رشتے

انسانی زندگی میں انسان کے باہمی رشتوں و تعلقات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں انسانی زندگی میں رشتوں کو کلیدی اہمیت حاصل ہے رشتے کئی قسم کے ہوتے ہیں جن میں فطری قانونی اور روحانی رشتے شامل ہیں سب سے پہلے بنی نوع انسان کا انسانیت کے رشتے سے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق قائم ہے جس کے باعث ایک انسان دوسرے انسان کے لئے خود میں کشش محسوس کرتا ہے اور یہی کشش انسان سے انسان کے مزید رشتے یا تعلقات استوار کرنے کا باعث بنتی ہے یہ قدرت کا نظام بھی ہے اور انسانی زندگی کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے انسان کی فطری ضرورت بھی اس لحاظ سے جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے بنیادی طور پر انسانی رشتوں کی تقسیم بالترتیب تین قسم کے رشتوں میں منقسم کی جا سکتی ہے یعنی فطری رشتے، قانونی رشتے اور روحانی رشتے-

فطری رشتے وہ رشتے ہوتے ہیں جنہیں عرف عام میں خون کے رشتے یا خاندان کے رشتے کہتے ہیں ان رشتوں میں ماں باپ بہن بھائی اور والدین شامل ہیں پھر اسی لحاظ سے والدین کی نسبت سے ددھیالی اور ننھیالی رشتے-

دوسرے قانونی رشتے یعنی نکاح کے ذریعے بیوی اور شوہر کا رشتہ اور اس رشتے کی نسبت سے سسرالی رشتے شامل ہیں-

تیسرے یعنی روحانی رشتے یا تعلقات کا تعلق بالترتیب اساتذہ ہم جماعت دوست اور ہمسایوں وغیرہ سے جبکہ انہی رشتوں میں نظریات و عقائد کی ہم آہنگی سے قائم ہونے والے تعلقات یا رشتے بھی شامل ہیں-

مذکورہ تمام تعلقات کی اپنی اپنی اہمیت اور نوعیت ہے اور اسی حوالے سے ان تمام انسانی رشتوں کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق و فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کا نبھانا ہر انسان کے لئے اپنے رشتے کی نوعیت کے اعتبار سے بہت ضروری ہے اور ذمہ داریوں کا خوش اسلوبی سے نبھانا ہی رشتوں کی اہمیت ظاہر کرتا اور رشتوں کو کامیابی سے نبھانے کا اصول ہے-

جہاں تک خونی رشتوں کے نبھانے کا تعلق ہے تو خونی رشتوں سے محبت ہونا پر انسان کی فطری مجبوری ہے اور قدرت کا نظام بھی ہے کہ رب تعالٰی نے انسان کے دل میں اپنے قریبی رشتوں کے لئے جذبہ محبت بہ نسبت دیگر انسانی رشتوں کے زیادہ رکھا ہے دیکھا جائے تو کچھ رشتے بنے بنائے ہوتے ہیں جبکی کچھ رشتے انسان نے خود بنانے ہوتے ہیں رشتے بنانا بہت قدرے آسان ہوتا ہے لیکن رشتوں کو نبھانا اتنا سہل نہیں ہوتا جتنا کہ سہل رشتے بنانا ہوتا ہے یہ تو ہوئے قدرت یا قسمت سے بنے بنائے عام رشتے-

ان رشتوں کے علاوہ بھی دنیا میں انسانوں کے دیگر انسانوں سے جن سے خونی یا قانونی رشتہ بظاہر کوئی نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ایک انسان کا دوسرے انسان سے روحانی طور پر بہت گہرا رشتہ استوار ہوتا ہے جنہیں بظاہر کوئی نام دینا بےمعنی سا لگتا ہے لیکن کسی انسان کا کسی دوسرے انسان سے کسی بےنام تعلق کا وابستہ ہو جانا بھی ایک حقیقت ہے اور بعض اوقات تو ان روحانی رشتوں کی اہمیت پہلی نوعیت کے رشتوں سے بھی کہیں زیادہ بڑھ جاتی انسانی تاریخ پر مذہبی و سیاسی یا ادبی و روحانی حوالے سے نظر دوڑائیں تو ایسے بہت سے رشتوں کے متعلق واضح انکشافات منکشف ہوں گے اور بہت سی مثالیں تو آج بھی انسانیت کو ازبر ہیں اور آج کے دور میں بھی اس طرح کے تعلقات کی مثالیں دنیا میں موجود ہیں کہ انسان کا انسان سے روحانی تعلق کی استواری کا سلسلہ آج بھی جاری و برقرار ہے-

چونکہ ایک انسان کا دوسرے انسان سے بظاہر کوئی تعلق یا رشتہ ہو یا نہ ہو انسانیت کا رشتہ ضرور ہوتا ہے اور یہی وہ تعلق یا رشتہ ہے جس کے تحت انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کے لئے مختلف قسم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور انہی جذبات کے تحت انسانوں کے مابین نئے تعلقات بنتے ہیں ان میں کچھ تعلقات تو مثبت نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ کچھ منفی نوعیت کے تعلقات بھی بنتے رہتے ہیں-

