ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظرآج کا مسلمان
تذبذب،کشمکش اور انجانے خوف کا شکار ہے۔ہندوستانی سیاست میں اُتھل پُتھل
اور مختلف ریاستوں میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی جیت کے ساتھ کٹّر ہندوتوا
سنگھٹناؤں کے ذریعے کی جانے والی بے لگام حرکات کی بدولت اقلیتی طبقے خوف
وہراس کا شکا رہیں۔پچاس سال پہلے جس پارٹی کے پاس صرف دو نمائندے بچے تھے
آج وہ پارٹی ہندوستانی آئین سے لفظ’’سیکولر‘‘ہٹانے اور جمہوریت کا گلاگھونٹ
کر’’ ہندوراشٹر‘‘ بنانے کے بے راگ نغمے اَلاپ رہی ہے۔مسلسل بیان بازی کا
سلسلہ دراز ہے اورمختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے مذہب اسلام کو نشانہ بنایاجا
رہاہے ۔لَوجہاد ،دھرم پریورتن،گؤکشی ہتھیا،تین طلاق ،تصویر کشی اور
گاناگانے جیسے مُدّے اُٹھا کر صرف اور صرف مسلمانوں کو خاموش کرانے اور
ڈرانے کامنصوبہ بنایاگیاہے۔ اصل میں ہم نے عملی طور پر اسلام کو پیش کرنے
کی کوشش ہی نہیں کی ۔ہمارے یہاں ہر بات پر فتویٰ ہے جب کہ حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم نے احکامات سے پہلے عملی تصویر پیش کی تھی اور آج ہم پریکٹیکل پیش
کرنے کی بجائے صرف تھیوری پر اکتفا کررہے ہیں۔غیروں نے ہماری تھیوریز (قرآن
واحادیث)کو ہم سے زیادہ پڑھااور سمجھا ہے اسی لیے انھیں اسلام سے ڈر اور
خوف ہے۔ہمیشہ کی طرح آج بھی تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل کی ضرورت ہے۔ایک مثال
کے ذریعے عمل کی اہمیت کو سمجھیں۔ہمارے تعلیمی ادارے میں پچیس سالوں سے ایک
غیر مسلم خاتون سروس کررہی ہیں مگر ہماراپورااِسٹاف مل کراسے اسلام سے
متاثر نہیں کرپایاجب کہ وہ اپنے اصول،زبان اور بیان کے اعتبار سے تمام
مسلمانوں میں ممتاز ہے۔اسی کے برعکس ہمارا ایک ٹیچر غیر کے ادارے میں جاکر
انہی کے رنگ میں رَنگ جاتاہے۔غیروں کو ہم نے اپنے عمل کے ذریعے سے اسلام کے
قریب کرنے کی کوشش ہی نہیں کی،وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ مسلمان چوری،
ڈکیتی، زِنا، مرڈر، جھوٹ،فریب،دغا،جھوٹی گواہی،سود خوری اور اَنگِنت اخلاقی
برائیوں کا شکار ہیں۔غیروں اور مسلمانوں کے مابین ایسی کوئی چیز نظرہی نہیں
آتی جو مسلمان کو ممتاز کرے۔ جب کہ ہماری تھیوریز میں مذکورہ تمام باتوں کی
ممانعت موجودہے۔معلوم یہ ہواکہ اسلام کے خلاف ہونے والی زہر افشانیوں کی سب
سے بڑی وجہ کہی نہ کہی ہم خود ہے۔ سیاسی شعور کی بات کی جائے تو وہ بھی ہم
میں ناپید ہے۔کسی کے بہلاوے میں ہم بہت جلد آجاتے ہیں اور جنھیں ہم اپنا
رہنما تسلیم کرتے ہیں وہ قوم کا سَودہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔اس
کی سب سے بڑی وجہ حکمت عملی کی کمی،منصوبہ بندی کا فقدان اور سیاسی وِژن کا
نہ ہوناہے۔جس جماعت پر ساٹھ ستّر سال قبل پابندی لگانے کی بات ہورہی تھی آج
وہی جماعت اپنے نمائندے ایوان میں مسلسل بھیج رہی ہے۔ہماری جماعتیں تو صاف
وشفاف ہیں،مسلم جماعتوں کے قائدین نے آزادیِ ہند کے لیے اپنی شریانوں سے
