اے اہلِ وطن آپ نے شہروں کے تمام چوکوں چوراہوں پر
گینتیاں، بیلچے وغیرہ سجائے کم عمر بچوں سے لے کر انتہائی ضعیف ہڈیوں کے
ڈھانچے افراد بیٹھے ضرور دیکھے ہوں گے۔لمبی لمبی لائینیں لگائے متشرع افراد
جیسے ہی کسی فرد یاگاڑی کو اپنی طرف آتے دیکھتے ہیں انکی آنکھیں چمک اٹھتی
ہیں۔ جب آنے والے ایک دو مزدور لے کر چلے جاتے ہیں تو باقی افراد کے چہروں
پر مایوسی طاری ہوجاتی ہے۔ جب دھوپ شدید ہوتی ہے تو مایوسی سے واپس اپنے
ٹھکانوں پر چلے جاتے ہیں۔ کسی سے بھیک نہیں مانگتے ہاں انکے دلوں سے آہیں
اٹھتی ہیں جو عرشِ الہٰی کو ہلادیتی ہیں۔ اب یہ غریب مزدور رب پر تکیہ کیئے
دوسری صبح کا انتظار کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بھوکے سوجاتے ہیں یا دس روپے
کی روٹی لے کر پانی کے ساتھ پیٹ کو سہارا دے کر اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہوکر
سوجاتے ہیں۔ جبکہ حکمران قومی خزانے کو اپنی عیاشیوں پر اڑاتے ہیں۔ یکم مئی
مزدوروں کا دن، عام تعطیل کی وجہ سے کئی مزدور بلامعاوضہ چھٹی پر ہیں۔ آج
ان کو اور انکے بچوں کو کس نے روٹی دی؟ بڑے ہوٹلوں میں حکمرانوں ، حقوقِ
انسانی کی تنظیموں نے لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کرکے اپنی تشہیر کی، سیاسی
جماعتوں اور ڈاکو وزیر اعظم نے کہا کہ مزدوروں کے لیئے قوانین بنا رہے ہیں۔
جو خود کارخانہ دار ہے اور مزدوروں کا دشمن ہے وہ تو مزدور سے محنت کرکے
جاتی امرا کی تعمیر کرتا ہے اور اسکو دیکھ کر پورے ملک کا کلچر ظالم ہوچکا
ہے۔ کوئی بھی سیدنا فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کا پیروکار نہیں۔ میں تو
مزدوروں سے کہوں گا کہ اپنا حق خود لو۔ تمہاری محنت ، تمہارا خون ان سرمایہ
داروں کے محلات کی بنیادوں میں ہے۔ یکم مئی کی تقریبات منافقانہ چال ہے ۔
مزدور تنظیمو! کسی سیاستدان کی باتوں میں نہ آؤ۔ اپنی مقدر خود بناؤ اور
ؓٓؓٓباہر نکلو۔ جس کھیت سے تمہیں روزی نہیں ملتی اس کھیت کو جلا دو۔ سب
انسان برابر ہیں کوئی تمہاری محنت اور تمہارے وسائل پر کیوں قبضہ کرے۔ اب
نکلو اﷲ تمہارا مدد گار ہے۔ |