہیں ۔ بد قسمتی
یہ ہے کہ محنت کش طبقہ جن کیلئے دن رات زندہ باد،مردہ باد کے نعرے بلند
کرتا ہے ۔ جن کے جلسوں کی رونق دوبالا کرتا ہے ان میں سے کوئی بھی انکے
مسائل کا حل نہیں ۔ اگر آپ تمام سیاسی پارٹیوں کی قیادتوں کا فرداً فرداً
مشاہدہ کرلیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انکے اپنے کاروباری اداروں میں مزدور
قوانین کی پامالی ویسے ہی ہوتی ہے جیسے دیگر عام بزنس مین کے کاروبار میں ۔
یہ اسے مارکیٹ ریٹ کہہ کر بری الزمہ ہوجاتے ہیں ۔
درج بالا بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ مزدوروں کے مسائل کا
حل صرف یہی ہے کہ دنیا اور ملک میں شراکتی معیشت قائم کروانے کیلئے مزدور
تنظیمیں خود جدوجہد کریں اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے جب مزدور اپنی قیادت ،اپنی
سیات اور اپنی پارٹی کے جھنڈے تلے جاری نظام میں جدوجہد کریں گو کہ یہ جوئے
شیر لانے کے مترادف ایجنڈا ہے لیکن اسکے علاوہ اپنی تقدیر بدلنے کا کوئی
اور راستہ بھی نہیں۔ |