خون بہایاہے،اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ غیروں نے جتنا پسینہ نہیں
بہایاہے اس سے کہی زیادہ ہمارے رہبروں، رہنماؤں اور قائدین نے اپنا خون
بہایا ہے، مسکراتے ہوئے تختہ ٔدار کو بوسہ دیا ہے اور انقلاب کی چنگاری کو
آزادی میں تبدیل کیاہے۔باوجود اس کے سیاسی میدان میں ہمارے وقعت محض کٹھ
پُتلی جیسی ہے۔ایسا لگتاہے کہ بی جے پی کو ہرانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی
منصوبہ ہی نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ راقم بی جے پی کی حمایت کررہا ہے، یہاں
مقصد کسی کی حمایت یا مخالفت کرنانہیں ہے بلکہ فکروشعور کی بالیدگی مقصود
ہے۔ہر سیاسی جماعت کے منشور اور ان کے عملی اقدام پر طائرانہ نظردوڑائے تو
معلوم ہوگا کہ کوئی بھی جماعت مسلمانوں کے حق میں مفید نہیں ہے۔کوئی کھُلا
دشمن ہے تو کوئی چھُپا۔ایسے میں ہمیں صرف مسلمان بننا ہے۔کسی کی نیّامیں
سوار ہوکر اپنی کشتی ہرگز نہیں تیرائی جا سکتی،اپنی کشتی کی نگہبانی ہمیں
خود کرنا ہوگی،کسی جھولی میں بھیک میں پڑے سکّوں کی مانند پڑے رہنے سے بہتر
ہے کہ ہم اپنی اہمیت کو جانیں،سمجھیں اور اپنا استحصال ہونے سے محفوظ
رہیں۔ہم چاہے جتنے بھی آزاد خیال ہوجائیں،ہم چاہے اسلام سے زیادہ کسی کو
بھی چاہنے لگیں،ہم چاہے احکام ِ خداوندی سے زیادہ غیروں کی باتیں مانیں تب
بھی بحیثیت مسلمان ہمیں مرنا ہی ہوگا۔ ملیشیا، افغانستان، عراق، اُندلس،
ایتھوپیا وغیرہ کے نظارے ہمارے لیے درس عبرت ہے۔وہ اپنی بیٹیوں کی شادیاں
غیروں سے کرتے تھے،ان کی محفلوں کی رونق بنتے،بلکہ صرف ان کا نام اسلامی
تھا کام مکمل غیر اسلامی۔پھر بھی ان کے گلوں پر چھُریاں پھیری گئیں،ان کی
عورتوں کے بطن سے ناجائز اولادیں پیدا کی گئیں اور ان کے ننھے ننھے زندہ
بچوں کے جسموں پر گھوڑے دوڑا دیے گئے۔چاہے ہم اسلام سے جتنی دوری اختیار
کرلیں اور احکام ِ خداورسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے جتنی چاہے بغاوت کرلیں مگر
بہر حال مرنا ضرورہے۔جب مرنا ہی ہے تو کیوں نہ ہم اسلام پر مرے تاکہ ہمارا
پرورگار ہم سے راضی ہواور جنت الفردوس کی نعمتیں ہمارااستقبال کررہی
ہوں۔ہمارے دروازوں پر ہر روز دی جانے والی دستک اس بات کی جانب اشارہ کررہی
ہے کہ اسلام کی جانب لوٹ آنے کا وقت آگیاہے۔ایک چرواہاجب بکریاں چراتاہے تو
ساتھ میں کچھ کُتّے بھی رکھتا ہے تاکہ ریوڑ سے الگ ہوجانے والی بکریوں کو
وہ کُتّا بھونک کر اور کانٹ کر دوبارہ ریوڑ میں لے آئیں۔ہم بھی اپنے ریوڑ
سے دور جا چکے ہیں۔طاغوتی قوتوں کے موجودہ کُتّے اور بھیڑیوں نے ہم پر
بھونکنا شروع کردیا ہے ،اس سے پہلے کہ وہ کاٹنا بھی شروع کردیں لوٹ آئیں
اپنے ریوڑ میں۔پناہ حاصل کرلیں خدائے عزوجل کی۔جس دن ہم اپنے مذہب پر لَوٹ
آئیں گے ان شآاﷲ تعالیٰ اس دن سے ہماری عظمت وشوکت کاڈوباہواسورج پھر طلوع
ہوگا،مدینۂ منورہ سے نوارانی کرنیں ہمارے حوصلوں کو جِلہ بخشیں گی اور
اسلامی پرچم پوری شان وشوکت کے ساتھ اکناف عالم میں عام ہوگا۔
یہ شہادت گہہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا |