موسم نے انگڑائی لی، گرمی کا زور شروع ہوا تو روایتی طور
پر قوم کی چیخیں نکل گئیں۔ گرمی سے بچنے کے جنتے جتن تھے، اور عوام کے بس
میں جو کچھ تھا ، انہوں نے کیا۔ کچھ نے اے سی لگوا لئے، کسی نے ائیر کولر
کا بندوبست کرلیا، کوئی شمالی علاقوں میں نکل گیا، کسی نے لباس مختصر کر
لیا، اور کسی نے گرمی کو برداشت کرنے کا تہیہ کرلیا۔ اسی طرح حکومت نے بھی
اپنے حصے کے فرائض ادا کرنے میں قطعاً کوتاہی نہیں کی، بلکہ بندوبست یوں
کیا کہ جوں جوں گرمی بڑھتی گئی، لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوتا گیا۔ قوم نے گرمی
سے بچنے کے ساتھ ساتھ چیخنے اور شور شرابہ کرنے کا اہتمام بھی کیا، جلوس
نکالے، ہنگامے کئے، احتجاج کئے اور لگتے ہاتھ پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے
بعد مٹھائی وغیرہ سے منہ بھی میٹھا کیا۔ موسم ، عوام اور واپڈا کی آنکھ
مچولی جاری تھی کہ بادل گھِر آئے، تیز ہواؤں نے گرمی کو بھگا دیا (اگرچہ یہ
عمل صرف دو تین دن ہی جاری رہ سکا)۔ گرمی کے کانوں میں شاید حکومت کی ایک
منصوبہ بندی کی بھنک پڑ گئی تھی کہ اب وزارت موسمیاتی تبدیلی نے ملک بھر
میں دس کروڑ سے زائد پودے لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے، اس پر تقریباً ساڑھے
تین ارب روپوں کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ محکمہ مذکور کا یہ
منصوبہ 2021ء میں مکمل ہو گا۔ جنگلات کی بحالی کے لئے گرین پاکستان پروگرام
کے تحت وزیراعظم کی ہدایت پر شروع کیا گیا ہے۔
محکمہ موسمیاتی تغیرات کا یہ منصوبہ شاید زیادہ کامیابیاں نہ سمیٹ سکتا،
اگر اس میں وزیراعظم کی ’ہدایت‘ کا تڑکانہ لگایا جاتا۔ یہاں کسی کو یہ خیال
دل میں لانے کی ضرورت نہیں کہ اگر ہر کام کی ہدایت وزیراعظم یا وزیراعلیٰ
وغیرہ نے ہی کرنی ہے، تو محکمہ خود کیا کرتا ہے؟ یہ محکمے بھی کیا کریں،
اپنے ہر اچھے (برے) کام کا کریڈٹ وقت کے حکمرانوں کو دینا اِ ن محکموں اور
اداروں وغیرہ کی مجبوری ہوتی ہے۔ گرین پاکستان کا منصوبہ ایک تصوراتی کام
ہے، مگر اس پر عمل کرنا قطعاً ناممکن نہیں، اپنے ہاں دراصل شجر کاری نے
سبزپاکستان کے معاملات کو کافی بدنام کر رکھا ہے، ہر سال شجر کاری ہوتی ہے،
صدر، وزیراعظم سمیت اداروں کے سربراہان اپنے اپنے اختیار کے علاقوں میں
پودے لگا کر شجر کاری کا آغاز یا افتتاح کرتے ہیں، گویا عوام کے لئے اشارہ
ہوتا ہے کہ وہ بھی ٹوٹ پڑیں اور ہر طرف پودے لگا کر ماحول کو سرسبز بنانے
میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔ اخبارات اور میڈیا میں ایسی مہمات کی تشہیر بھی
کی جاتی ہے، بعض اوقات تو ازراہِ کرم پودوں وغیرہ کی اہمیت، ان کی حفاظت
وغیرہ کے معاملہ میں معلومات بھی دی جاتی ہیں، اور قوم کو جنگلوں افادیت سے
آغاہ کیا جاتا ہے ۔ مگر ستم یہ ہوتا ہے کہ جتنے پودے لگائے جاتے ہیں، ان
میں سے نہایت ہی کم تعداد ، جسے آٹے میں نمک سے بھی کم کہا جا سکتا ہے، بچ
پاتے ہیں، کیونکہ زیادہ تر پودوں کو لگانے کے بعد پوچھا ہی نہیں جاتا، یوں
وہ بے مروتی کا سامنا کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں، کچھ خود رو کی شکل اختیار
کرلیتے ہیں ، کہ وہ بچ تو جاتے ہیں، مگر بہتر نگرانی نہ ہونے کی بنا پر
اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتے۔ صرف چند پودے ہی ایسے ہوتے ہیں، جنہیں درخت
بننا نصیب ہوتا ہے۔ مگر دوسری طرف جہاں کہیں چھوٹے موٹے جنگلات ہیں، وہاں
شام کے وقت کنارے پر کھڑے ہو کر ایک کربناک منظر دیکھا جاسکتا ہے، کہ بہت
سے افراد، جن میں سے اکثر اسی جنگل کے ملازم ہوتے ہیں، سروں، سائکلوں، موٹر
سائیکلوں یا دیگر ذرائع کے ذریعے سے لکڑیوں کے ٹکڑے اٹھا کر لے جارہے ہوتے
ہیں۔ گویا جتنے پودے لگائے نہیں جاتے جتنے کاٹ لئے جاتے ہیں، ہر جنگل میں ،
نہروں کے کناروں اور دیگر مقامات پر موجود جنگلوں کے ساتھ ہی ٹمبر مافیا
بھی اپنے دھندے میں مصروف ہوتا ہے۔ اب حکومت اربوں روپے لگا رہی ہے تو اس
کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اُسی کو اٹھانی چاہیے۔ پاکستان میں بننے والی
شاہراہوں کے کناروں پر بھی درخت دکھائی دینے لگے ہیں، اور ون وے کے درمیان
والے حصے میں بھی درخت یا پودے موجود ہیں، ان کو پانی بھی دیا جارہا ہے، تو
کثیر سرمائے سے لگنے والے دس کروڑ پودوں کی حفاظت بھی ہو سکتی ہے، ورنہ یہ
خطیر رقم محکمہ کے اہلکاروں کے گھر بار کو تو سرسبز کرنے کا موجب بن سکتی
ہے، پورے پاکستان کی نہیں۔ اگر حکومت اور پوری قوم عزم کرلے تو موسم کے
تیور تبدیل کئے جاسکتے ہیں، آزمائش شرط ہے، مگر ہم آزمائشوں پر پورے اترنے
والے کہاں؟ |