مثال کے طور پر ایک دوسرے کے لئے ہمدرردی مانوسیت ایثار یا قربانی وغیرہ کا جذبہ پیدا ہونا یہ مثبت نوعیت کے تعلقات استوار ہونے کے باعث کسی ایک انسان یا بہت سے انسانوں کے دل میں کسی ایک یا بہت سے انسانوں کے لئے پیدا ہوتا ہے انسانیت کے اس تعلق کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کسی انسان پر یا کسی قوم پر کوئی نا گہانی افتاد آ پڑتی ہے تو اپنے اسی تعلق کی بنا پر انسان کے دل میں جذبہ ایثار و قربانی کا بیدار ہونا ہے اور یہی انسان کا انسان سے انسانیت کے تعلق کا بین ثبوت ہے-

یوں تو ہر انسان کا دوسرے انسان سے انسانیت کا رشتہ قائم ہے تمام بنی نوع انسان اولاد آدم کہلاتی ہے اللہ رب العزت نے تمام انسانوں کو ایک ہی طرح پیدا فرمایا ہے ہوا پانی آگ اور مٹی ان چار عناصر کی آمیزش سے انسان کا خمیر یا مرکب تیار کیا ہے اسی لئے ہر انسان دوسرے انسان کے لئے خود میں کشش محسوس کرتا ہے اکثر آپ نے بھی کبھی یہ محسوس کیا ہوگا کہ جب ایک انسان کسی اجنبی انسان سے ملتا ہے تو ایک دو ملاقاتوں کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پہلے بھی ہم ان لوگوں سے مل چکے ہیں یا بہت عرصے سے جان پہچان ہو کہ کسی اجنبی سے مل کر بھی انسان کو یہ لگتا ہے جیسے پہلے سے ملتے رہے ہیں بہت سی شکلیں انسان کو پہلی بار دیکھنے کے باوجود بھی جانی پہچانی یا پہلے سے دیکھی بھالی محسوس ہوتی ہیں-

رشتے یا تعلقات کیسے بنتے ہیں خونی یا فطری رشتے قدرتی ہوتے ہیں اور ان رشتوں کو نبھانا انسان کی فطری مجبوری عادت یا ضرورت ہوتی ہے خون کے رشتوں میں قدرتی طور پر ایک دوسرے کے لئے محبت ہمدردی ایثار اور قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے والدین کا اپنی اولاد سے محبت کرنا ایسے ہی اولاد کا اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے لئے محبت کا جذبہ انسان کی فطرت میں شامل ہے ان رشتوں کو نبھانا آسان بھی ہے اور انسانی معاشرت کے لئے قابل قبول بھی فطری رشتوں کو تو تقریباً ہر انسان ہی بہت آسانی سے نبھا سکتا ہے اور نبھا بھی لیتا ہے-

دوسری بات قانونی رشتوں کی ہے کہ انہیں انسان کو نبھانا پڑتا ہے اور جو کام کرنا پڑتا ہو اس میں جبر یا مجبوری ہے لیکن بہت سے کام انسان کو کرنے ہی پڑتے ہیں اور کرنے ہی چاہئیں لیکن اس میں مجبوری کا دخل نہیں ہونا چاہئیے خوشی اور مرضی کا دخل ہوبھی نا چاہئیے کہ جبر کی زندگی انسان کی روحانی موت کے مترادف ہوتی ہے سو قانونی رشتوں میں جبر کا عنصر دکھائی دیتا ہے جبکہ بعض روحانی رشتوں میں کبھی کبھی قسمت کا عمل دخل ہوتا ہے تو کبھی انسان کی ذاتی دلچسپی پسند اور مرضی شامل ہوتی ہے چونکہ رشتے انسانی زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں رشتے بنانا آسان لیکن نبھانا مشکل ہوتا ہے انسان کا المیہ یہ ہے کہ اسے بعض رشتے نہ چاہتے ہوئے بھی نبھانا پڑتے ہیں جبکہ بعض رشتے نہ چاہتے ہوئے بھی توڑنا پڑتے ہیں-

کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو ٹوٹ کر بھی ٹوٹ نہیں پاتے اور کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو جڑ کر بھی جڑ نہیں پاتے نئے رشتے بنانے سے پہلے انسان کو یہ سوچ لینا چاہئیے آیا کہ وہ نئے رشتوں کے تقاضے پورے کر سکتا ہے یا نہیں اس لئے پہلے بنے ہوئے رشتوں کو نبھانا سیکھے پھر نئے رشتے بنانے کا سوچے جو شخص ہنے بنے بنائے یعنی فطری و قدرتی رشتوں کو خوش اسلوبی سے نبھانے کے قابل نہ ہو وہ کیسے نئے قانونی یا روحانی طور پر استوار شدہ رشتوں کی ذمہ داری نبھا سکتا ہے-

نئے رشتے بنانے سے پہلے یہ دیکھیں کہ آپ پرانے رشتے نبھانے میں کس قدر خوش اسلوب اور ذمہ دار ہیں اگر تو آپ اپنے فطری رشتوں کی ذمہ داری بہ احسن و خوبی نبھا رہے ہیں تو یقیناً نئے رشتوں کو بھی بہ احسن و خوبی نبھانے کہ قابل ہیں نئے رشتے قائم کرنے کا حق ایسے ہی لوگ رکھتے ہیں جو پرانے اور نئے رشتوں رشتوں میں توازن عدل اور انصاف برقرار رکھ سکتے ہوں آخر میں ایک بار پھر بس یہی عرض کرنا ہے کہ رشتے بنانا آسان لیکن نبھانا مشکل ہے پہلے پہلے پرانے رشتے نبھانا سیکھیں پھر نئے رشتے بنانے کا سوچیں-
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 456268 views Pakistani Muslim
.. View More